اعلیٰ اخلاقی اَقدار اور پاکیزہ خصلتیںاُس معاشرے میں پروان چڑھتی ہیں جہاں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو اور ایسے لوگوں کو عزت و احترام عطا کیا جاتا ہو، لیکن جب سے ہم ہر قید و بند سے آزاد سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہوئے ہیں، اَقدار و معیارات بدل گئے ہیں اور کاروباری وتشہیری صنعت نے ترجیحات بدل دی ہیں اور ہر چیز کو لذتِ نظر، لذتِ سماع، ذہنی آوارگی اور شہوت رانی کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں پاکیزہ فطرت انسانوں کا وجود اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اُس کے دین کی برکت کی بدولت ہی ممکن ہے۔
رسول اللہﷺ نے جو معاشرہ تشکیل دیا تھا، اُس میں اگر کسی شخص سے بشری کمزوری کے تحت کوئی گناہ یا خطا سرزد ہو جاتی تو جب تک اُس کا شرعی اصولوں کی روشنی میں ازالہ نہ ہو جاتا، اُس کے نفس کی تطہیر اور تزکیہ نہ ہو جاتا، اسے قرار نہیں آتا تھا۔ اسی لیے رسالت مآبﷺ کے عہدِ مبارک میں ہمیں مجرمین کے اِقرار و اعتراف کی حیرت انگیز مثالیں ملتی ہیں۔
حضرت حنظلہؓ بیان کرتے ہیں: ''ہم رسول اللہﷺ کی مجلس میں موجود تھے، آپﷺ نے ہمارے سامنے جنت اور جہنم کا ذکر کیا، یہاں تک کہ ہمیں ایسا لگا جیسے جنت و جہنم ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں، میں وہاں سے اٹھ کر اپنی بیوی بچوں کے پاس گیا اور اُن کے ساتھ دل لگی میں مشغول ہو گیا۔ وہ بیان کرتے ہیں: (اچانک) مجھے اُس کیفیت کا خیال آیا جو رسول اللہﷺ کی مجلس میں مجھ پر طاری تھی۔ میں (فوراً) نکلا اور حضرت ابوبکرؓ سے ملا اور اُن سے تکرار کے ساتھ کہا: میں تو منافق ہو گیا، حضرت ابوبکرؓ نے میرے اس اضطراب کوجان کر کہا: اس کیفیت میں تو ہم بھی مبتلا ہو جاتے ہیں، تو حضرت حنظلہؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی پریشانی بیان کی۔ آپﷺ نے فرمایا: اے حنظلہ! حضوریِ قلب کی وہ کیفیت جو تمہیں میری مجلس میں نصیب ہوتی ہے، اگر مسلسل رہے، تو تمہارے بستروں پر اور تمہاری راہوں میں آکر فرشتے تم سے مصافحہ کریں، اے حنظلہ! ایسی پُرنور کیفیات ہر وقت نہیں رہتیں‘‘ (ابن ماجہ: 4239)۔ الغرض رسول اللہﷺ کی باتیں اُن کے دل و دماغ میں جذب ہو جاتیں، ان پر انہیں پختہ یقین ہو جاتا اور اُن کے دل و دماغ کی سکرین پر یہ سارے مناظر بصری منظر کی طرح گھوم جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اُن کے دل و دماغ کی پاکیزہ سکرین پر گناہ یا خطا کا کوئی دھبا پڑ جاتا، تو جب تک اس کا ازالہ نہ ہوتا، انہیں چین نہ آتا، پس اُن کے اعترافات کا سبب یہی تھا۔ ذیل میں ہم احادیثِ مبارکہ سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
(1) حضرت عبداللہؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میں نے شہر کے پرلے کنارے ایک اجنبی عورت کو پکڑ لیا اور میں نے مباشرت تو نہیں کی، لیکن بوس وکنار کیا۔ سو میں اب آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں، میرے بارے میں آپ جیسے چاہیں فیصلہ فرمائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا: اللہ نے تمہارے عیب پر پردہ ڈالا تھا، کاش کہ تم نے خود بھی اپنی پردہ پوشی کی ہوتی۔ راوی بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے اُسے کوئی جواب نہ دیا، سو وہ شخص اٹھ کر چلا گیا۔ پھر نبیﷺ نے ایک شخص کے ذریعے اُسے بلا بھیجا اور یہ آیت پڑھ کر اُسے سنائی: (ترجمہ:) ''دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کرتے رہا کرو، بے شک نیکیاں برائیوں کے اثر کو زائل کر دیتی ہیں، یہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے‘‘ (ہود: 114)، حاضرین میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! کیا یہ رعایت اِس کے لیے خاص ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: میری امت کے اُن سب لوگوں کے لیے ہے جو اس پر عمل کریں۔ ( مسلم: 2763)۔ اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اُس نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب نہیں کیا تھا اور نماز اور نیکیوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی بھی درجے کی خطا ہو‘ صحابہ کرامؓ اس کا ازالہ ہونے تک قلبی طور پر بے چین رہتے تھے۔
(2) حضرت ثعلبہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: عمرو بن سَمُرَہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میں نے بنی فلاں کا اونٹ چوری کیا ہے، سو مجھے (اس گناہ کی آلودگی سے) پاک کر دیجیے۔ رسول اللہﷺ نے اُن لوگوں کو بلایا، انہوں نے عرض کی: بے شک ہمارا اونٹ گم ہو گیا ہے، سو (اقرارِ جرم کی بنا پر) رسول اللہﷺ نے حَدِّ سَرِقہ جاری کرنے کا حکم فرمایا اور اُس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ حضرت ثعلبہؓ بیان کرتے ہیں: میں دیکھ رہا تھا کہ جب اُس کا ہاتھ کاٹا گیا تو اُس نے (اپنے ہاتھ کو مخاطَب کر کے) یہ کلمات کہے: ''اُس اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے تجھ سے پاک کر دیا، تو نے تو چاہا تھا کہ میرے پورے جسم کو جہنم میں داخل کر دے‘‘ (ابن ماجہ: 2588)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پاکیزہ فطرت صحابۂ کرامؓ سے اگر بشری کمزوری کے تحت کوئی جرم یا خطا سرزد ہو جاتی، تو آخرت کے عذاب کے خوف سے وہ خود آ کر رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں اقرارِ جرم کرتے، کیونکہ اُن کا نظریہ یہ تھا: ''اس دنیا کی سزا خواہ کتنی ہی سنگین ہو، آخرت کی سزا کے مقابلے میں کم تر ہے‘‘۔ لہٰذا وہ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے خود اپنے آپ کو پیش کرتے اور ظاہر ہے کہ جو شخص خود اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اللہ تعالیٰ کی حد نافذ کرنے کے لیے پیش کر رہا ہے، تو اُس کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے جرم پر نادم ہے اور وہ دل سے اللہ کی بارگاہ میں تائب ہو چکا ہے۔
اس کے برعکس ہم جس معاشرے اور ماحول میں رہ رہے ہیں، اس میں جرم سے کسی بھی حیلہ و تدبیر یا فریب سے بچ نکلنا کمال سمجھا جاتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آخرت کی جواب دہی اور جزا و سزا کا خوف ہمارے دلوں سے نکل چکا ہے۔ جرم کا سرزد ہونا تو بہت بڑی بات ہے‘ صحابۂ کرامؓ کے ذہن میں اگر برا خیال آ جاتا تو وہ اُس سے بھی بے چین ہو جاتے اور انہیں خدشہ لاحق ہوتا کہ کہیں ان برے خیالات پر ہماری گرفت نہ ہو جائے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: ''ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میرے دل میں ایسے ایسے برے خیالات آتے ہیں کہ میں آپ کے سامنے انہیں زبان پر لانے کی بجائے جَل کر کوئلہ ہونا پسند کروں گا، تو رسول اللہﷺ نے تین مرتبہ اللہ اکبر کہا اور فرمایا: اُس اللہ کا شکر ہے کہ جس نے اس کے خیال کو (عملی صورت میں ڈھلنے کے بجائے) وسوسے میں بدل دیا‘‘ (ابودائود: 5112)۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: کچھ لوگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہمارے دلوں میں اتنے برے خیالات آتے ہیں کہ (اُن پرعمل کرنا تو درکنار) ہم ایسے خیالات کو زبان پر لانا بھی بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا واقعی تم اپنے دل میں ایسی کیفیت محسوس کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں یا رسول اللہﷺ!، آپﷺ نے فرمایا: یہ خالص ایمان کی دلیل ہے (مسلم: 132)۔ حدیث پاک کا منشا یہ ہے کہ برے عمل کا ارتکاب تو دور کی بات ہے، برے خیالات پر بھی ضمیر کا بے چین ہو جانا خالص ایمان کی دلیل ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ رسول اللہﷺ کے بار بار موقع دینے کے باوجود ایک شخص اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کرتا ہے: حضرت بریدہؓ بیان کرتے ہیں: ''ماعز بن مالک رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہﷺ! مجھے پاک کیجیے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: تجھ پر افسوس، اللہ سے توبہ استغفار کرو، وہ تھوڑی دور گئے اور پھر واپس آ کر عرض کی: یا رسول اللہﷺ! مجھے پاک کر دیجیے، رسول اللہﷺ نے اُن کو پھر وہی جواب دیا۔ یہاں تک کہ جب وہ چوتھی مرتبہ آئے، تو آپﷺ نے پوچھا: میں تجھے کس چیز سے پاک کروں؟، اُنہوں نے عرض کی: زنا کے جرم سے، آپﷺ نے صحابہ سے پوچھا: کیا اس کا دماغی توازن درست ہے؟، آپﷺ کو بتایا گیا کہ یہ پوری طرح ہوش و حواس میں ہے، آپﷺ نے پوچھا: اس نے شراب تو نہیں پی؟، ایک شخص نے اٹھ کر اسے سونگھا اور بتایا کہ اس نے شراب نہیں پی، آپﷺ نے فرمایا: تم شادی شدہ ہو؟، اس نے عرض کی: جی ہاں!، حضور نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ اس پر لوگوں کی رائے اُن کے بارے میں مختلف ہو گئی۔ ایک گروہ نے کہا کہ ماعز کے بدترین فعل نے اُسے ہلاک کر دیا اور اس کے گناہ نے اس کو گھیر لیا۔ دوسرے گروہ نے کہا: کیا ماعز کی توبہ سے بھی بڑی توبہ کسی کی ہو سکتی ہے کہ وہ خود حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اپنے آپ کو سنگسار کرنے کے لیے پیش کر دیا۔ دو تین دن کے بعد نبی کریمﷺ صحابہ کی مجلس میں آئے اور فرمایا: ماعز بن مالک کے لیے اللہ سے استغفار کرو، پس تمام صحابہ کرام نے اُن کے لیے استغفار کیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر پوری امت کے گناہگاروں میں تقسیم کر دی جائے تو اُن سب کے لیے کافی ہو جائے‘‘۔ (دار قطنی: 3129)۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی اصلاح کا سب سے بڑا ذریعہ مذہب، خوفِ خدا اور فکرِ آخرت ہے۔ لیکن آج کل ایک طرح سے مذہب کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ کسی سے کوئی جرم سرزد ہو جائے تو میڈیا اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح اس کا رشتہ مذہب سے جوڑ دیا جائے اور اس کا سبب مذہب اور اہلِ مذہب کو قرار دے کر ایک مہم شروع کر دی جائے۔ لِلّٰہ! اس شعار کو ترک کیجیے! اور اگر کسی مذہبی شخص سے کوئی بے تدبیری یا بے احتیاطی ہوئی ہے یا اُس نے مذہب کی غلط تعبیر کی ہے، تو اُسے اُس فرد کا قصور سمجھا جائے نہ کہ مذہب اور اہلِ مذہب کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم شروع کردی جائے، سوچیے اور غور کیجیے!
الغرض انسان میں اللہ تعالیٰ نے ملکوتی، حیوانی، غضبانی اور شہوانی ملکات پیدا فرمائے ہیں، ان میں توازن پیدا کرنے سے اور انہیں شریعت کے تابع کرنے اور نبوی تعلیمات کی بھٹی میں ڈھل جانے سے ایک اخلاقی شخصیت کی تشکیل ہوتی ہے، جس پر انسانیت ناز کرتی ہے اور فرشتے رشک کرتے ہیں۔