چِڑیا: ''چ‘‘ کی زیر کے ساتھ چھوٹے پرندے کو ''چِڑیا‘‘ کہتے ہیں، لیکن کئی اہلِ زبان کو ''چُڑیا‘‘ بولتے ہوئے سنا ہے‘ جو درست نہیں ہے۔
تَجْرِبَہ: ''ت‘‘ کے زبر اور ''ر‘‘ کی زیر کے ساتھ یہ لفظ ''تَجْرِبَہ‘‘ ہے، بہت سے حضرات ''تَجَرْبَہ‘‘ اور ''تَجُرْبَہ‘‘ بولتے ہیں، یہ غلط ہے۔
قَبرِستان: یہ ''ر‘‘ کی زیر کے ساتھ ''قَبرِسْتَان‘‘ ہے، جہاں بہت سی قبریں ہوں، کراچی میں بعض اہلِ زبان کو ''ر‘‘ کے پیش کے ساتھ ''قَبرُسْتَان‘‘ بولتے سنا ہے، یہ درست نہیں ہے، یہ فارسی لفظ ہے۔
عربی کا ایک اصول ہے: ابتدا بالسّکون محال ہے، یعنی کسی لفظ کا پہلا حرف ساکن نہیں ہو سکتا، انگریزی کے وہ الفاظ جن کے شروع میں ''S‘‘ آتا ہے، اردو والے اُس کے شروع میں الف لگاتے ہیں، جیسے: اسکول، اسکرین، اسٹیج، اسپیکر، اسٹرانگ، وغیرہ۔ جبکہ پنجاب کے حضرات سَکول، سَکرین، سَٹیج، سَپیکر اور سَٹرانگ وغیرہ بولتے ہیں، ہماری نظر میں یہ درست نہیں ہے، فیروز اللغات کے جدید ایڈیشن میں بھی یہی بات لکھی ہے اور ہم نے انٹرنیٹ پر ان الفاظ کے تلفظ کو بار بار سنا ہے۔ ہماری رائے میں شروع میں خفیف سا الف لگانا درست ہے۔ اس کے برعکس انگریزی میں ایسے کئی الفاظ ہیں کہ اُن میں ابتدا بالسّکون ہے، پہلا حرف لکھا تو جاتا ہے، مگر تلفظ میں نہیں آتا، جیسے: Knife، Knowledge، Psychology، Pfizer، Pseudo وغیرہ۔
مذبَح خانہ: مَذبَح ظرف کا صیغہ ہے اور اس کے معنی ہیں: ''ذبح کرنے کی جگہ‘‘، عوامی زبان میں اسے ''کَمِیْلا‘‘ کہتے ہیں، یہ ہندی لفظ ہے، اس کو انگریزی میں ''Slaughter house‘‘ یا ''Butchery‘‘ اور قصائی کو ''Butcher‘‘ کہتے ہیں۔ الغرض مَذبَح کے ساتھ ''خانہ‘‘ کا لاحقہ زائد ہے۔ اگر یہ لگانا ہی ہے تو پھر ''ذبح خانہ‘‘ لکھنا اور بولنا چاہیے۔
مقتَل گاہ: ''مَقتَل‘‘ ظرف کا صیغہ ہے، اس کے معنی ہیں: ''قتل کرنے کی جگہ‘‘، اس کے ساتھ ''گاہ‘‘ (بمعنی جگہ) زائد ہے، اس کے لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
بے تحاشا: ویب سائٹ ''ریختہ‘‘ میں بے تحاشا کے معنی ہیں: ''بے حد، ازحد، نہایت، زیادہ، بنا سوچے سمجھے، بے اطمینانی سے، بے اوسان ہو کر، حواس باختہ ہو کر، بغیر از یکسوئی، بے حواس، مضطربانہ، بے تابانہ، اندھادھند، بے دھڑک، بلا تامل، یکبارگی‘‘۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ لفظ ''بے حد، زیادہ‘‘ وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک معتبر ومعروف سینئر کالم نگار نے اپنے کالم میں اسے ''بے تہاشا‘‘ لکھا ہے، غالباً اُن سے یہ تسامح ہوا ہے یا کمپوزر کی غلطی ہے۔ عامر سہیل نے کہا ہے:
ادا ہے، خواب ہے، تسکین ہے، تماشا ہے
ہماری آنکھ میں اک شخص، بے تحاشا ہے
بشیر بدر نے کہا ہے:
بے تحاشا سی لاابالی ہنسی
چھن گئی ہم سے، وہ جیالی ہنسی
جُزء: عربی میں جَزَئَ یَجْزَئُ جُزْئً ا، چیز کو مختلف اجزا میں تقسیم کرنا، جزء کے معنی ہیں: چیز کا ایک حصہ، اس کی جمع ''اجزاء‘‘ ہے، یعنی یہ لفظ اپنی عربی اصل کے اعتبار سے مہموزاللّام ہے، فارسی میں ہمزہ کے بغیر اسی معنی میں لفظِ ''جُز‘‘ آتا ہے، جبکہ اردو والے اس کی اصل کو عربی مانتے ہیں، لیکن اسے وائو کے ساتھ ''جزو‘‘ لکھتے ہیں اور اضافت کرنی ہو تو بھی کہتے ہیں: ''جزوِ بدن‘‘، جزو کے معنی ہیں: ''ریزہ، پارہ، ٹکڑا، حصہ‘‘۔
قلق میرٹھی نے کہا ہے:
دل کے ہر جزو میں جدائی ہے
درد اٹھے، آبلہ اگر بیٹھے
مُعَاذ: رسول اللہﷺ کے صحابی کا نام میم کے پیش کے ساتھ ''مُعاذ‘‘ ہے، کئی حضرات میم کے زبر کے ساتھ مَعاذ بولتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔
صُوْفِیَہ: صوفی کی جمع ''صوفیہ‘‘ ہے، اکثر حضرات ''صوفیا‘‘ لکھتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔
در پردہ: یہ لفظ مرکب ہے اور مفرد معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اس کا معنی ہے: ''پوشیدہ طور پر، پردے میں‘‘، ایک انتہائی تجربہ کار اور قابل تجزیہ کار روانی میں ایک سے زائد بار ''ر‘‘ کے نیچے اضافت کی زیر لگا ''درِ پردہ‘‘ پڑھ رہے تھے‘ یہ غلط ہے، سبقتِ لسانی سے ایسا ہو جاتا ہے۔
نور مقدّم: ایک انتہائی سینئر صحافی و تجزیہ کار اسلام آباد میں قتل کی جانے والی خاتون ''نور مقدّم‘‘ کے نام کا تلفظ ''نور مَقْدَم‘‘ کر رہے تھے، ہماری معلومات کے مطابق یہ درست نہیں ہے، '' مُقَدَّم‘‘ بمبئی سے تعلق رکھنے والی کوکنی برادری کے نام کا حصہ ہوتا ہے اور اس خاتون کے والد کا تعلق اُسی کمیونٹی سے ہے۔
مَقْدَم: ''م‘‘ اور ''د‘‘ کے زبر کے ساتھ یہ لفظ مصدر ہے، اس کے معنی ہیں: سفر سے واپس ہونا اور ''خیر مقدَم‘‘ کے معنی ہیں: ''پیشوائی، استقبال‘‘، اسی کو عربی میں ''اَھْلاً وَسَھْلًا مَرحَبا‘‘ کہتے ہیں۔
باریش: ''ر‘‘ کی زیر کے ساتھ ''رِیش‘‘ فارسی لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: داڑھی، ٹھوڑی پر اگنے والے بال اور ''باریش‘‘ کے معنی ہیں: ''داڑھی والا‘‘، ایک صاحب اسے ''ر‘‘ کے زبر کے ساتھ ''بارَیش‘‘ بول رہے تھے، یہ درست نہیں ہے۔
مُعَمَّا: یہ اصل میں عربی لفظ ہے، اس کا مادّہ ''ع م ی‘‘ ہے اور عربی رسم الخط ''مُعَمّٰی‘‘ ہے، فارسی میں اسے ''چیستاں‘‘، اردو میں ''پہیلی‘‘ اور ہندی میں ''بجھارت‘‘ کہتے ہیں، بعض لوگ اسے'' مُعَمَّہ‘‘ لکھتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔
اَعداد و شمار: الف کے زبر کے ساتھ ''اَعداد‘‘ عدد کی جمع ہے، اَعداد و شمار کا مطلب ہے:''کسی چیز کی گنتی‘‘، اسے آج کل Data بھی کہتے ہیں، جبکہ الف کی زیر کے ساتھ ''اِعداد‘‘ مصدر ہے اور اس کے معنی ہیں: گننا، آمادہ کرنا، ہموار کرنا۔
اِفادیت: الف کی زیر کے ساتھ اِفادیت کے معنی ہیں: ''فائدہ رسانی، فائدہ پہنچانے کی صلاحیت‘‘، میڈیا پر بعض حضرات اسے الف کے زبر کے ساتھ ''اَفادیت‘‘ بولتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔
اگرچہ: یہ لفظ ''چ‘‘ کی زیر کے ساتھ ''اگرچِہ‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: ''ہرچند، گو، باوجودیکہ، یعنی اس کے باوجود کہ‘‘، ایک صاحب کسی کا کالم پڑھتے ہوئے ''چ‘‘ کے زبر کے ساتھ ''اگرچَہ‘‘ بول رہے تھے۔ اردو ڈکشنری کی مرتب کردہ لغت میں ''اگرچہ‘‘ اور ''چنانچہ‘‘ کو ''چ‘‘ کی زیر کے ساتھ لکھا ہے، لیکن ''فرہنگ عامرہ‘‘ میں ان دونوں الفاظ کو ''چ‘‘ کی زبر کے ساتھ لکھا ہے۔
ناگفتہ بِہ: ''ب‘‘ کی زیر کے ساتھ یہ لفظ ''ناگفتہ بِہ‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: ''اس بات کا نہ کرنا ہی بہتر ہے‘‘، فارسی میں ''بِہ‘‘ بہتر کا مخفَّف ہے، ایک صاحب ''ب‘‘ کے زبر کے ساتھ ''ناگفتہ بَہ‘‘ بول رہے تھے، یہ درست نہیں ہے۔
کار فرما: اس کے معنی ہیں: ''کام بتانے والا، کام لینے والا، منتظم، صاحبِ اختیار، اثر انداز‘‘۔ یہ مرکب لفظ بتاویلِ مفرد ہے، ایک صاحب میڈیا پر ''ر‘‘ کی زیر کے ساتھ ''کارِ فرما‘‘ بول رہے تھے، یہ غلط ہے۔
گوش گزار: ''گوش‘‘ فارسی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں:''کان‘‘، ''گوش گزار‘‘ کرنا کے معنی ہیں: کوئی بات کسی کی سماعت سے گزارنا، یعنی اس کو اس کی اطلاع دینا، خبر دینا وغیرہ‘‘، ایک صاحب اضافت کی زیر لگا کر ''گوشِ گزار‘‘ بول رہے تھے، یہ غلط ہے، اس کے معنی تو یہ ہوں گے: ''گزار صاحب کا کان‘‘، یہ لغو بات ہے۔
گوشمالی: ''گوشمالی کرنا‘‘ کے معنی ہیں: ''کسی کے کان مروڑنا، کان اینٹھنا، کان مَلنا، یعنی کسی بات پر تنبیہ کرنا یا تادیب کرنا‘‘۔ ایک صاحب اضافت کی زیر لگا کر 'گوشِ مالی‘‘ بول رہے تھے، اس کے معنی تو ہوں گے:''مالی کا کان‘‘، یہ غلط ہے۔
ہر فن مولا: یہ ایک مرکّب لفظ مفرد معنوں میں ہے، یعنی ایسا شخص جو ہر فن کا ماہر ہو، اسے انگریزی میں Master of all کہتے ہیں، ایک صاحب ''ن‘‘ کے نیچے اضافت کی زیر لگا کر ''ہر فنِ مولا‘‘ بول رہے تھے، یہ غلط ہے۔
دَرْخُورِ اِعْتِنا: یہ کلمہ فارسی لفظ ''درخور‘‘ اور عربی لفظ ''اِعْتِنا‘‘ کا مرکب ہے، ''درخور‘‘ کے معنی ہیں: ''لائق، سزاوار‘‘ اور ''اِعْتِنَا‘‘ کے معنی ہیں: ''توجہ‘‘، پس'' درخورِ اِعتنا‘‘ کے معنی ہیں: ''توجہ کے لائق، قابلِ توجہ‘‘۔ ''درخور‘‘ میں ''و‘‘ ساکن ہے، تلفظ میں ساقط ہو جاتا ہے اور ''دَرْخُرِ اِعْتِنَا‘‘ بولا جاتا ہے۔ ایک صاحب اسے ''دَرْ خَوْرِ اِعْتنا‘‘ بول رہے تھے، یہ بالکل غلط ہے۔
خورد ونوش: یہ فارسی لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: ''کھانا، پینا‘‘، ان کلمات کا مصدر بالترتیب''خوردَن ‘‘و ''نوشیدن‘‘ ہے۔ اسے تخفیف کے ساتھ ''خور و نوش‘‘بھی لکھا اور بولا جاتا ہے۔
عَبَث: ''عَبَث‘‘ کے معنی ہیں: '' لغو، فضول اور بے فائدہ‘‘، ایک صاحب ''ب‘‘ کے سکون کے ساتھ ''عَبْث‘‘ بول رہے تھے، یہ غلط ہے۔
مُطْلَقُ الْعِنَان: لام کے زبر کے ساتھ ''مُطلَق‘‘ کے معنی ہیں: ''ہر قید سے آزاد، لامحدود‘‘، اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو ''قادرِ مُطلَق‘‘ کہاجاتا ہے،یعنی اُس کی قدرت اور اختیار لامحدود ہے، اس کی کوئی حدّ اور انتہا نہیں ہے۔ انگریزی میں اسے Absoulute، Unlimited, Infinit اور Eternalسے تعبیر کرتے ہیں اور عین کی زیر کے ساتھ ''عِنَان‘‘ کے معنی ''لگام اور باگ‘‘ کے ہیں، کسی کو خود مختار قرار دیا گیا ہو یا اُس پر خود مختاری کی پھبتی کسی جا رہی ہو، تو اُسے ''مُطْلَقُ الْعِنَان‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، کیونکہ لگام کھول دینے کے معنی ہیں: ''گھوڑے کو حسبِ منشا گھومنے پھرنے کی پوری آزادی دینا‘‘۔ ایک صاحب اس لفظ کو لام کی زیر کے ساتھ ''مُطلِقُ العِنان‘‘ بول رہے تھے، یہ درست نہیں ہے۔