"MMC" (space) message & send to 7575

پیامِ صبح

''پیامِ صبح‘‘ دنیا نیوز ٹی وی کا مذہبی پروگرام ہے جو گزشتہ 12 سال سے کسی تعطل کے بغیر تسلسل کے ساتھ نشر ہو رہا ہے۔ اس کے 3600 پروگرام نشر ہو چکے ہیں۔ انیق احمد صاحب اس کے میزبان ہیں، حکومتِ پاکستان نے انہیں ''ستارۂ امتیاز‘‘ سے نوازا ہے۔ ایک ایسے دور میں جب گویّوں، رقّاصوں اور کھلاڑیوں کو قومی ہیرو تصور کر کے ہر طرح کے اعزازات سے نوازا جاتا ہو، ایک دینی پروگرام کے میزبان کو اس اعزازسے نوازنا ایک قابلِ تحسین اور قابلِ تقلید روایت ہے۔
''پیامِ صبح‘‘ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قرآنِ کریم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں قرآنِ کریم کی روشنی میں سیرتِ انبیائے کرام پر گفتگو ہوتی رہی، کبھی سورتوں کے موضوعات کو موضوعِ بحث بنایا گیا، کبھی اُن آیات پر گفتگو کی گئی جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو ''یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ سے مخاطَب فرمایا ہے، کبھی اُن آیات پر گفتگو کی گئی جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ''یٰٓاََیُّھَاالنَّاسُ‘‘ یا اس سے ملتے جلتے کلمات سے مخاطَب فرمایا ہے۔ کبھی متفرق آیاتِ قرآنی پر گفتگو کی گئی۔ الغرض ناظرین و سامعین کو قرآنِ کریم سے جوڑنے کی ایک علمی سعی تسلسل کے ساتھ ہوتی رہی ہے۔ فیڈ بیک سے معلوم ہوا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان پروگراموں میں دلچسپی لی ہے، خاص طور پر بیرونِ ملک پاکستانی اس میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت بھی اُن کے لیے مناسب ہوتا ہے اور انہیں ایسے مواقع بھی کم ملتے ہیں۔ دنیا نیوز کے مالک میاں عامر محمود صاحب بھی قابلِ تحسین ہیں کہ انہوں نے اپنا پلیٹ فارم قرآنی تعلیمات کے لیے فراہم کیا اور تسلسل جاری رکھنے کے لیے پروگرام میں اشتہار بھی شامل نہیں کیے۔
جب ہم تفسیرِ قرآن کی بات کرتے ہیں تو قرآنِ کریم کی تفسیر کا اعلیٰ درجہ ''تفسیر القرآن بالقرآن‘‘، پھر ''تفسیرالقرآن بالحدیث‘‘، پھر ''تفسیر القرآن بالآثار‘‘ہے۔ آثار سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے تفسیری اقوال ہیں، جیسے حضرت عبداللہ بن عباس ودیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم۔ اسی طرح قرآنِ کریم کو سمجھنے کے لیے عربی کی لغت، ادب، محاورے، علم المعانی اور علم البلاغت سے آگاہی بھی ضروری ہے۔
''پیامِ صبح‘‘ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ بحیثیتِ میزبان انیق احمد صاحب خود بھی بھرپور تیاری کرتے ہیں اور پروگرام کو محض فلسفیانہ اور نظری ابحاث تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ حتی الامکان اپنے عہد پر ان کی تطبیق کرتے ہیں کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآنی تعلیمات کے قالب میں کیسے ڈھالیں۔ الغرض قرآن و حدیث کو معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بنانا مقصود ہے۔
ہمارے وطنِ عزیز میں جب پرائیویٹ ٹیلی وژن چینلوں اورسوشل میڈیاکا طوفان آیا تو لوگوں نے اسے بازیچۂ اطفال بنا دیا۔ ہر ایک مفسرِ قرآن، محدث، فقیہ اور مفتی بن بیٹھا۔گویا:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شِعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
پھر گوگل کوہی حصولِ علم و معلومات کا حتمی ذریعہ سمجھ لیا گیا۔ اگر ان ذرائع سے ثقہ عالم بننا ممکن ہوتا، تو جدید الیکٹرانک و ڈیجیٹل میڈیا تک اہلِ مغرب کو ہم سے بدرجہا زائد رسائی حاصل ہے۔ جدید سائنسی علوم و فنون کی کتابیں بھی انگریزی زبان میں ہیں۔ پھر امریکہ اور مغرب میں یونیورسٹیاں بند کر دینی چاہئیں۔ استاذ کا کردار ختم ہو جانا چاہیے۔ جب سب کچھ آٹومیٹک ہو جائے تو خواہ دینی علوم ہوں یا عصری علوم‘ کسی معلّم کی گنجائش ہی نہیں رہتی، حالانکہ وہاں یونیورسٹیاں حسبِ معمول مصروفِ عمل ہیں اور سنّتِ الٰہیہ بھی یہی ہے کہ اُس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے کتابیں بھی نازل فرمائیں اور رجالِ کتاب یعنی انبیائے کرام علیہم السلام بھی مبعوث فرمائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے‘‘ (ابن ماجہ: 229)۔ قرآنِ کریم نے فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اور وہ (رسول) انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘ (الجمعہ: 2)، کیونکہ اسلام محض ایک تخیّلاتی اور تصوّراتی دین نہیں ہے کہ محض فلسفیانہ بحثیں کی جائیں، بلکہ یہ ایک عملی دین ہے اور اس کے لیے عملی نمونہ بھی درکار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک تمہارے لیے رسول اللہ (کی ذات) میں بہترین نمونۂ عمل ہے‘‘ (الاحزاب:21)، نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بابت فرمایا: ''تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے اصحاب میں بہترین نمونہ ہے‘‘ (الممتحنہ: 3)۔
ہمارے ہاں رمضان مبارک میں مذہبی پروگراموں کو میلے ٹھیلے اور ناٹک کا رنگ دیدیا جاتا ہے۔ اس سے اہلِ نظر اور دین دار طبقات کو شدید کرب محسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ یہ کوئی مذہبی پروگرام ہے۔ اس میں ہر چیز دینی مقاصد کی ضد نظر آتی ہے، لیکن اس پر مذہبی ٹائٹل لگا دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل دین و مذہب کی توہین ہے۔ بعض چینلوں پر مختلف المسالک علماء کو بٹھا کر بین المسالک اختلافی مسائل پر مباحثے کرائے جاتے ہیں۔ یہ لبرل حضرات کی دانستہ کاوش ہوتی ہے کہ نئی نسل کو یہ باور کرایا جائے کہ مذہب وصل کے لیے نہیں، بلکہ فصل کے لیے آیا ہے، حالانکہ یہ کلاس روم کے مسائل ہوتے ہیں، ٹیلی وژن سکرین پر ان مسائل کو زیرِ بحث لانا دین کے لیے نفع بخش ہونے کے بجائے نقصان دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اُن عناصر کو ریٹنگ ملتی ہے جو مذہبی خلافیات کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ بعض علماء ٹیلی وژن سکرین پر آنے کے شوق میں نادانستہ طور پر ان لوگوں کے آلۂ کار بنتے ہیں۔ بعض علماء وہ ہوتے ہیں کہ جن کا ہدف اُن کے حلقے سے وابستہ محدود ناظرین و سامعین ہوتے ہیں، انہیں روحانی سرور پہنچانا، اپنی دامِ عقیدت میں پھنسانا اور داد پانا مقصود ہوتا ہے۔ بڑے پیمانے پر اصلاح اُن کے پیشِ نظر ہوتی ہی نہیں ہے، اسی لیے میں نے ماضی میں اپنے اس درد کو بیان کرنے کے لیے ''فُغانِ رمضان‘‘ کے نام سے ایک کالم بھی لکھا تھا۔
سیاست دانوں نے جو ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا ہے، ایک دوسرے کی تذلیل، تحقیر اور توہین کی جاتی ہے، ہمیں اس کا بھی دکھ ہے۔ اس روش نے نئی نسل کے اخلاق میں ایسا بگاڑ پیدا کیا ہے، جس کی اصلاح آسان نہیں ہے، سونے پر سہاگہ یہ کہ جو جتنا ماہرِ دشنام ہو، قیادت کی طرف سے اُسے زیادہ پذیرائی اور داد ملتی ہیْ بعض لوگوں نے بتایا کہ باقاعدہ مشاہروں پر بھی یہ ماہرینِ دُشنام بھرتی کیے گئے ہیں اور اُن کی باقاعدہ جدید انداز میں تربیت بھی کی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی اور نظریاتی اختلاف کو ذاتی عداوت و نفرت میں بدل دیا گیا ہے۔ جنہوں نے مل کر اس قوم کی نیّا پار لگانی تھی، وہ ایک دوسرے سے ملنے اور ایک دوسرے کی صورتوں کو دیکھنے کے روادار نہیں ہیں، جبکہ رسالت مآبﷺ کا وصفِ کمال قرآنِ کریم نے یہ بتایا: ''اور تم اپنے اوپر اللہ کے احسان کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے (اور اس میں گرا چاہتے تھے) کہ اُس نے تمہیں اس (میں گرنے) سے بچا لیا‘‘ (آل عمران: 103)۔ حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک میری اور تمہاری مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، جب اس کا ماحول روشن ہو گیا تو پروانے اور کیڑے مکوڑے اس میں گرنے لگے اور وہ انہیں نکالنے لگا مگر وہ اس پر غالب آ گئے اور آگ میں گھستے چلے گئے، سو میں بھی تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ میں گرنے سے بچا رہا ہوں اور وہ (لوگ) اس آگ میں گرے جا رہے ہیں‘‘ (بخاری: 6483)، ایک دوسری روایت میں ہے: ''اور تم اس میں گرے جا رہے ہو‘‘۔ (صحیح مسلم: 2284)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ابلیس اپنا تخت سمندر پر بچھاتا ہے، پھر (لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے) اپنے کارندے بھیجتا ہے، تو اُن میں سے شیطان کا سب سے زیادہ قرب اُسے نصیب ہوتا ہے جو سب سے زیادہ بڑا فتنہ برپا کرتا ہے، اُن میں سے ایک آ کر کہتا ہے: میں یہ یہ کیا (یعنی لوگوں کو گمراہ کرنے کے حوالے سے اپنے کارنامے بیان کرتا ہے)، شیطان کہتا ہے: تم نے تو کچھ نہ کیا، پھر ایک کارندہ آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے: میں ایک خاندان کے درپے ہوا اور میاں بیوی میں تفریق کرا دی، شیطان اُسے اپنے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے: تُو نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اعمش روایت کرتے ہیں: میرا گمان ہے کہ شیطان (فرطِ مسرّت میں) اُس سے لپٹ جاتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم: 2813)۔
الغرض معاشرے میں تفریق، خاندانوں اور قبیلوں میں بگاڑ اور تشتُّت وافتراق پیدا کرنا شیطان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور یہود نے اس جادو کی پیروی کی جو شیاطین سلیمان کے دورِ حکومت میں پڑھا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا، بلکہ شیطانوں نے کفر کیا، وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور وہ (خاص طور پر) اُس جادو کے درپے ہو گئے جو (آزمائش کے طور پر) دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتارا گیا، حالانکہ وہ دونوں کسی کو اُس وقت تک کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک وہ یہ نہ کہہ دیتے: ہم تو محض آزمائش ہیں، لہٰذا تم اس کفر میں نہ پڑو، پھر بھی یہ اُن سے وہ منتر سیکھتے تھے جس کے ذریعے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں‘‘ (البقرہ: 102)۔ یعنی یہود کو بھی فقط وہی جادو اور منتر پسند تھا جو میاں بیوی اور خاندانوں میں جدائی پیدا کر دے، کیونکہ یہ وہ خرابی ہے جو فرد تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اس سے نسلیں متاثر ہوتی ہیں۔
پس اس سیاق و سباق میں قرآنِ کریم کو مرکز بنا کر مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنا، انہیں قرآن کے قریب کرنا، قرآنی تعلیمات سے روشناس کرانا ''پیامِ صبح‘‘ کی ایک قابلِ تحسین کاوش ہے۔ اس پروگرام میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ اختلافی مسائل کو نہ چھیڑا جائے، اُن سے حتی الامکان گریز کیا جائے، ایسے امور کو نمایاں کیا جائے جو سب کے نزدیک متفق علیہ ہیں اور جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں حضرت شعیب علیہ السلام کے اس فرمان کو نشانِ راہ بنانا چاہیے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا: ''جہاں تک میرے بس میں ہے، میں تو فقط اصلاح چاہتا ہوں اور مجھے یہ توفیق اللہ کی طرف سے ہی عطا ہوئی ہے، میں نے اُسی پر توکل کیا اور میں اُسی کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘ (ہود: 88)۔ حدیث پاک میں ہے: ''نبی کریمﷺ نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے عرض کی: (یا رسول اللہﷺ!) کس کی خیر خواہی؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ، اُس کی کتاب، اُس کے رسول، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی (دین ہے)‘‘ (مسلم: 55)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں