آغازِ پارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: زمین پر چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے‘ وہ، اُس کے قیام کی جگہ (اس سے مراد باپ کی پُشت یا ماں کا رَحم یا زمین پر جائے سکونت ہے) اور سپردگی کی جگہ (اس سے مراد مکان یا قبر ہے)‘ سب کچھ روشن کتاب میں مذکور ہے‘ مزید فرمایا: تخلیقِ کائنات کا مقصد انسان کے خیر و شَر کی آزمائش ہے‘ پھر انسان کی خود غرضی کو بیان فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کوئی نعمت عطا کرے‘ تو اُس پر شکر گزار نہیں ہوتا‘ لیکن نعمت چھن جانے پر نااُمید اور ناشکرا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مصیبت کے بعد کوئی نعمت ملے تو انسان اتراتا ہے اور شیخی بگھارتا ہے؛ البتہ جو ہر حال میں صابر و شاکر رہیں اور عملِ صالح کریں تو اُن کیلئے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی تسلی کیلئے فرمایا کہ کفار طرح طرح کی فرمائشیں کرتے ہیں کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل کیا گیا‘ آپ کی تائید کیلئے فرشتہ کیوں نہ اُترا‘ آپ اس پر تنگ دل نہ ہوں‘ آپ کا کام تو صرف لوگوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرانا ہے۔ اس سورہ میں بھی قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کا انکار کرنے والوں کو چیلنج دیا گیاکہ اپنے تمام حامیوں کو ملا کر اس جیسی دس سورتیں بنا لاؤ۔ آیت 23 میں بتایا کہ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے اور اپنے رب کے حضور عاجزی کی‘ تو یہ لوگ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ آیت 25 سے پھر نوح علیہ السلام اور اُن کی قوم کے حالات بیان ہوئے ہیں۔ نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بنائیے۔ وہ کشتی بنانے لگے‘جب اُن کی قوم کے سردار اُن کے پاس سے گزرتے تو اُن کا مذاق اُڑاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب ہمارا حکمِ عذاب آ پہنچا اور تنور ابلنے لگا تو ہم نے نوح علیہ السلام سے کہا: آپ خود اپنے گھر والوں کے ساتھ اس کشتی میں سوار ہو جائیں اور اہلِ ایمان کو بھی سوار کر لیں اور ہر چیز کے جوڑے (یعنی نَر و مادہ) کو سوار کر لیں اور اُن کے ساتھ ایمان لانے والے بہت کم تھے۔ کشتی اُنہیں پہاڑ جیسی موجوں میں لئے جا رہی تھی کہ نوح علیہ السلام نے الگ کھڑے اپنے بیٹے سے کہا: اے بیٹے! ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔ اُس (پسرِ نوح کنعان) نے کہا: میں کسی پہاڑ کی پناہ میں آ جاؤں گا‘ جو مجھے پانی سے بچا لے گا‘ نوح علیہ السلام نے کہا: آج اللہ کے حکم کے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔ سوائے‘ اُس کے جس پر اللہ رحم فرمائے‘ پھر اُن دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوب گیا۔ اللہ کی طرف سے حکم ہوا: اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک ہو گیا‘ اللہ کا فیصلہ نافذ ہو گیا اور کشتی کوہِ جودی پر جا ٹھہر ی‘ پھر طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد وہ سلامتی کے ساتھ اُتر گئے۔ آیت 50 سے قومِ عاد کا ذکر ہے کہ اُن کی طرف دعوتِ توحید دینے کیلئے حضرت ہود علیہ السلام کو بھیجا۔ قومِ عاد نے دعوتِ حق کو رَد کر دیا۔ قوم عاد نے اللہ کی نشانیوں اور رسولوں کو جھٹلایا اور دنیا و آخرت میں لعنت کے حقدار قرار پائے۔ آیت 61 سے حضرت صالح علیہ السلام اور اُن کی قوم ثمود کے حالات کو بیان کیا گیا۔ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے اسے چرنے کیلئے آزاد چھوڑ دو‘ اسے تکلیف نہ پہنچاؤ‘ ورنہ تمہیں عذاب پہنچے گا‘ اُنہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں‘ پھر ایک چنگھاڑ نے اُن کو آ دبوچا اور وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل اوندھے پڑے رہ گئے۔ آیت 69 سے اس بات کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے بشری شکل میں آئے اور اُنہیں بیٹے کی بشارت دی۔ اللہ فرماتا ہے کہ بیٹے کی بشارت سن کر ابراہیم علیہ السلام کا خوف دُور ہو گیا اور وہ قومِ لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرمایا کہ اے ابراہیم! اس عرضداشت سے گریز اں رہیں کہ اس کا یقینی فیصلہ ہو چکا ہے اور ان پر نہ ٹلنے والا عذاب نازل ہو کر رہے گا۔ آیت 77 سے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم (اہلِ سدوم) کی بد اَعمالیوں اور حضرت لوط علیہ السلام کے اپنی قوم کی بداَعمالیوں کے باعث فرشتوں کی آمد پر مضطرب ہونے کا ذکر ہے۔ جب اللہ کا عذاب آیا تو اُس نے بستی کے اوپر کے حصے کو نیچے کر دیا گیا اور قومِ لوط کے اوپر اللہ کی طرف سے لگاتار نشان زدہ پتھر برسائے گئے۔ آیت 84 سے حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم اہلِ مَدیَن اور اُن کے جرائم کو بیان کیا گیا‘ جب اہلِ مدین پر حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتوں کا اثر نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بھی عذاب سے ہلاک فرما دیا۔ حضرت شعیب اور اُن پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا گیا اور ظالموں کو ایک زبردست چنگھاڑ نے پکڑ لیا۔ آیت 123 میں فرمایا: آسمانوں اور زمینوں کے سب غیب اللہ ہی کے ساتھ مختص ہیں‘ ہرکام اُسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے‘ آپ اُسی کی عبادت کیجئے‘ اُسی پر توکل کیجئے اور آپ کا رب لوگوں کے اَعمال سے غافل نہیں۔
سورۂ یوسف
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‘ اس سورہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر ہے اور قدرے تفصیل کے ساتھ ہے۔ قرآن نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کو ''حسین ترین قصہ‘‘ قرار دیا ہے۔ سب سے پہلے حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر ہے‘ اُنہوں نے دیکھا ''سورج‘ چاند اور گیارہ ستارے اُن کو سجدہ کر رہے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے اپنا یہ خواب اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو بیان کیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اُنہیں یہ خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان کرنے سے منع فرمایا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے باہمی مشورے سے ایک سازش کے ذریعے حضرت یوسف علیہ السلام کو اُن کے والد سے جدا کر دیا اور ایک گہرے کنویں میں ڈال دیا۔ بالآخر تکالیف اور مصائب کے بعد آپ غلام کی حیثیت سے عزیز ِ مصر کے دربار میں پہنچے۔ عزیزِ مصر نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کو عزت سے رکھو‘ اسے ہم اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں۔ جب یوسف علیہ السلام پُختہ عمر کو پہنچے تو عزیز ِ مصر کی بیوی نے (جس کا نام زلیخا بتایا گیا ہے) اپنے گھر کے دروازے بندکر کے اُنہیں دعوتِ گناہ دی۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا: میں اپنے مربی کی احسان کُشی نہیں کر سکتا۔ یوسف علیہ السلام دروازے کی طرف دوڑے اور پیچھے سے عزیزِ مصر کی بیوی نے اُن کی قمیص پکڑی‘ جو پھٹ گئی۔ اسی اثنا میں اُس کا شوہر سامنے آیا اور عزیزِ مصر کی بیوی نے سارا الزام یوسف علیہ السلام پر لگا دیا ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اُس عورت نے اُن سے (گناہ کا) قصد کیا اور اُنہوں نے اُس سے بچنے کا قصد کیا؛ اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھتے (تومعاذ اللہ )گناہ میں مبتلا ہو جاتے۔ جب یہ چرچا ہوا کہ عزیزِ مصر کی بیوی ایک نوجوان غلام پر فریفتہ ہوگئی ہے تو شہر کی عورتوں نے اُس پر طعن کیا اور کہا: کہاں تیرا مَنصب اور کہاں ایک زَر خرید غلام؟ چنانچہ عزیزِ مصر کی بیوی نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور اُن عورتوں کو بلا کر اُن کے ہاتھوں میں پھل کاٹنے کیلئے چھریاں پکڑا دیں اور اچانک اُن کے سامنے یوسف علیہ السلام کو پردے سے باہر لے آئی‘ جب اُن عورتوں کی نظرحضرت یوسف علیہ السلام پر پڑی تو حسنِ یوسف نے اُن کے ہوش اُڑا دیے‘ اُنہوں نے پھلوں کے بجائے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور کہا: حاشاللہ یہ بشر نہیں‘ یہ تو کوئی مُعزز فرشتہ ہے‘ پھر عزیزِ مصر کی بیوی نے کہا کہ یہی تو وہ پیکرِ جمال ہے‘ جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں۔ یوسف علیہ السلام نے کہاکہ اے پروردگار! گناہ میں مبتلا ہونے سے قید کی مُشقت میرے لئے بہتر ہے اور تیرے ہی کرم سے مجھے عورتوں کی اس سازش سے نجات ملی‘ پھر جب حضرت یوسف علیہ السلام کو قید میں ڈال دیا گیا تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اُن کے دو قیدی ساتھیوں نے اُن کے سامنے اپنا اپنا خواب بیان کیا۔ آپ نے اُن کے خوابوں کی یہ تعبیر بتائی کہ ایک سے کہا کہ تم بادشاہ کے دربارمیں پہنچو گے اور اپنے آقا کو شراب پلاؤ گے اور دوسرے کو بتایا کہ تمہیں سولی دی جائے گی اور پرندے تمہارا گوشت نوچ کر کھائیں گے اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔ آپ نے دونوں کو دعوتِ توحید دی۔ چند سال آپ قید میں ہی رہے، اسی دوران بادشاہ نے ایک خواب دیکھا کہ سات تندرست گائیں‘ سات دُبلی گائیوں کو کھا رہی ہیں اور فصل کے سات خوشے سرسبزہیں اور سات خشک۔ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے خواب کی تعبیر پوچھی‘ لیکن وہ نہ بتا سکے‘ پھر یوسف علیہ السلام کے قیدی ساتھی کے ذریعے‘ جو اب بادشاہ کا خادم بن چکا تھا‘ یوسف علیہ السلام کے خوابوں کی تعبیر میں مہارت کا علم ہوا؛ چنانچہ آپ سے رجوع کیا گیا۔ آپ نے تعبیر یہ بتائی کہ سات سال تم پر سرسبزی اور شادابی کے آئیں گے اور پھر سات سال قحط سالی کے آئیں گے۔ تمہیں چاہیے کہ شادابی کے سات برسوں میں فاضل پیداوار کو خوشوں میں ہی محفوظ رکھنا‘ تاکہ خشک سالی میں تمہارے کام آئے۔