سورہ بنی اسرائیل: سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں رسول کریمﷺ کے معجزۂ معراج کی پہلی منزل‘ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ذکر صراحت کے ساتھ ہے۔ یہ تاریخِ نبوت‘ تاریخِ ملائک اور تاریخِ انسانیت میں سب سے حیرت انگیز اور عقلوں کو دنگ کرنے والا واقعہ ہے۔ اس کی مزید تفصیلات سورۃ النجم اور احادیث میں مذکور ہیں۔ آیت 13 اور اس سے اگلی آیات میں بتایا کہ ہم نے ہر انسان کا اعمال نامہ اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے (یعنی اللہ کی قضا و قدر میں جو طے ہے‘ وہ ہو کر رہے گا) اور قیامت کے دن یہ اعمال نامہ ایک کھلی ہوئی کتاب کی صورت میں ہوگا (بندے سے کہا جائے گا) اپنا اعمال نامہ پڑھو‘ آج تم خود ہی احتساب کرنے کے لیے کافی ہو‘ جس نے ہدایت کو اختیار کیا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جس نے گمراہی کو اختیار کیا تو اس کا وبال بھی اسی پر آئے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں ہیں‘ جب تک کہ (اتمامِ حجت کیلئے) ہم رسول نہ بھیج دیں۔ آیت 23 میں والدین کے حقوق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ''اور تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور اگر تمہاری زندگی میں وہ دونوں یا ان میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے‘ تو ان کو اُف تک نہ کہو‘ ان کو جھڑکو بھی نہیں اور ان کے ساتھ ادب سے بات کرو اور ان کیلئے عاجزی اور رحم دلی کا بازو جھکائے رکھو اور یہ دعا کرو: اے میرے رب! ان پر رحم فرمانا جیسا کہ انہوں نے بچپن میں رحم کے ساتھ میری پرورش کی۔ آیت 26 میں قرابت داروں‘ مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرنے اور فضول خرچی سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔ آیت 29 سے تسلسل کے ساتھ احکام کا بیان ہے: (1) خرچ کرنے میں بُخل‘ حرص اور فضول خرچی کے درمیان میانہ روی کو اختیار کرنے کا حکم (2) افلاس کے خوف سے اولاد کو قتل کی ممانعت (3) زنا کی ممانعت (4) قتلِ ناحق کی ممانعت اور قصاص لینے میں حدِ اعتدال میں رہنے کا حکم (5) یتیم کا مال کھانے کی ممانعت (6) ناپ تول میں خیانت کی ممانعت (7) لوگوں کے پوشیدہ احوال کی کھوج لگانے کی ممانعت (8) اِترا کر چلنے کی ممانعت (9) شرک کی ممانعت (10) روزی کی کشادگی یا تنگی کا مَدار کسی کی فضیلت یا بے قدری پر نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت کا معاملہ ہے۔ آیت 44 میں بیان فرمایا ''سات آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہیں‘ اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور ہر چیز اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہی ہے‘ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے‘‘۔ آیت 45 میں فرمایا کہ منکرینِ آخرت قرآن کی تعلیمات سے استفادہ کرنے سے محروم رہتے ہیں اور ان کے دل و دماغ حق کو قبول کرنے کی سعادت سے محروم ہیں۔ وہ فصیح و بلیغ قرآن سن کر بھی نبی پر سحر زدہ ہونے کے طعن کرتے ہیں۔ آیت 78 سے اشارتاً پانچ نمازوں کا حکم ہے‘ فجر کی فضیلت کا بیان‘ نمازِ تہجد کی ترغیب اور رسول کریمﷺ کیلئے مقامِ محمود (جو مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے) عطا کیے جانے کا بیان ہے۔ آیت81 اور 82 میں حق کی آمد اور باطل کے نیست و نابود ہونے کا بیان ہے اور یہ کہ قرآن میں اہلِ ایمان کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ آیت 85 یہود کے رسول کریمﷺ سے روح کے بارے میں سوال سے متعلق ہے‘ اللہ نے فرمایا ''(اے رسول!) کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے اور تم کو محض تھوڑا سا علم عطا کیا گیا ہے‘‘۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جن چیزوں کی حقیقت جاننے پر ہدایت و نجات موقوف نہیں ہے‘ ان کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں۔ آیت 90 سے مشرکینِ مکہ کے بعض فاسد مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے کہا ہم اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لائیں گے حتیٰ کہ (1) آپ ہمارے لیے زمین سے پانی کا کوئی چشمہ جاری کر دیں۔ (2) یا آپ کھجوروں اور انگوروں کے باغات کے مالک بن جائیں‘ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں (3) یا آپ ہمیں‘ جس عذاب سے ڈراتے ہیں‘ وہ لے آئیں یا آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں (4) یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے بے حجاب لے آئیں (5) یا آپ کے لیے سونے کا گھر ہو (6) یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور پھر آسمان سے ہم پر کتاب نازل کریں‘ جس کو ہم پڑھیں۔ ان سب مطالبات کے جواب میں اللہ نے فرمایا: (اے رسول کہہ دو) میرا رب ہر عیب سے پاک ہے (میں کوئی شعبدے باز نہیں ہوں‘ بلکہ) میں ایک بشر ہوں‘ جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا۔ آیت 105 میں قرآن مجید کو بتدریج‘ یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنے کی حکمت یہ بتائی کہ رسول ان پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں‘ ان کے لیے قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ مشرکینِ مکہ اعتراض کرتے کہ کبھی آپ اللہ کہتے اور کبھی رحمن کہتے ہیں تو اللہ نے فرمایا ''کہہ دیجئے کہ (معبودِ برحق کو) تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو تم اسے جس نام سے بھی پکارو‘ سب اُسی کے نام ہیں‘‘۔
سورۃ الکہف: اس سورۂ مبارکہ کی آیت 9 سے اصحابِ کہف کا بیان ہے‘ یہ چند صالح نوجوان تھے‘ جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقیدۂ توحید اور ایمان پر ثابت قدم رکھا‘ لیکن ان کی قوم مشرک تھی اور ایک ظالم بادشاہ مسلط تھا‘ وہ لوگ ان نوجوانوں کے دشمن ہو گئے تو انہوں نے ان کے شر سے بچنے کیلئے غار میں پناہ لی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند مسلط کر دی اور اس کیفیت میں وہ 309 سال تک سوتے رہے۔ غار میں اللہ تعالیٰ نے ایسا غیبی انتظام کیا کہ وہ ایک کشادہ جگہ میں تھے جب سورج طلوع ہوتا تو دھوپ غار کے دائیں جانب رہتی اور غروب ہوتے وقت بائیں جانب پھر جاتی۔ اللہ تعالیٰ انہیں حسبِ ضرورت دائیں بائیں کروٹیں بدل دیتا تاکہ ان کو روشنی‘ حرارت اور ہوا ملتی رہے اور ایک ہی ہیئت میں سوتے ہوئے ان کے بدن پر زخم نہ ہو جائیں۔ اصحابِ کہف کا ایک کتا بھی تھا‘ جو غار کی چوکھٹ پر پائوں پھیلائے بیٹھا رہا۔ اصحابِ کہف کی تعداد کے بارے میں قرآنِ مجید میں لوگوں کے حوالے سے تین اقوال نقل کئے ہیں‘ پہلے دو اقوال کو قرآن نے لوگوں کی ''تکّہ بازی‘‘ قراردیا اور تیسرے قول کو قرآن نے رَد نہیں کیا‘ یعنی وہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کتا‘ لہٰذا مُفسرین نے اسی تعداد کو صحت کے قریب قرار دیا ہے‘ اللہ نے فرمایا ''اُن کی صحیح تعداد کو اللہ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے‘ اُن کو صرف چند لوگ جاننے والے ہیں (یعنی جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کا علم عطاکیا)‘‘ قرآن نے ان کی تعداد کے بارے میں زیادہ بحث سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایاکہ اللہ نے اُن کے منظر کو بارعب بنا دیاتھا تاکہ کوئی اُن کی طرف تاک جھانک نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ وہ جاگ رہے ہیں؛ حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے۔ آیت 28 میں رسول کریمﷺ سے فرمایا کہ فقراء صحابہ کو آپ اپنے پاس بٹھائے رکھیں‘ یہ صبح اور شام اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں‘ اس کی رضا کے طلبگار ہیں اور آپ اپنی آنکھیں ان سے نہ ہٹائیں۔ آیت 32 سے اللہ تعالیٰ نے دو لوگوں کا واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص کے انگوروں کے عمدہ باغات تھے‘ اُس نے اپنے ساتھی پر تفاخر اور اپنے خالق کی ناشکری کی‘ تو اللہ تعالیٰ نے اُس کے مال کو برباد کر دیا۔ آیت 60 سے موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا بیان ہے۔ وہ اپنے ایک خادم یوشع بن نون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکمتوں اور اسرار ورموز کو جاننے کیلئے حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں نکلے‘ دورانِ سفرحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ کھانا لاؤ‘ ہم سفر کرتے کرتے تھک چکے ہیں‘ خادم نے کہا کہ دورانِ سفر جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا مجھے شیطان نے بھلا دیا اور وہ سمندر میں راستہ بناتے ہوئے نکل گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ دو سمندروں کا یہی سنگم تو ہماری منزل ہے‘ وہ دونوں واپس لوٹے اور پھر ہمارے ایک بندۂ خاص کو وہاں پایا جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اُسے ''علمِ لَدُنِّی‘‘ عطا کیا تھا۔ مفسرین کے مطابق یہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو رُشد وہدایت کا علمِ خاص عطا کیا ہے‘ اُس میں سے کچھ مجھے بھی تعلیم دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی اور رسول ہیں‘ کلیم ہیں‘ افضل ہیں‘ لیکن افضل کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کو کسی خاص شعبے میں کوئی فضیلت عطا کی جا سکتی ہے ‘یہی صورتِ حال یہاں بھی تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اپنے سے کم مرتبہ شخص سے بھی کسی خاص شعبے کا علم حاصل کیا جا سکتاہے اور اس بنا پر اُس کی تکریم کی جا سکتی ہے۔