اِفتاء کا میدان فقہ کی نسبت وسیع تر ہے۔ لغت میں اس کا معنی ہے: ''کسی سوال کا جواب دینا، خواہ وہ شریعت سے متعلق ہو یا نہ ہو، جیسا کہ قرآنِ مجید میں بادشاہِ مصر کی یہ بات نقل کی گئی: ''اے میرے درباریو! اگر تم خواب کی تعبیر بیان کر سکتے ہو تو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتائو‘‘ (یوسف: 43)۔ اِسی طرح ملکہ سبا کی بات نقل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: '' بولی: اے میرے درباریو! مجھے درپیش معاملے (یعنی سلیمان علیہ السلام کے مکتوب کے بارے) میں رائے دو‘‘ (النمل: 32)۔ ان دونوں آیات میں افتاء کا لفظ ایسے سوال کا جواب دینے کے لیے استعمال ہوا ہے جو احکام سے متعلق نہیں ہے، لیکن پھر یہ لفظ شریعت سے متعلق سوال کا جواب کے دینے کے ساتھ خاص ہو گیا۔ قرآن مجید اور متعدد احادیث میں یہ لفظ اِس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے: ''(اے رسولِ مکرّم!) یہ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ فرما دیں! اللہ تمہیں اُن کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے‘‘ (النسآء: 127)۔ احادیث میں ہے: (1) نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''تم میں فتویٰ دینے میں سب سے زیادہ جری (یعنی علم کے بغیر دین کے مسائل بتانے والا) آگ میں داخل ہونے میں زیادہ جری ہے‘‘ (سنن دارمی)، (2) ''حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ تعالیٰ علم کو (اس طرح) نہیں اٹھائے گا کہ علم کو بندوں (کے سینوں) سے نکال لے، لیکن علمائِ (حق) کے اٹھائے جانے سے علم کو اٹھا لے گا حتیٰ کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مذہبی پیشوا بنا لیں گے، پھر اُن سے (دین کے بارے میں) سوال کیا جائے گا تو وہ (اپنی جہالت کا اعتراف کیے بغیر) جہالت پر مبنی فتوے دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘ (صحیح بخاری: 100)، یعنی دینی پیشوائی کے منصب پر فائز جاہلوں کا غرورِ نفس اُنہیں اپنی جہالت کے اعتراف کی اجازت نہیں دے گا اور وہ جہالت پر مبنی فتوے دیں گے اور یوں دین میں تباہی اور بربادی کا راستہ کھل جائے گا، اس کے مظاہر ہمیں آج بھی جابجا نظر آتے ہیں۔
پس زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق پیش آمدہ مسائل میں دینی رہنمائی کا نام فتویٰ ہے اور مفتی صرف شریعت کے عملی احکام کا ہی جواب نہیں دیتا، بلکہ بسا اوقات دین کے اعتقادی مسائل کا بھی جواب دیتا ہے۔ حدیث کے معنی و مفہوم یا حدیث کی اسنادی حیثیت فرقوں اور ملّتوں، تاریخ و سیرت، تصوف و سلوک، اخلاق و آداب، عبادات و معاملات، معاشرت و سیاسیات وغیرہ کے وہ مسائل جو دین اور دینی علوم سے متعلق ہیں، ان کے بھی جواب دیتا ہے۔
پہلی صدی ہجری سے لے کر عصرِ حاضر تک فقہائے کرام کا ایک طویل سلسلہ ہے، بعض فقہائے کرام نے کتبِ فقہ مدوّن کیں اور بعض نے کتبِ فتاویٰ مرتب فرمائیں۔ خالص فتاویٰ کے تحریر ی مواد کی تاریخ بھی عہدِ صحابہ ہی سے شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ مفتیٰ بہٖ مسائل اور کثیر جزئیات پر مشتمل لکھی جانے والی کتابوں میں بلادِ شام میں لکھی جانے والی ردّالمحتار عَلی الدُّرِّ المختار اور غیرمنقسم ہندوستان میں فتاویٰ عالمگیری اس فن کی اہم ترین کتابوں میں سے ہیں۔ چودھویں صدی میں اس حوالے سے جو کتب منظر عام آئیں، اُن میں امام احمد رضا قادری قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز کی '' فتاویٰ رضویہ‘‘ فقہِ حنفی کا انمول خزانہ ہے جو اپنی تحقیق اور وسعتِ معلومات کے لحاظ سے فقہ حنفی کے اُصول و فروع کا بیش بہا ذخیرہ ہے، یہ فقہ حنفی کے مطابق جاری کردہ ہزاروں فتاویٰ کا مجموعہ ہے، اس علمی ذخیرہ کو فقہ حنفی کا انسائیکلو پیڈیا کہا جاتا ہے، اس کا پورا نام ''العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘ ہے۔ جدید ترتیب کے حساب سے اس کی تینتیس مجلدات ہیں اور یہ غالباً اردو زبان میں دنیا کا ضخیم ترین مجموعۂ فتاویٰ ہے جو تقریباً بائیس ہزار صفحات پر محیط ہے، یہ چھ ہزار آٹھ سو سینتالیس سوالات کے جوابات اور دو سو چھ رسائل پر مشتمل ہے، جبکہ ہزار ہا مسائل ضمناً زیر بحث آئے ہیں، ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قرآن و حدیث، فقہ و اصول فقہ، منطق و کلام کے علاوہ اس میں ریاضی، ارضیات، فلکیات، جفر وغیرہ سمیت تقریباً ساٹھ علوم سے بحث کی گئی ہے، اس سے آپ کے تبحّرِ علمی اور وسعت نظری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
''فتاویٰ رضویہ‘‘ کے بعد ''فتاویٰ نوریہ‘‘ کتبِ فتاویٰ کی انقلاب آفریں کتابوں میں سے ایک اہم کتاب ہے۔ یہ فقیہ اعظم مفتی ابوالخیر محمد نور اللہ نعیمی بصیر پوری (1914ء تا 1983ء) کے جاری کردہ فتاویٰ کا مجموعہ ہے اور محققین، مدرسین اور افتاء کی ذمہ داریوں سے وابستہ اہلِ علم کے لیے رہنما اور دینی طلبہ کے لیے فقہی معلومات کا خزینہ ہے، نیز عوام کے لیے دینی معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ مفتی محمد نور اللہ کی فتویٰ نویسی کی تاریخ پچاس سال کے طویل عرصے پر محیط ہے، آپ کے بہت سے فتاویٰ ضائع ہو چکے اور جو محفوظ رہ سکے، ان میں تقریباً 6855 فتاویٰ ہیں جو ''فتاویٰ نوریہ‘‘ کی چھ جلدوں میں محفوظ ہیں، ان میں سے قدیم ترین فتویٰ پانچ جنوری 1942ء کا ہے۔ یہ مجموعہ مفتی نور اللہ نعیمی کے صاحبزادوں علامہ محمد نصر اللہ اور علامہ محمد محب اللہ نوری کی ترتیب و تدوین کے بعد شائع ہوا ہے۔ حضرت فقیہ اعظم تفقہ فی الدین اور فتویٰ نویسی میں غیر معمولی مہارت و صلاحیت رکھتے تھے، آپ کے فتاویٰ کی امتیازی پہچان آپ کی وسعتِ علمی، عمیق مشاہدہ، قوتِ استدلال و استنباط، مسائلِ حاضرہ پر دوررس نگاہ، جدتِ فکر، جزئیاتِ فقہ کا استحضار اور کتبِ فقہ پر گہری نظرہے۔ ایک فقیہ و مفتی کے لیے علمی وسعت، ایمانی فراست، دیانت و امانت اور تزکیہ نفس ازحد ضروری ہے اور یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتمّ آپ میں پائی جاتی تھیں، آپ کی فقاہت اورعلمی تبحّر، اصابتِ رائے اور فقہی بصیرت کا فتاویٰ نوریہ سے اندازہ لگانا مشکل نہیں، یہ دلائل نقلیہ و عقلیہ، فنونِ قدیمہ و جدیدہ اور تجربات و مشاہدات کی روشنی میں نادر تحقیقات کا مجموعہ ہے۔
ہمارے اُستاذِ گرامی جسٹس ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری رحمہ اللہ آپ کی اجتہادی بصیرت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''حضرت کا علم و حلم، ورع و تقویٰ، فقاہت و اجتہاد مسلّمہ اُمور ہیں، لیکن جس امر نے مجھے فکری اعتبار سے ہمیشہ ان کے قریب رکھا، وہ حالاتِ حاضرہ کے جدید تقاضوں کا گہرا شعور اور عصری مسائل کا مجتہدانہ حل پیش کرنے کی اعلیٰ ترین صلاحیت کا ان میں موجود ہونا ہے۔ ایک مرتبہ پچیس سے زائد مسائل پر مشتمل ایک سوال نامہ فقیر نے پاکستان کے اکابر علما کی خدمت میں ارسال کیا، جس میں انتقالِ خون، اعضا کی پیوند کاری، ٹیسٹ ٹیوب بے بی وغیرہ ایسے جدید مسائل کے بارے میں رائے طلب کی گئی تھی، حضرت مفتی صاحب ان چند بزرگوں میں سے تھے، جنہوں نے جواب سے نوازا، بلکہ صحیح یہ ہے کہ پوری دلچسپی سے معقول و مدلل جوابات صرف آپ ہی کے تھے‘‘ (حیاتِ فقیہ اعظم، ص: 143)۔
آپ نے اپنے زمانے کے جن اہم ترین مسائل پر تحقیقات فرمائیں، اُن میں: نماز میں لائوڈ سپیکر کا استعمال،چلتی ٹرین اور ہوائی جہاز میں فرضی و نفلی نمازوں کا مسئلہ، بلغاریہ اور ڈنمارک وغیرہ ایسے مقامات میں کہ جہاں بعض اوقات صرف ڈیڑھ دو گھنٹے کی رات ہوتی ہے، نماز اور روزوں کا حکم، اقامت میں شروع میں کھڑا ہونا، اختلافِ مطالع، جاں بلب مریض کے لیے انتقالِ خون، روزے کی حالت میں انجکشن لگانا، چین والی گھڑی پہن کر نماز پڑھنا، کتابت و تعلیمِ نسواں، حج کے لیے تصویر کا جواز، حربی کافر کے مال میں تحققِ ربوا اور دو متحد الجسم عورتوں کے نکاح وغیر ہ مسائل کا حل فقیہانہ بصیرت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ آپ نے اپنے فتاویٰ میں اُمتِ مسلمہ کے لیے دین میں آسانی اور سہولت کے پہلوئوں کو نمایاں کیا۔ آپ نے معاصرین و متقدمین کے بعض فتاویٰ کا دلائل کے ساتھ محاکمہ بھی کیا اور فتاویٰ کے ذریعے اصلاح و تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔
عہدِ حاضر کے مایہ ناز مفسر و محدث علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ''فتاویٰ نوریہ سے پہلی بار میں اس وقت متعارف ہوا، جب محترم عابد نظامی نے مجھے اس کی پہلی جلد تبصرہ کرنے کے لیے دی، یہ تبصرہ تو میں بعض وجوہ کی بنا پر نہ لکھ سکا، لیکن یہ جِلد میرے زیرِ مطالعہ رہی، مجھ سے بعض اکابر علما نے کہا: '' اس پر تبصرہ نہ لکھیں، کیونکہ بعض مسائل میں حضرت مصنف رحمہ اللہ نے جمہور علماء سے اختلاف کیا ہے‘‘ مجھے عابد نظامی کا یہ جملہ آج بھی یاد ہے: ''حضرت فقیہِ اعظم نے جو لکھا ہے، سو سال بعد تمام علماء کا اِسی پر اتفاق ہو گا‘‘۔ فتاویٰ نوریہ سے میری دلچسپی کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ مجھے زمانہ طالب علمی سے یہ بتایا گیا تھا کہ ہمارے نزدیک چلتی ٹرین کے سفر میں نماز جائز نہیں ہے، میرا ہر سال لاہور سے کراچی ٹرین میں سفر ہوتا تھا، میں لوگوں کو ٹرین میں نماز پڑھتے دیکھتا اور اس بات پر کڑھتا کہ میں چلتی ٹرین میں نماز نہیں پڑھ سکتا اور یہ دنیادار لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور اللہ کے مقرر کیے ہوئے فرض کو بجا لا رہے ہیں، تاآنکہ میں نے پہلی بار فتاویٰ نوریہ میں اس مسئلے پر سیر حاصل بحث پڑھی اور بے اختیار حضرت فقیہِ اعظم کے لیے دل سے دعائیں نکلیں۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا اور شرح صدر کے ساتھ چلتی ٹرین میں نمازیں پڑھیں اور فرضِ عین کو قصداً ترک کرنے کے گناہ اور وبال سے بچا، جو مسلمان فرض نماز کو ادا کرنے کی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں اور فرائض کی قدر و قیمت سمجھتے ہیں اور قصداً نماز ترک کرنے کے گناہ سے ڈرتے ہیں، وہ یقیناحضرت فقیہ اعظم کی مجتہدانہ بصیرت اور علمی خدمت کی اہمیت کو سمجھتے ہوں گے اور اس فتوے کے شائع ہونے کے بعد جتنے مسلمانوں نے چلتی ریل میں نمازیں پڑھی ہوں گی، ان سب کی نماز وںکا اجر و ثواب حضرت فقیہِ اعظم کے قرطاسِ عمل کی زینت بنے گا۔ اس کے بعد میں دورہ حدیث کی تعلیم میں ہمیشہ طلبہ کو حضرت فقیہِ اعظم کے دلائل کی روشنی میں ٹرین میں نماز پڑھنے کی تلقین اور تبلیغ کرتا رہا اور جب اللہ تعالیٰ نے مجھے شرح صحیح مسلم لکھنے کی توفیق عطافرمائی تو میں نے اس مسئلے پر بہت زیادہ غور وخوض کیا، مزید حوالہ جات تلاش کیے اور اس مسئلے کو قرآنِ مجید، احادیثِ صحیحہ اور عباراتِ فقہاء کی روشنی میں لکھا اور مانعین کے تمام شکوک و شبہات کے تفصیلی اور مسکت جوابات لکھے، لیکن مجھے اس حقیقت کا اعتراف بلکہ اظہار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ اس مسئلے میں رہنمائی اور روشنی مجھے فتاویٰ نوریہ سے ہی ملی ہے‘‘۔ (جاری)