"MMC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ اِن ایکشن

12نومبر 2022ء کو ہم نے ''جوڈیشل کمیشن‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا، اُس میں کہا تھا: ''ہمارے ہاں کوئی حادثہ یا سانحہ ہو جائے، سیاسی یا مذہبی گروہوں کا تصادم ہو جائے، کوئی مذہبی ہو، سیاسی ہو، سول سوسائٹی کا نمائندہ ہو یا عام آدمی ہو، سب کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ اس مسئلے پر ''جوڈیشل کمیشن‘‘ بنایا جائے، چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لیں اور ہمیں انصاف فراہم کریں، وغیرہ۔ حالانکہ آج تک کسی جوڈیشل کمیشن سے کسی کا مَن پسند نتیجہ برآمد نہیں ہوا، قومی معاملات کے بارے میں جو عدالتی کمیشن بنائے گئے، اُن کی رپورٹ کم ہی سامنے آئی ہے اور نہ اُس کے نتیجے میں کسی کو انصاف ملا ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان پر حمود الرحمن کمیشن بنا، لیکن اس کے حقائق منظرِ عام پر آئے اور نہ اس کی سفارشات پر کہیں عمل ہوتا ہوا نظر آیا، نیز اُس کی بابت جو کچھ رپورٹ ہوا،وہ بھی پہلے بھارت میں طبع ہوا اور پھر اُس کے مندرجات وقتاً فوقتاً پاکستان میں رپورٹ کیے گئے، اصل سرکاری مصدّقہ رپورٹ کبھی سامنے نہیں آئی۔ آدھے سے زیادہ ملک چلا گیا، لیکن نہ کوئی مجرم قرار پایا اور نہ کسی کو سزا ملی‘‘۔ اسی طرح ہم نے امریکیوں کی جانب سے فضائی آپریشن کے نتیجے میں اُسامہ بن لادن کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایبٹ آباد کمیشن کاحوالہ دیا تھا، اس کی تحقیقات کی بابت جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کافی عرصے تک دربار سجائے رکھا، درجنوں افراد کے انٹرویو ہوئے، لیکن اس کمیشن کی بھی کوئی رپورٹ منظرِ عام پر آئی اور نہ اُس سے کچھ برآمد ہوا حتیٰ کہ قائداعظم کے انتقال کے موقع پر جو بے احتیاطی برتی گئی، اُس کے بارے کوئی تحقیقات سامنے آئیں اور نہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بارے میں کوئی رپورٹ منظرِ عام پر آئی اور نہ کسی کوان کا ذمہ دار قرار دیا گیا، اسی طرح جنرل محمد ضیاء الحق سمیت فوج کے کئی اعلیٰ افسران کی شہادت کا بھی کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا، اوجڑی کیمپ سانحے کا بھی یہی حال ہوا۔
اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے معروف صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل کے حوالے سے ازخود نوٹس لے کر ایک بنچ بنایا اور اُس کے نتیجے میں ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی ہے جو قتل کے ذمہ داروں کی بابت تحقیقات کر کے سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کرے گی۔ حکومتِ پاکستان نے پہلے ہی دو سینئر افسروں پر مشتمل ایک ''فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی‘‘ کینیا بھیجی تھی، پھر وہ متحدہ عرب امارات بھی گئی اور اُس نے 592 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں پیش کر دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ افسران اپنے شعبے میں قابل ہیں اور اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر ایف آئی آر بھی کاٹی گئی، اُس میں اُن دو افراد کو نامزد کیا گیا ہے، جو کینیا میں ارشد شریف کے میزبان تھے اور ویزے کا اہتمام بھی انہوں نے کیا تھا، عام طور پر ایف آئی آر وہاں درج کی جاتی ہے جہاں کوئی جرم سرزد ہوا ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ آیا ہماری حکومت یا اداروں کو اتنی بالادستی حاصل ہے کہ وہ کینیا کی پولیس اور اداروں کو حقائق سامنے لانے اور تعاون پر مجبور کر سکیں۔ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کینیا پولیس نے تعاون کیا اور نہ ارشد شریف کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون تک رسائی حاصل ہو سکی ہے۔ ارشد شریف مرحوم کی والدۂ محترمہ نے اپنی طرف سے سپریم کورٹ کو ایک درخواست دی ہے جس میں انہوں نے اپنے خیال کے مطابق بعض افراد کو ذمہ دار قرار دیا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ محض دعویٰ ہے، کسی الزام کے ثبوت کے لیے موقع کی شہادت یا ٹھوس ثبوت وشواہد درکار ہوتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں امید نہیں ہے کہ اس جے آئی ٹی کی تحقیقات سے کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہو گا۔ ہمارے ہاں روش یہ ہے کہ میڈیا کسی ہائی پروفائل کیس کو چند دن نمایاں کرتا ہے، اُس پر میڈیا میں پروگرام ہوتے ہیں، لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ بھولا بِسرا واقعہ بن جاتا ہے، کیونکہ میڈیا کو اپنی سکرین کی رونقیں بحال رکھنے کے لیے نِت نئے اور تازہ واقعات درکار ہوتے ہیں۔ ہم ٹِکر کی حد تک عالمی میڈیا بھی وقتاً فوقتاً دیکھ لیتے ہیں، مثلاً: سی این این، بی بی سی، سکائی ٹیلی وژن وغیرہ، اس سے پہلے رشین ٹیلی وژن بھی دیکھ لیا کرتے تھے، مگر روس یوکرین جنگ کی وجہ سے رشین ٹیلی وژن ہمارے ہاں دکھائی نہیں دیتا۔
جس طرح ہمارے ہاں مختلف مقدمات کے حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے عالی مرتبت جج صاحبان کے ریمارکس اور آبزرویشن پرمبنی ٹِکر چلتے ہیں، دنیا کے میڈیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں مسلّح افواج کے سربراہان، انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے نام ہر ایک کو معلوم ہوتے ہیں، اُن کے فرمودات آئے روز میڈیا کی زینت بنتے ہیں، دنیا میں بالعموم اس طرح نہیں ہوتا۔ اس روش سے شہرت کی ایک نفسیاتی خواہش پیدا ہوتی ہے اور یہ عدل کی روح کے منافی ہے، اس لیے مشہور مقولہ ہے: ''جج نہیں بولتے، بلکہ اُن کے فیصلے بولتے ہیں‘‘، لیکن ہمارے ہاں فیصلوں سے زیادہ ریمارکس بولتے ہیں، فیصلے متنازع بھی ہوتے رہتے ہیں اور بعض اوقات ایک ہی جیسے کیس کے بارے میں دو متضاد فیصلے بھی سامنے آتے رہتے ہیں،جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اشخاص کی رعایت عدل کے تقاضوں پر غالب آ جاتی ہے۔
قضا کا منصِب یقینا قابلِ احترام ہے، اس کا احترام سب پر واجب ہے، لیکن عالی مرتبت عدلیہ کا اخلاقی اور منصبی فرض ہے کہ وہ عدالت میں پیش ہونے والوں کی شخصی توہین نہ کرے، اُس کو خود تو ''قانونِ توہینِ عدالت‘‘ کا تحفظ حاصل ہے، لیکن مُستدعی اور سائل کو ایساکوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ عدالت میں پیش ہونے والے بعض سرکاری اہلکار ہوتے ہیں، اگر اُن کی توہین کی جاتی رہے تو اُن کے ماتحتوں اور عام شہریوں کے ذہنوں میں نہ اُن کی کوئی وقعت رہے گی اور نہ کوئی رعب ودبدبہ؛ چنانچہ سندھ ہائیکورٹ میں آئی جی سندھ نے معزز عدالت سے کہا: ''میرے ساتھ ایک ایس ایچ او والا برتائو نہ کریں، میں پورے صوبے کی پولیس کا سب سے بڑا افسر ہوں اور میرے منصب کا بھی احترام ہونا چاہیے‘‘۔ عدالت کو یہ حق تو حاصل ہے کہ ثبوت وشواہد کی روشنی میں جسے مجرم پائے، اُسے قرارِ واقعی سزا دے، لیکن شخصی توہین کا حق حاصل نہیں ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ایک مسلمان کا سب کچھ دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اس کی جان، اس کا مال اور اس کی آبرو‘‘ (صحیح مسلم: 2564)۔ قرآنِ کریم میں آبرو کے تحفظ کے لیے ''حدِ قذف‘‘ کا حکم نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں، پھر (اس کے ثبوت کے لیے) چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو تم اُن کو اسّی کوڑے مارو اور (آئندہ) اُن کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں‘‘ (النور: 4)۔
ہمارے ہاں شہریوں کے وقار کے تحفظ کے لیے Defamation Law موجود ہے، ہم نے دسیوں ایسے اعلانات اور دعوے سنے ہیں جن میں بعض حضرات نے اپنی توہین کے حوالے سے فریقِ مخالف کے خلاف عدالت میں رجوع کیا، اپنی آبرو کے مجروح ہونے پر معاوضے کا مطالبہ کیا، لیکن ایسے مقدمات کے فیصلوں کی نوبت بہت کم آتی ہے، جبکہ برطانیہ کی عدالتوں میں ہم نے ایسے مقدمات کے فیصلے ہوتے دیکھے ہیں، دعویٰ یا الزام غلط ثابت ہونے پر مُدّعی کو معافی بھی مانگنی پڑتی ہے اور تاوان بھی دینا پڑتا ہے، اس لیے وہاں ہماری طرح اتنی کثرت سے ایک دوسرے پر الزامات یا توہین کے واقعات رونما نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں اگرچہ قوانین موجود ہیں، لیکن وہ بااثر لوگوں پر نافذ نہیں ہوتے، ایسے قوانین صرف قانون کی کتاب کی زینت بنتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کی آبرو کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کو سہل اور قابلِ عمل بنایا جائے، ان مقدمات کے فیصلوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کیا جائے اور اس بات کا بھی پابند بنایا جائے کہ مقررہ مدت کے اندر فیصلہ دیا جائے اور پھر ایسے فیصلوں کو نافذ بھی کیا جائے۔ آج کل آڈیو؍ وڈیو کلپ کثرت سے آ رہے ہیں، ان کی بابت بھی قانون سازی ہونی چاہیے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کے فرانزک ٹیسٹ کا اہتمام کرے، ان کی حقیقت کو قبول کرے یا ردّ کرے اور اگر یہ درست ثابت ہوں تو انہیں ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اگر اعظم سواتی کے معاملے کو ہی ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جاتا تو پروپیگنڈے کے امکانات کم ہو جاتے، حقائق سامنے آتے اور اگر کوئی ذمہ دار قرار پاتا تو اُسے قرارِ واقعی سزا ملتی۔ سوشل میڈیا کے لیے بھی سخت قوانین کی ضرورت ہے، اُن کے نفاذ کا طریقۂ کار بھی سہل اور قابلِ عمل ہونا چاہیے، سوشل میڈیا پر صرف لوگوں کی شخصی توہین ہی نہیں ہو رہی، بلکہ دینی مقدّسات کی توہین کے لیے بھی سوشل میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے، اس کے لیے سخت گیر قوانین کی ضرورت ہے۔
بات تلخ ہے لیکن درست ہے کہ 2017ء اور اس کے بعد سے کچھ فیصلوں میں بے اعتدالیاں ہوئیں، یہ الزام لگا کہ مقتدرہ اداروں کو استعمال کر رہی ہے، پھر جب کوئی مقتدر کسی ادارے کو اُس کی حدود سے ماورا استعمال کرے، تو وہ ادارہ ازخود بھی بہت سی بے اعتدالیاں کرنے لگتا ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی آج تک تصدیق نہیں کی گئی، بعض مقدمات کے لیے راتوں کو اور چھٹی کے دن بھی عدالتیں کھلتی رہیں اور بعض مقدمات فائلوں میں دبے ہوئے ہیں، قاسم سوری کی نااہلی کا کیس اس کی واضح مثال ہے اور فیصل واوڈا کا جو فیصلہ آیا ہے، وہ بوالعجبی کا شاہکار ہے، خان صاحب اور نواز شریف، نہال ہاشمی، طلال چودھری اور دانیال عزیز کے فیصلوں کا تقابل حیران کر دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں