نفس کے معنی ہیں: ''ذات یا شخص، روح، تعقُّل، خیر و شر کے دواعی اور مُحرِّکات (Incentives) کا منبع اور ان رُجحانات کے قبول یا رَد کرنے کی صلاحیت یا ملکہ (Aptitude, Ability)‘‘۔ قرآنِ مجید نے اِسے مختلف مقامات پر عقل، فکر، قلب اور فُؤاد سے بھی تعبیر کیا ہے۔ رسول اللہﷺ اپنے خطبے میں ''شرورِ نفس اور فریبِ نفس‘‘ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے تھے اور آپﷺ کی اس طرح کی ساری دعائیں تعلیمِ امت کے لیے اور اللہ تعالیٰ کے حضور تواضع اور عَجز و انکسار کے لیے ہیں، ورنہ حدیث پاک میں ہے: ''تم میں سے ہر ایک پر ایک شیطان (ہم زاد) مسلّط کر دیا گیا ہے، صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اور آپ کے ساتھ بھی (ایسا ہی ہے)؟ آپﷺ نے فرمایا: میرے ساتھ بھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی، پس وہ اسلام لے آیا، سو (اب وہ) مجھے خیر کے سوا کوئی بات نہیں کہتا‘‘ (صحیح مسلم: 2814)۔ چنانچہ آپﷺ نے دعا کی: ''اے اللہ! مجھے تیری رحمت پر یقین ہے،سو مجھے پلک جھپکنے کی مقدار بھی میرے نفس کے سپرد نہ فرما‘‘ (ابودائود: 5090)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! فریبِ نفس، شُرورِ نفس اور ہوائے نفس سے میری حفاظت فرما اور ایک اور دعا میں آپﷺ نے فرمایا: ''پس اگر تو مجھے میرے نفس کے حوالے کر دے گا، تو مجھے شر سے قریب کر دے گا اور خیر سے دور کر دے گا اور مجھے تو تیری رحمت پر پختہ یقین ہے‘‘ (مسند احمد:3916)۔ آپﷺ نے یہ بھی دعا کی: ''اے اللہ! میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر اور اِسے (باطل کے میلانات سے) پاک فرما، کیونکہ تُو ہی نفس کو بہترین پاکیزگی عطا کرنے والا ہے، تُو اس کا ولی اور کارساز ہے، اے اللہ! میں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے قلب سے جس میں تیرے لیے عاجزی نہ ہو اور ایسے (حریص) نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو (کبھی) قبول نہ ہو، تیری عافیت کا طلبگار ہوں‘‘ (مسلم: 2722)۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ خیر و شر کی ایک کشمکش انسان کے وجود سے خارج میں اور ایک اُس کے نفس میں جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ حرص و ہوس، کینہ و بغض، حسد، ریا، بخل و زر پرستی اور دیگر تمام اخلاقی عوارض انسان کے نفس میں پرورش پا رہے ہوتے ہیں اور نفس کے یہی منفی اور باطل تقاضے انسان کی دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ نفس اگر شریعت کے تابع ہو گیا اور اُس نے خود سری سے نکل کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیا اور اُس کی رِضا کو اپنی چاہت پر غالب کر دیا بلکہ حاکم بنا دیا، تو انسان رشکِ ملائک بن جاتا ہے، ورنہ قرآنِ مجید کے کلماتِ طیبات شاہد ہیں کہ وہ اَسفل سافِلین میں جا گر تا ہے اور چوپایوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ایسی طویل ابتلا و آزمائش کے دور سے گزرے کہ ایک جواں عمر کا ان آزمائشوں سے سرخرو ہو کر نکلنا اللہ تعالیٰ کے فضل ہی سے ممکن ہو سکتا ہے؛ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ''اور میں اپنے نفس کی پارسائی کا دعویٰ نہیں کرتا، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے، سوائے اُس کے کہ جس پر میرا رب رحم فرمائے‘‘ (یوسف: 53)۔ سطورِ بالا میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا یہ شِعار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تواضع اور تعلیمِ اُمت کے لیے ہوتا ہے۔
شیطنت اور ابلیسیت کا شکار نفس اور خواہشِ نفس ہوتی ہے اور وہ نفس کے مُقتضیات اور مطالبات کو اتنا حد سے بڑھا دیتا ہے کہ عملاً وہ خدائی اختیارات سے کم پر راضی نہیں ہوتا، یعنی اُس کا مطالبہ ہوتا ہے کہ اُس کا ہر حکم مانا جائے خواہ وہ سراسر شر ہی ہو اور قرآنِ مجید نے نفس کی اس غیر مشروط اتباع کو ''اِلٰہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''پس کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا، جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے اُس کو علم کے باوجود گمراہ کر دیا اور اُس کے کان اور اُس کے دل پر مہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، پس اللہ کے بعد اُس کو کون ہدایت دے سکتا ہے، تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے‘‘ (الجاثیہ: 23)۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو محض علم ہدایت کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ اسی فریبِ نفس نے سامری کو اس بات پر آمادہ کیا کہ بچھڑے کو اپنی قوم کے سامنے معبود بنا کر پیش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(موسیٰ نے) کہا: اے سامری! تیرا معاملہ کیا ہے؟ سامری نے کہا: میں نے وہ چیز دیکھی جو اوروں نے نہیں دیکھی، سو میں نے (اللہ کے) رسول (جبریل) کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی بھر مٹی لی، پھر میں نے اُس کو (بچھڑے کے مجسمے میں) ڈالا، میرے نفس نے اسی طرح مجھے یہ بات سُجھائی تھی‘‘ (طٰہٰ: 95 تا 96)۔
اسی طرح قرآنِ کریم برادرانِ یوسف کی نفس پرستی کے واقعہ کو بیان فرماتا ہے: ''اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کر لائے، (یعقوب علیہ السلام نے) فرمایا: بلکہ تمہارے نفس نے ایک بات گھڑ لی ہے، سو صبر کرنا ہی بہتر ہے‘‘ (یوسف:18)۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ''بلکہ تمہارے دلوں نے ایک بات گھڑ لی ہے، تو اب صبر ہی بہتر ہے، عنقریب اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے گا‘‘ (یوسف: 83)۔ قرآن نے یہ بھی بتایا کہ یہ ہوائے نفس ہی ہے جو انسان کو عدل سے دور کرتی اور ظلم پر آمادہ کرتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے ہو جائو، اللہ کے لیے گواہی دینے والے (بن جائو)، خواہ (یہ گواہی) تمہاری اپنی ذات کے خلاف ہو یا تمہارے والدین اور تمہارے قرابت داروں کے خلاف ہو، (فریقِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے، پس تم عدل سے انحراف کے لیے خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو اور اگر تم نے (سچی گواہی دینے سے) ہیر پھیر کیا یا اعراض کیا، تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے‘‘ (النساء:135)۔ آج ہم بحیثیتِ قوم انفرادی اور اجتماعی طور پر فریبِ نفس، شُرورِ نفس اور ہوائے نفس کی اِسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں اور اس کے غلبے نے ہمارے دل و دماغ پر مہر لگا دی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جھوٹ بھی سچ اور دوسرے کا سچ بھی جھوٹ نظر آتا ہے۔ الغرض حق و صداقت، دیانت و امانت، صدق و کذب اور عدل کے حوالے سے ہمارے دعوے اکثر حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے، بلکہ ہمارے سیاسی فتوے اور تبصرے بھی اشخاص کے حوالے سے بدلتے رہتے ہیں، کیونکہ ہمارے قلوب و اذہان خوفِ خدا سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔
نفس کا اتباع ہی انسان کو بڑے بڑے جرائم پر ابھارتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''سو اُس کے نفس نے اُسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر لیا، پس اُس نے اُسے قتل کر دیا، پھر وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گیا‘‘ (المائدہ:30)‘‘۔ اس کے برعکس اطاعت گزار نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم بشارت ہے۔ فرمایا: ''سو جو اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور سے لرز گیا اور اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی سے روکے رکھا تو اُس کے لیے جنت المأویٰ (آخری آرام گاہ) ہے‘‘ (النازعات: 40)۔ اور فرمایا: ''اور جو (قیامت کے دن) اپنے رب کے حضور جواب دہی کے تصور سے لرز گیا، تو اُس کے لیے (آخرت میں) دو جنتیں ہیں‘‘ (الرحمن: 46)۔
پس بندگی کی معراج یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو شریعت کے تابع بنائے۔ اُسے صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے آمادہ کرے اور اُسے اُس کے مطالبات و مطلوبات سے بچا کر اللہ تعالیٰ کی حقیقی بندگی کی طرف لائے۔ آپﷺ کا فرمان ہے: ''دانا وہ ہے، جو اپنے نفس کو (شریعت کا) اطاعت گزار بنا لے اور آخرت (کی فلاح) کے لیے کام کرے اور عاجز وہ ہے کہ جو (اللہ کی اطاعت کو چھوڑ کر) خواہشاتِ نفس کا پیروکار بن جائے اور (توبہ و استغفار اور اصلاحِ نفس کے بغیر) اللہ تعالیٰ سے (عفو و مغفرت کی) آرزوئیں باندھتا پھرے‘‘ (سنن ترمذی: 2459)۔ اس حدیث کی شرح میں محقق بشار عواد معروف لکھتے ہیں: ''امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھے ہوئے (دورانِ خطبہ) ارشاد فرمایا کرتے تھے: ''اے مومنو! قبل اس کے کہ (اللہ کی عدالت میں) تمہارا حساب کتاب شروع ہو، خود ہی اپنا محاسبہ کر لو اور بڑے امتحان کے دن کی تیاری کر لو۔ قیامت کے دن صرف اُس کا حساب کتاب آسان ہو گا، جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا‘‘۔ میمون بن مہران نے کہا: ''مومن کے پارسا ہونے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنا محاسبہ بھی اُسی طرح (بے دردی سے) کرے، جس طرح اپنے فریقِ (مخالف) کا کرتا ہے (اور سوال اٹھاتا ہے) کہ اُس کے لباس و طعام (اور رہن سہن) کا ذریعہ کیا ہے؟‘‘۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''پہلوان وہ نہیں ہے جو اَکھاڑے میں اپنے مقابل کو پچھاڑ دے، بلکہ حقیقی پہلوان وہ ہے جو غضب کے وقت اپنے نفس پر قابو پائے‘‘ (بخاری: 6114)۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''جو اللہ کے لیے ایک درجہ تواضع کرے گا، اللہ تعالیٰ (انعام کے طور پر) اُسے ایک درجہ رفعت عطا فرمائے گا، یہاں تک کہ اسے (بتدریج ) (اعلیٰ) عِلِّیِیْن میں مقام عطا فرمائے گا اور جو اللہ پر ایک درجہ تکبر کرے گا، اللہ تعالیٰ (سزا کے طور پر) اُسے ایک درجہ گرا دے گا، یہاں تک کہ (بتدریج) وہ اَسفَلِ سَافِلِین میں پہنچ جائے گا‘‘ (مسند احمد: 11724)۔ تواضع اور خُشوع کے معنی ہیں: '' اللہ تعالیٰ کے حضور عَجز و نیاز اور انکسار‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے حضور عَجز و انکسار ایک تو نماز کے وقت ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے: ''وہ مومن فلاح پا گئے، جو اپنی نماز میں خشوع (عاجزی) کرتے ہیں‘‘ (المومنون: 1 تا 2)۔ اللہ کی رضا کے لیے بندوں کے سامنے متواضع بن کر رہنا بھی ایک اعلیٰ اَخلاقی قدر ہے؛ البتہ کسی صاحبِ اقتدار و اختیار کے سامنے نفسانی اغراض کے لیے اپنے نفس کو ذلّت سے دوچار کرنا مذموم فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور نفس اور اس کو درست بنانے والے کی قسم، پھر اسے اس کی بدکاری اور اس کی پارسائی اسے الہام فرمائی، سو جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کر لیا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے اپنے گناہوں سے (اسے) آلودہ کر دیا، وہ ناکام ہو گیا‘‘ (الشمس: 7- تا 10)، نیز فرمایا: ''کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں اور زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دونوں راستے دکھا دیے‘‘ (البلد: 7 تا 10)۔