اس پارے کے شروع میں اس بات کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آنے والے اجنبی انسان نہیں تھے بلکہ بشری شکل میں فرشتے تھے‘ تو ابراہیم علیہ السلام نے اُن سے پوچھا کہ آپ کا مشن کیا ہے‘ اُنہوں نے کہا: ہم مجرموں کی ایک قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اُن پر مٹی سے پکے ہوئے پتھر برسائیں‘ جو آپ کے رب کے نزدیک حد سے تجاوز کرنے والوں کیلئے نشان زدہ (Guided) ہیں۔ سائنسی دنیا گائیڈڈ میزائل کی جس تکنیک تک بہت دیر میں پہنچی ہے‘ قرآنِ مجید نے اُس کا تصور بہت پہلے پیش کیا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہاکہ ہم اہلِ ایمان کو صحیح سلامت اُس بستی سے باہر نکال دیں گے اور اُس میں مسلمانوں کا ایک ہی گھر ہے‘ یعنی حضرت لوط علیہ السلام۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ذکر ہے اور فرعونیوں کے سمندر میں غرق ہونے کا نیز قومِ عاد و ثمود پر عذاب کا ذکر ہے۔ پھر فرمایا: آسمان کو ہم نے اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور ہم (ہر آن) اِس کو توسیع دینے والے ہیں۔ آج ماہرینِ فلکیات اور سائنس دان نت نئی کہکشاؤں کے دریافت کرنے کی بات کرتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ ابھی لاتعداد کہکشائیں ایسی ہیں جو دریافت نہیں ہو سکیں‘ تو قرآن مجید نے بالائی کائنات کی وسعت کی بات بہت پہلے بیان کر دی۔ آیت 56 وہ مشہور آیت ہے جس میں رب کائنات نے جنوں اور انسانوں کے مقصدِ تخلیق کوبیان کیا یعنی اللہ کی عبادت اور اُس کی معرفت۔
سورۃ الطور: اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے اَٹل عذاب کا ذکر ہے کہ جب اُس کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو اُسے کوئی ٹالنے والی طاقت نہیں ہے‘ آسمان تھرتھرانے لگتا ہے اور پہاڑ بہت تیزی سے چلنے لگتے ہیں۔ آیت 17 میں اہلِ جنت کیلئے اللہ عزوجل کی جانب سے جو نعمتیں‘ راحتیں تیار ہیں‘ اُن کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ اہلِ ایمان کی اولاد میں سے جو اُن کے سچے پیروکار ہوں گے‘ وہ بھی اُن سے جا ملیں گے۔ آیت 35 میں قدرتِ باری تعالیٰ کے منکرین کو مخاطب کرکے بتایا گیا کہ کیا وہ بغیر کسی سبب کے پیدا کر دیے گئے یا وہ خود ہی اپنے خالق ہیں‘ کیا آسمانوں اور زمینوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے‘ کیا تیرے رب کی رحمت کے خزانے ان کے قبضہ و قدرت میں ہیں یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر یہ بالائی کائنات کی باتوں کو سن لیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کوئی واضح دلیل تو پیش کریں۔
سورۃ النجم: اس سورہ کی ابتدائی 18 آیات میں سید المرسلین رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے سفرِ معراج کی اُس منزلِ رفعت کا ذکر ہے کہ جس میں آپﷺ کو اللہ تعالیٰ کا قُربِ خاص عطا ہوا اور اللہ نے اپنے مُقدّس بندے کی طرف جو چاہا‘ وحی فرمائی۔ رسول اللہﷺ اپنے قلبِ اطہر کی پوری حضوری اور یقین کے ساتھ اپنے خالق و مالک کے جلوؤں کو دیکھتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ریب و شک میں مبتلا لوگوں کو فرمایا کہ کیا تم ان سے اس پر جھگڑ رہے ہو کہ انہوں نے دیکھا‘ انہوں نے تو نورِ نزول کے اس جلوے کو بارِ دیگر دیکھا ہے‘ وہاں ''جنت المأویٰ‘‘ ہے اور آپﷺ اپنے خالق کے جلوۂ نور کو اس قرار و انہماک کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ آپ کی نظر نہ کج ہوئی نہ بہکی۔ آیت نمبر 32 سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ صغیرہ گناہوں کے ماسوا کبیرہ گناہوں سے بچے رہتے ہیں‘ انہیں بشارت دی گئی کہ بیشک آپ کا رب وسیع مغفرت والا ہے‘ اسی مفہوم کی ایک اور آیت میں فرمایا کہ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔
سورۃ القمر: اس سورت کے شروع میں فرمایا: ''قیامت قریب آ گئی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور (کافر) اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو رخ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو وہ جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے‘‘۔ ''شق القمر‘‘ کا واقعہ تقریباً آٹھ سنِ نبوی میں پیش آیا۔ اہلِ مکہ نے معجزے کا مطالبہ کیا تو آپ نے ان کو یہ معجزہ دکھایا یہاں تک کہ انہوں نے چاند کا ایک ٹکڑا حرا پہاڑ کے ایک جانب اور دوسرا دوسری جانب دیکھا۔ اس واقعے کی صداقت کی عقلی دلیل یہ ہے کہ قرآنِ مجید نے برملا اس کا دعویٰ کیا اور اس دور میں کسی نے بھی اس واقعے کی صداقت کو چیلنج نہیں کیا اور قرآن نے اسے علاماتِ قیامت میں سے قرار دیا۔
سورۃ الرحمن: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں فرمایا: ''رحمن نے اپنے رسولِ مکرم کو قرآن کی تعلیم دی‘ اس نے انسان (کامل) کو پیدا کیا اور ان کو (ہر چیز کے) بیان کی تعلیم دی‘‘۔ آیت 6 میں اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے غیر مرئی نظم و ضبط‘ زمین پر بچھے ہوئے سبزے اور درختوں کی کیفیتِ سجدہ اور آسمان کی رفعت کو اپنی قدرت کی دلیل کے طور پر پیش فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ میں اپنی قدرت کی بے پایاں نعمتوں کا بار بار ذکر فرمایا اور پھر اکتیس بار اپنی ذی عقل مخلوق‘ جنوں اور انسانوں سے خطاب کر کے فرمایا ''پس تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘۔ آیت 46 سے دو جنتوں کی نعمتوں کا بیان ہے کہ وہاں سرسبز شاخوں والے باغات ہوں گے‘ ان جنتوں میں دو چشمے بہہ رہے ہوں گے‘ ہر پھل کی دو قسمیں ہوں گی‘ اہلِ جنت ایسی مسندوں پر جلوہ افروز ہوں گے جن کے استر نفیس دبیز ریشم کے ہوں گے‘ وہاں یاقوت و مرجان کی طرح باحیا حوریں ہوں گی‘ پھر فرمایا کہ ان دونوں کے علاوہ دو جنتیں اور ہوں گی جن میں فوارے کی طرح چھلکتے ہوئے دو چشمے ہوں گے اور اسی طرح کی مزید نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ''احسان کا بدلہ احسان ہی ہے‘‘۔
سورۃ الواقعہ: اس سورہ مبارکہ میں انسانوں کے تین طبقات بیان کیے؛ ایک ''اصحاب المیمنہ‘‘ یعنی اہلِ سعادت و خیر‘ دوسرے ''السابقون المقربون‘‘، یہ وہ لوگ ہوں گے جو نیکی میں سب پر سبقت لے جائی گے اور تیسرے ''اصحاب المشئمہ‘‘ یہ بدنصیب لوگ اہلِ جہنم ہوں گے۔ اس کے بعد ایک بار پھر جنت کی پُرکشش نعمتوں کا ذکر ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بالمقابل تکیوں پر ٹیک لگائے‘ زر و جواہر سے مرصع تختوں پر بیٹھے ہوں گے‘ ان پر شرابِ طہور کے جام گردش کر رہے ہوں گے اور یہ ایسی شراب ہو گی کہ عقل پر اثر انداز نہیں ہو گی اور پُر کیف ہو گی۔ اس کے بعد ''اصحابِ یمین‘‘ کے لیے مزید نعمتوں کا ذکر ہے اور پھر ''اصحاب الشمال‘‘ (یعنی اللہ کے نافرمان لوگ) کیلئے عذاب کی مختلف صورتوں کا ذکر ہے‘ ان میں سے ایک یہ کہ ان کی خوراک ''زقوم‘‘ (تھوہر کے درخت) سے ہو گی‘ ( اس درخت کا پھل انتہائی کڑوا ہے)‘ اس سے وہ پیـٹ بھریں گے اور اس پر کھولتا ہوا پانی پئیں گے۔ آیت 77 سے قرآن عظیم کا ذکر ہے کہ یہ کتاب لوحِ محفوظ میں ہے اور اس کتاب کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔
سورۃ الحدید: اس سورۂ مبارکہ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر اپنی آیاتِ قدرت کا ذکر فرمایا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام کے مابین درجاتِ فضیلت میں مختلف مدارج بیان کیے ہیں۔ آیت 12میں فرمایا کہ میدانِ حشر میں مومنین اور مومنات کی امتیازی شان ہو گی اور ان کا نور ان کے سامنے اور ان کی دائیں جانب ضوفشاں ہو گا اور انہیں جنت کی بشارت دی جائے گی۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ ''منافق مرد اور عورتیں مومنوں سے کہیں گے: تم ہماری طرف دیکھو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کریں‘ ان سے کہا جائے گا: تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ پھر کوئی نور تلاش کرو‘ پھر ان کے درمیان ایک ایسی دیوار حائل کر دی جائے گی‘ جس میں دروازہ ہوگا‘ اس کے اندرونی حصے میں رحمت ہو گی اور باہر کی جانب عذاب ہو گا‘‘۔ آیت 25 میں فرمایا ''بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو قوی دلائل کے ساتھ بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان (عدل) کو نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں اور ہم نے لوہا نازل کیا‘ جس میں سخت قوت ہے اور انسانوں کے لیے فوائد‘‘۔ قرآنِ مجید کی اس آیت کی حقانیت کی قوی دلیل یہ ہے کہ آج دنیا بھرمیں سامانِ حرب کی تیاری اور دفاعی اور اقدامی جنگ کے لیے فولاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور تمام قدیم و جدید صنعتوں کی اساس یہی ہے۔