غَرَر اور غَبَنِ فاحِش کا حکم مُجَلّہ میں یہ بیان کیا: ''بائِع اور مشتری میں سے کوئی دوسرے کو دھوکا دے اور یہ ثابت ہو جائے کہ بیع میں غَبَنِ فاحِش ہے، توجس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے اُسے اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کے لیے بیع کو فَسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے‘‘۔ ہماری رائے میں اُس عہد کے فقہائے کرام نے اپنے حالات کے مطابق نفع کی یہ ممکنہ حد مقرر فرمائی تھی۔ ہر دور میں عام حالات میں تاجروں کے درمیان جو نفع کی شرح رائج ہو، اُسی کا اعتبار کیا جائے گا۔ ہمارے دور میں چونکہ اشیائے خوراک پیدا کرنے والوں، اہلِ صنعت و حِرفت اور حقیقی صارفین کے درمیان واسطے بہت بڑھ گئے ہیں، اس لیے نفع کی یہ شرح بھی بڑھ گئی ہے اور یہ بات قابلِ فہم بھی ہے۔
رسالت مآبﷺ کے عہدِ مبارک میں چونکہ اشیاء پیدا کرنے والے یا بنانے والے خود اپنا مال لے کر شہر میں آتے تھے اور وہاں منڈیاں یا بازار لگتے تھے‘ جیسے آج کل ہمارے ہاں جمعہ بازار، اتوار بازار یا بدھ بازار لگتے ہیں۔ اسی طرح ایامِ جاہلیت میں عُکاظ، ذوالمِجنّۃ اور ذوالمجاز کے بازار لگتے تھے اور دیہاتی لوگ اپنا مال براہِ راست تاجروں یا صارفین پر بیچتے تھے؛ چنانچہ باہر سے آنے والے دیہاتی کو اپنے مال کی مناسب قیمت مل جاتی تھی اور تاجر یا صارِف کو تجارت کے فطری اصول کے مطابق صحیح قیمت پر مال مل جاتا تھا اور درمیانی واسطے (Middlemen) نہ ہونے کی وجہ سے نفع کا تناسب بھی مناسب سطح پر رہتا تھا۔
اسی حکمت کے تحت رسول اللہﷺ نے ''تَلَقَّی الْجَلَب‘‘ اور ''بَیْعُ حَاضِرٍلِلْبادِی‘‘ کی ممانعت فرمائی تھی کہ شہری تاجر شہر سے باہر جاکر تجارتی قافلوں سے خریداری نہ کریں، کیونکہ باہر سے آنے والے دیہاتی یا تجارتی قافلے کو شہر میں کسی چیز کی طلب یا قِلّت کے بارے صحیح معلومات نہیں ہوتی تھیں، اِسی کو شریعت نے ''سَدِّ ذَرائِع‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ الغرض اسلام نے ناجائز منافع خوری کے طریقوں کو بند کیا۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''شہری دیہاتی کا ایجنٹ بن کر بیع نہ کرے، لوگوں کواُن کے حال پر چھوڑو، اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے رزق کی فراہمی کا وسیلہ بنایا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 1522)۔
علامہ برہان الدین مَرغینانی نے لکھا: ''شہری کی دیہاتی کے لیے بیع سے اُس صورت میں منع کیا ہے، جب شہر میں کسی چیز کی قِلّت ہو اور اُس کی شدید ضرورت ہو، اُس وقت ایجنٹ بن کر بیع کرنا قیمت کو بڑھانا ہے اور اِس میں شہر والوں کا نقصان ہے۔ لیکن اگر حالات معمول کے مطابق ہوں تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ اِس میں کسی کو نقصان نہیں ہے‘‘ (ہدایہ، ج: 5، ص: 141)۔ آج کل بڑے تاجر موقع پر جا کر مال خریدتے ہیں، بعض صورتوں میں وہ کئی سال کے لیے باغات کی پیداوار کا پیشگی سودا کر لیتے ہیں، جو شرعاً منع ہے اور شہر میں آنے والا مال آڑھتیوں اور کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے منڈیوں میں تھوک (Wholesale) کے حساب سے فروخت ہوتا ہے اور پھر خوردہ فروش (Retailer) اُن سے خرید کر شہروں میں فروخت کرتے ہیں۔ شہر بہت پھیل چکے ہیں اور آبادی بہت بڑھ چکی ہے، اس لیے ہر کاشتکار، باغبان، مویشی بان اور اہل صنعت و حِرفت کی شہر کی منڈیوں تک رسائی آسان نہیں ہے اور بڑی مچھلیاں آسانی سے چھوٹی مچھلیوں کو نگل لیتی ہیں۔ عالَمی سطح پر کارپوریٹ کلچر نے اِجارہ داریاں قائم کر رکھی ہیں۔ بعض اوقات ذخیرہ اندوزی کر کے یا مارکیٹ میں مال کی رَسَد کو روک کر مصنوعی طریقے سے طلب بڑھائی جاتی ہے۔ اس کے سدِّباب کے لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تاجر خوش بخت ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے‘‘ (ابن ماجہ: 2153)۔ ذخیرہ اندوزی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک خاص شعبے سے تعلق رکھنے والے ساہوکار منصوبہ بندی کے ساتھ مفاداتی گروپ (Cartel) بنا کر اشیائے صَرف کی ذخیرہ اندوزی کریں، طلب بڑھانے کے لیے رَسَد روک دیں، یہاں تک کہ غیر فطری انداز میں قیمتیں انتہائی بلند سطح پر چلی جائیں اور پھر عام لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی تجوریاں بھریں۔ ماضی میں اِسی استحصالی کلچر کے ذریعے کبھی چینی، کبھی آٹا، کبھی دوائوں اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھائی جاتی رہی ہیں۔ اِسی طرح اگر بیرونِ ملک کسی چیز کی طلب بڑھ جائے تو سنگدل تاجر اپنے عوام کو ترستا چھوڑ کر اُس مال کو برآمد کر لیتے ہیں اور کئی گنا زیادہ نفع کماتے ہیں۔
ایسے حالات میں حکومت کا کام مارکیٹ میں طلب و رَسَد کو نظم وضبط میں لانا یعنی Regulate کرنا اور متوازن رکھنا ہوتا ہے۔ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے: ''جب تاجر قیمت میں تجاوز کر کے غیر معمولی کمی بیشی کریں تو حکومت ماہرین کے مشورے سے قیمت مقرر کرے اور امام مالکؒ نے کہا: حاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہنگائی کے زمانے میں پرائس کنٹرول کرے، لیکن یہ احتیاط ملحوظ رہے کہ کسی فریق پر ناروا زیادتی نہ ہو‘‘ (رد المحتار، ج: 9، ص: 488)۔ جب غذائی اشیا کی قلت ہو اور کچھ لوگ ذخیرہ اندوزی کر رہے ہوں تو حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تاجروں کو ذخیرہ کی گئی اشیا کو فروخت کرنے کا حکم دے اور اگر تاجر حکم کی تعمیل نہ کریں تو حکومت ان کی مرضی کے خلاف خود بھی مارکٹ ریٹ پر فروخت کر سکتی ہے۔ اَلْمَوْسُوْعَۃُ الْفِقْہِیَّۃ میں ہے: ''جب عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو تو حاکم ذخیرہ اندوز کو مجبور کرے گا، بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال کو لے کر بازاری قیمت یا مثلی اشیا کے عوض فروخت کرے گا، یہ بات تمام ائمہ میں متفق علیہ ہے۔ مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ اور احناف میں امام محمد کا نظریہ یہ ہے کہ عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ نہ بھی ہو تب بھی (مستقبل میں عوام کے متاثر ہونے کے اندیشے کے پیش نظر) حاکم ذخیرہ اندوز کو مجبور کر سکتا ہے، بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال لے کر فروخت کر سکتا ہے‘‘ (اَلْمَوْسُوْعَۃُ الْفِقْہِیَّۃ الْکُوَیْتِیَّۃ: ج: 2، ص: 95)۔ اس وقت تو عوام کے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے دیوالیہ ہونے کا اندیشہ بھی پایا جاتا ہے، اس لیے مارکیٹ میں توازن کے لیے حکومت کی مارکیٹ پر گرفت ضروری ہے اور ضرورت پڑنے پر عوام کے مفاد میں کسی سخت کارروائی سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اِس ضمن میں حکومتوں کی ناکامی کی چند وجوہ ہیں:
(1) یہ کہ حکمران خود کسی کاروبار سے وابستہ ہو جائیں، (2) بڑے کاروباری طبقے اُنہیں انتخابات میں غیر معمولی فنڈز دیں اور وہ اقتدار میں آنے کے بعد اُن کے احسانات کی تلافی کریں، جیسا کہ گزشتہ حکومت نے پراپرٹی کے شعبے کو غیر معمولی مراعات دیں اور انہیں کالے دھن کو سفید کرنے کے مواقع فراہم کیے؛ الغرض بعض طبقات حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آگئے ہیں، (3) حکمران رشوت لے کر عوام کی فلاح سے لا تعلق ہو جائیں اور ناجائز نفع خوروں اور استحصالی عناصر کوکھلی چھوٹ دے دی جائے، (4) قانون اس طرح لچک دار ہوکہ موم کی ناک بن جائے اور با اثر لوگ اعلیٰ قانونی ماہرین کی مدد سے اپنے حق میں فیصلے کرائیں۔ حال ہی میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا بالواسطہ یہ موقف آیا ہے: ''وہ اُس وقت کے توانائی کے مشیر کو لے کر قطر کے حکمران کے پاس گئے، انہوں نے کہا: ہم ایل این جی سوا گیارہ ڈالر کی بیچ رہے ہیں، آپ کو سوا دس ڈالر کی دے دیں گے، آپ ایک وقت میں جتنی مقدار میں لینا چاہیں‘ خرید لیں، ہم آپ کو فراہم کر دیں گے۔ مشیر توانائی نے کہا: ہمارے لیے تین کنٹینرز کافی ہیں۔ باجوہ صاحب کہتے ہیں: ہم نے کہا: دس کنٹینرز لے لیں، آگے ضرورت پیش آ سکتی ہے، آپ دس کنٹینر کا سودا کر لیں، انہوں نے کہا: ہمارے لیے تین کنٹینرز کافی ہیں، بعد میں سردیاں آئیں اور توانائی کی شدید قلت پیدا ہو گئی، تب پتا چلا: ''وہ اپنا فرنس آئل بیچنا چاہتے تھے‘‘۔ اسی طرح روایت کیا گیا ہے: امریکنوں نے باجوہ صاحب کو کہا: ''کراچی میں آپ کی پورٹ پر پٹرولیم کی غیر قانونی ٹریڈنگ ہو رہی ہے‘‘، انہوں نے وزیر اعظم صاحب سے کہا، انہوں نے اس بات کو اہمیت نہ دی، امریکیوں نے پھر رابطہ کیا، پھر اداروں نے معلومات کیں تو پتا چلا: مشیر توانائی کے ایرانی پٹرولیم کے شپ کھڑے تھے اور اُن کا ریٹ مارکیٹ سے تیس روپے فی لیٹر کم تھا، کیونکہ امریکہ نے ایرانی پٹرول کی فروخت پر پابندی لگا رکھی تھی اور اس غیر قانونی تجارت کا پاکستان کو عالمی سطح پر بہت نقصان اٹھانا پڑ سکتا تھا؛ چنانچہ اُس کے بعد وزیراعظم نے مشیر توانائی سے استعفیٰ لے لیا۔
بعض صورتوں میں حکومتیں اشیائے صَرف کے نِرخ مقرر کرتی ہیں، لیکن مارکیٹ میں اُن نِرخوں پر اشیا دستیاب نہیں ہوتیں، کیونکہ رَسَد پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہوتا اور حکومت نچلے طبقات کے لیے زرِ اعانت (Subsidy) بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتی، کیونکہ عالَمی قرض دہندہ ادارے یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اُن کو اس کی اجازت نہیں دیتے۔ انسانیت کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت دنیا پر انتہائی سنگدل سرمایہ دارانہ نظام کا کنٹرول ہے اور حکومتیں اُن کے مفادات کی محافظ ہیں۔ سوویت یونین کے زوال اور چین کے بتدریج سرمایہ دارانہ نظام کی طرف منتقلی نے اِس نظام کے لیے خطرات کو معدوم کر دیا ہے اورکوئی مؤثر چیلنج سرِ دست اس کے سامنے نہیں ہے۔ اس نظام کے خلاف بغاوت مغرب میں ہو سکتی تھی، لیکن وہاں کی حکومتوں نے بنیادی ضرورتوں کی قیمتوں کو اپنے عوام کی پہنچ میں رکھنے کا اہتمام کر رکھا ہے اور وہ رسد پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ نیز انہوں نے اپنے عوام کو عیش و نشاط کا دلدادہ بناکر عزیمت کی راہوں سے دور کر دیا ہے۔
مسلم ممالک بھی بحیثیتِ مجموعی اِسی نظام کے تحت غلامی کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں، کیونکہ حقیقی معنی میں اسلامی نظامِ معیشت کا کوئی نمونہ یا مظہر دنیا کے سامنے موجود نہیں ہے۔ اسلامی بینکاری نے لاربائی میکنزم تو کسی حد تک پیش کیا ہے، لیکن انسانیت نوازی کی بنیاد پر اسلامی فلاحی معیشت کی صورت گری نہیں کی، کیونکہ مارکیٹ میں منافع کی شرح مقرر کرنے پر بحیثیتِ مجموعی سودی نظام معیشت کو کنٹرول حاصل ہے اور وہی رجحان ساز ہے۔ اسلام میں جب تک نظامِ حکومت، نظامِ عدالت، نظامِ معیشت اور سماجی ڈھانچے (Social Structure) پر بحیثیت مجموعی اَخلاقیات کی گرفت مضبوط نہ ہو، تو مُثبِت نتائج برآمد ہونے کی توقع عبث ہے۔