ایک سائل نے دریافت کیا ہے: ''فکر کے معنی کیا ہیں اور قرآن و حدیث میں یہ کن معانی اور مفاہیم میں استعمال ہوا ہے، نیز قرآنِ کریم میں جا بجاغور و فکر اور تعقّل و تدبّر کی دعوت دی گئی ہے، کیا یہ سب کلمات ہم معنی ہیں، قرآن کریم میں ہے: ''کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں‘‘ (محمد: 24)۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سمع و بصر اور عقل و خِرد کی صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔اگر انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان صلاحیتوں کو کام میں نہ لائے تو اُن کا ہونا نہ ہونا برابر ہوجاتا ہے؛ چنانچہ فرمایا: ''اور بے شک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے ایسے جِناّت اور انسان پیدا کیے، اُن کے دل ایسے ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں (مگر) وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں (مگر) وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں‘‘ (الاعراف: 179)۔ قرآنِ کریم میں ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت قائم ہونے تک کے حالات کو بیان کیا ہے، فلکیات، بحریات، ارضیات، تخلیقِ انسان الغرض سب شعبوں کا بیان ہے، لیکن سائنسی موضوع کے طور پر نہیں، بلکہ ذریعۂ ہدایت، وجودِ باری تعالیٰ اور آخرت پر ایمان و ایقان کے لیے ان قطعی حقائق کو بیان کیا گیا ہے۔
فکر کی منطقی تعریف یہ ہے: ''معلوم امور یعنی مقدمات کو اس طرح ترتیب دینا کہ اُن سے نامعلوم چیز معلوم ہو جائے یا دل و دماغ میں امور کے بارے میں تدبر و تفکّر کرنا‘‘ (التعریف الفقھیۃ، ج: 1، ص: 167)، یہی تعریف علامہ میر سید شریف جرجانی نے اپنی کتاب ''التعریفات‘‘ (ص: 168) میں کی ہے۔ ''مجمع اللغۃ العربیہ، قاہرہ‘‘ میں ہے: ''فکر کی جمع افکار ہے، فکر کے معنی ہیں: عقل کو معلومات میں اس طرح استعمال کرنا کہ نامعلوم کی معرفت حاصل ہو جائے اور کہا جاتا ہے: اس مسئلے میں میری ایک فکر اور رائے ہے یا کہا جاتا ہے: اس مسئلے میں میری کوئی فکر ہے، نہ مجھے اس کی حاجت ہے اور نہ مجھے اس کی پروا ہے‘‘ (معجم الوسیط: ج: 2، ص: 688)۔
تدبیر و تفکّر کے ایک معنی ہیں: ''کسی معاملے میں داخل ہونے سے پہلے اُس کے انجام، عواقب و نتائج اور حُسن و قبح پر غورکرنا‘‘، اسے ''مَالَہٗ وَمَا عَلَیْھَا‘‘ بھی کہتے ہیں، یعنی ممکنہ طور پر اُس کے مثبت و منفی نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ تدبر و تفکر کے حامل شخص کو دور اندیش اور عاقبت اندیش کہتے ہیں، جو کسی معاملے میں داخل ہونے سے پہلے اُس کے انجام پر غور کرتا ہے تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔ خوارج کا ایک سردار عبداللہ بن وہب کہا کرتا تھا: ''کسی رائے پر عمل کرنے سے پہلے شب بھر اس کے نتائج پر غورکر لیا کرو، ہم ایسی رائے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جو وقت گزرنے کے بعد سُوجھے‘‘۔ فارسی کا مقولہ ہے: ''وہ مُکّا جو جنگ کے بعد یاد آئے، اُسے اپنے ہی منہ پر مار دینا چاہیے‘‘۔
سیاست کار کو Politician اور مدبّر کو Statesman کہتے ہیں، ہر مدبّر سیاستدان ہو سکتا ہے، لیکن ہر سیاستدان مدبّر نہیں ہوتا۔ مدبّر وہی ہے جو ''عِلْمُ السِّیَاسَۃ‘‘ کے اَسرار و رموز کو جانتا ہو، یہ وسعتِ نظر خداداد بھی ہوتی ہے اور عمیق نظر، مشاہدے اور مطالعے سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ اردو لغت بورڈ کی ڈکشنری میں ہے: فکر استدلالی: ''وہ ذہنی عمل جو دلائل کی روشنی میں مقدمات سے نتائج اخذ کرے، فکرِ استدلالی تخلیقی ہوتا ہے، فکر کی یہ تعریف فکر کی منطقی تعریف کے مترادف ہے اور اسے انہوں نے ''فکرِ استدلالی تخلیقی‘‘ قرار دیا ہے‘‘ (اردو لغت بورڈ، ج: 13، ص: 989)۔ دائرۂ معارفِ اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب میں تصوف کی اصطلاح کے طور پر فکر کو ذکر کے مقابلے میں لیا ہے اور لکھا ہے: ''اربابِ تصوف عام طور پر فکر کے مقابلے میں ذکر استعمال کرتے ہیں، اس لحاظ سے فکر کا ترجمہ تصور یا مراقبہ بھی ہو سکتا ہے، فکر میں مشغول صوفی جب کسی حالت میں مستغرق ہوتا ہے تو وہ (دراصل) بعض افکار کے اتار چڑھائو یا اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں غور و فکر کرتا ہے‘‘ (ج: 15، ص: 450)، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے تصور میں مستغرق رہنے کو فکر سے تعبیر کیا ہے۔
قرآنِ کریم میں جا بجا تفکّر اور تعقّل کے کلمات استعمال ہوئے ہیں۔ قرآنِ کریم غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، کائنات کے اندر جو نظم وضبط اور ربط ہے اور اس کے تکوینی نظام میں اسباب اور مُسَبَّبات کا جو تانا بانا ہے، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کے نظام کو چلانے والے قادرِ مطلق کی ذات حکیم، علیم اور بصیر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (1) ''درحقیقت آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور گردشِ لیل و نہار میں ضرور عقل مندوں کے لیے عظیم نشانیاں ہیں، (یہ وہ لوگ ہیں) جو اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے (ہرحال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خِلقت پر غور و فکرکرتے ہیں، (پھر بے اختیار پکار اٹھتے ہیں:) اے ہمارے رب! تو نے اس کارخانۂ قدرت کو بے مقصد پیدا نہیں کیا، تیری ذات اس سے پاک ہے (کہ تیرا کوئی کام حکمت سے خالی ہو)، پس ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا‘‘ (آل عمران: 190 تا 191)، (2) ''سورج اور چاند ایک حساب کے مطابق (چل رہے ہیں)‘‘ (الرحمن: 5)، (3) ''اور سورج اپنے مقرر شدہ راستے پر رواں دواں ہے، یہ بہت غالب، بے حد علم والے کا بنایا ہوا نظام ہے اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں حتیٰ کہ (مہینے کے آخر میں) وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے، سورج کی مجال نہیں کہ وہ (چلتے چلتے) چاند سے جا ٹکرائے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے اور سب (سیارے) اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں‘‘ (یٰس: 38 تا 40)۔
فکر کے معنی میں عقل و نظر بھی بولا جاتا ہے۔ یہ نعمت انسان کو حاصل ہے، دیگر حیوانات کو نہیں، یہ اسی کی بابت بولا جاتا ہے جس کے دل و دماغ میں کسی چیز کی صورت متصور ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ایک روایت میں ہے: اللہ کی نعمتوں میں غور و فکرکرو اور اللہ کی ذات میں غور و فکر نہ کرو، کیونکہ اللہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی صورت دل و دماغ میں متصور ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''ہم عنقریب ان کو اطرافِ عالَم اور خود ان کی اپنی ذات میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے حتیٰ کہ ان پر منکشف ہو جائے گا کہ یہ قرآن حق ہے‘‘ (حم السجدہ: 53)۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان بجائے خود اللہ کی قدرت کا ایک بہت بڑا شاہکار ہے۔ اگر انسان اپنی ذات میں مستور اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو سمجھ لے توخالق پر ایمان لانے کے لیے یہی کافی و شافی ہے۔
مشرک جن باطل معبودوں کو اپنے خیر و شر کا مالک سمجھتے تھے، ان کی بے بسی کو اللہ تعالیٰ نے مثالوں سے بیان کیا ہے: ''بے شک تم اللہ کو چھوڑ کر جن (بتوں) کی عبادت کرتے ہو، وہ سب مل کر ہرگز ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے اور اگر مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے، طالب اور مطلوب دونوں کمزور ہیں‘‘ (الحج: 73)۔ مفسرین نے ''طالب‘‘ سے بُت اور ''مطلوب‘‘ سے مکھی مراد لی ہے اور بعض نے بُت اور اُن کے پیروکار مراد لیے ہیں۔ اسی طرح قرآنِ کریم میں مشرکوں کے باطل عقائد کے بودے پن کو مکڑی کے جالے سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا: ''جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور مدد گار بنا لیے، اُن کی مثال مکڑی کی طرح ہے جس نے (جالے کا) گھر بنایا اور بے شک سب سے کمزور گھر ضرور مکڑی کا ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔ بے شک یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہیں، اللہ ان کو خوب جانتا ہے اور وہ بہت غالب، بڑی حکمت والا ہے۔ اور ہم لوگوں کے لیے ان مثالوں کو بیان فرماتے ہیں اور انہیں صرف اہلِ علم ہی سمجھتے ہیں‘‘ (العنکبوت: 41 تا 43)۔
ماہرینِ آثارِ قدیمہ گزشتہ امتوں کے آثار اور کھنڈرات کا مطالعہ کرتے ہیں، ان پر تحقیق کرکے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں: ان کا رہن سہن، طرزِ معاشرت، اُس عہد کے رائج الوقت سکے، طرزِ تحریر اور نظمِ اجتماعی وغیرہ کیسے تھے۔ لیکن قرآنِ کریم ماضی کی امتوں اور اقوام کے عروج و زوال کے واقعات اس لیے بیان کرتا ہے کہ لوگ غور و فکر کریں: ان قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کیا تھے کن اسباب کی بنا پر ان کی بستیوں کو تہہ و بالا کر دیا گیا اور وہ نیست ونابود کر دیے گئے، پس اُن کے آثارکو نشانِ عبرت کے طور پر دیکھنا چاہیے، جن اسباب کی بنا پر وہ زوال سے دوچار ہوئے ان پر غور و فکر کرکے اُن سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر ان کے بعض پہلو قابلِ تحسین تھے تو انہیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''آسمانوں اور زمینوں میں (اللہ کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں، جن کے پاس سے یہ منہ موڑ کر گزر جاتے ہیں‘‘ (یوسف: 105)۔ الغرض قرآنِ کریم امتوں کے عروج و زوال کے اسباب پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّمﷺ کے تشریعی قوانین کی روشنی میں بحث کرتا ہے کہ لوگ یہ جانیں کہ یہ قومیں اپنی کن نافرمانیوں اور سرکشی کے سبب بدترین انجامِ سے دوچار ہوئے؛ چنانچہ فرمایا: ''کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے: اُن سے پہلی قوموں کا انجام کیسا ہوا، جو اِن سے زیادہ طاقتور تھے اور انہوں نے ہل چلا کر زمین کو الٹ پلٹ کیا اور اِن سے بڑھ چڑھ کر اسے آباد کیا اور ان کے رسول اُن کے پاس روشن معجزات لے کر آئے، پس اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے‘‘ (الروم: 9)۔
حکیم بوعلی سینا نے کہا ہے: ''ہر وہ بات جو ذکر سے خالی ہو، لغو ہے، ہر خاموشی جو فکر سے خالی ہو، سَہو (بھول) ہے اور ہر نظر جو عبرت سے خالی ہو، لَہو (غفلت) ہے‘‘۔ کبھی تکوینی آیات سے دنیا کی ناپائیداری کو مثال سے بیان کیا گیا ہے: ''دنیاکی زندگی کی (ناپائیداری) کی مثال محض اس بارش کی طرح ہے جس کو ہم نے آسمان سے نازل کیا تو اس کی وجہ سے زمین کی پیداوار خوب گھنی ہو گئی، جس کو انسان اور جانور سب کھاتے ہیں حتیٰ کہ عین اس وقت جب زمین کی سج دھج قائم ہو گئی اور وہ پوری طرح سر سبز و شاداب ہو گئی اور اس کے مالکوں نے سمجھا کہ یہ مکمل طور پر اُن کے قابو میں ہے کہ اچانک رات یا دن کو کسی وقت اُس پر ہمارا عذاب نازل ہوا اور ہم نے اسے جڑ سے کٹی ہوئی فصل کی مانند ایسا کر دیا جیسے کل یہاں کچھ تھا ہی نہیں، ہم غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لیے اسی طرح تفصیل کے ساتھ اپنی نشانیاں بیان کرتے ہیں‘‘ (یونس: 24)۔