کعبہ معظمہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اس میں واضح نشانیاں (اور) مقامِ ابراہیم ہے‘‘ (آلِ عمران: 97)، یعنی اس میں قدرتِ خداوندی کی بہت سی نشانیاں ہیں کہ جنہیں سب لوگ دیکھ سکتے ہیں، اُن میں سے ایک نشانی مقامِ ابراہیم ہے، یہ تقریباً پچاس سینٹی میٹر لمبا چوڑا اور اتنا ہی اُونچا ایک پتھر ہے جو حجرِ اسود کی طرح جنت سے اُتارا گیا ہے؛ چنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''بیشک رکنِ (اسود) اور مقامِ ابراہیم دونوں جنت کے یاقوتوں میں سے ایک یاقوت ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے نور کو مٹا دیا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے نور کو نہ مٹاتا تو یہ مشرق و مغرب کو روشن کر دیتے‘‘ (جامع ترمذی: 887)۔ یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابرہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کو تعمیر فرمایا تھا۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہما السلام) دونوں بیت اللہ کی تعمیر میں مصروف ہو گئے، حضرت اسماعیل اپنے والد کو پتھر اٹھا کر دیتے تھے اور حضرت ابرہیم اُنہیں جوڑکر دیواریں کھڑی کرتے تھے، پھر جب کعبہ کی دیواریں اُونچی ہو گئیں (اور حضرت ابراہیم کے لیے اپنے قد سے اُوپر تک پتھروں کو پہنچانا دشوار ہو گیا) تو حضرت اسماعیل یہ پتھرلے آئے اور حضرت ابراہیم نے اِس پر کھڑے ہوکر بیت اللہ کی تعمیر فرمائی‘‘ (صحیح بخاری: 3364)۔
حافظ ابن کثیر و دیگر سیرت نگاروں نے ذکر کیا ہے: اس پتھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدمین طیبین کے نشانات ظاہر تھے، عرب میں جاہلیت سے آج تک یہ بات معروف و مشہورہے، صحابہ کرام نے بھی ان نشانات کو دیکھا ہے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: ''میں نے مقام ابراہیم میں حضرت ابراہیم کی اُنگلیوں اور اِیڑیوں کے نشانات دیکھے ہیں، حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اِس کے قریب نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، اس پر (حصولِ برکت کے لیے) ہاتھوں کو پھیرنے کا حکم نہیں دیا، مگر اِس اُمت نے بھی وہ کام شروع کیے جو پچھلی اُمتیں کرتی آئی ہیں، ہمیں دیکھنے والوں نے بتایا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم کی اُنگلیوں اوراِیڑیوں کے نشانات موجود تھے، لوگ اس پر ہاتھ پھیرتے رہے حتیٰ کہ وہ نشانات مٹ گئے‘‘ (تفسیر ابن کثیر، ج: 1، ص: 293)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے یہ پتھر بیت اللہ کی دیوار کے ساتھ متصل تھا، پھر فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمﷺ کے حکم سے اِسے پیچھے کرکے موجودہ مقام پر رکھ دیا گیا، یہ کعبہ سے تقریباً بیس گز کے فاصلے پر ہے، کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ طواف کرنے والوں کے ہجوم کے سبب لوگ یہاں نماز پڑھنے کو ترک کر دیں، سو نبی کریمﷺ نے لوگوں کی سہولت کے لیے اِسے پیچھے کر دیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں خطرناک سیلاب آیا اور اِس پتھر کو بہا کر مسجد سے باہر لے گیا، پھر حضرت عمرؓ نے اِسے اُسی جگہ پر رکھنے کا حکم دیا، جہاں رسول اللہﷺ نے اِسے رکھا تھا‘‘ (شِفَائُ الْغَرَام بِاَخْبَارِ بَلَدِ الْحَرَام، ج: 1، ص: 278)۔
نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام کے زمانے میں اِس پتھر پر کوئی غلاف اور پردہ نہیں تھا، لوگ اِس کی زیارت کرتے اور اِس پر اپنے ہاتھوں کو پھیرتے تھے۔ سب سے پہلے خلیفہ مہدی عباسی نے161 ہجری میں مقام ابراہیم پر غلاف چڑھایا، اس کے بعد خلیفہ متوکل نے 236 ہجری میں اِس پر سونے اور چاندی کا پانی چڑھایا، پھر اس کے بعد سے لے کر موجودہ زمانے تک آنے والے مسلمان اُمراء اور حکام اپنے اپنے انداز سے اس کی تزئین و آرائش اور حفاظت کا اہتمام کرتے آئے ہیں؛ چنانچہ اب یہ سونے اور پیتل کے بنے شاندار فریم میں بند ہے اور اس پر شیشے کا مضبوط غلاف ہے، یہ سنگِ مرمر کے بڑے پتھر میں نصب ہے، اس کے اردگرد لوہے کی مضبوط قُبہ نما جالی بنی ہوئی ہے۔
آیاتِ بیّنات میں سے ایک حجر اسود ہے، اس کی بابت نبی کریمﷺ نے فرمایا: یہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا، اِسے بنی آدم کی خطائوں نے سیاہ کر دیا‘‘ (جامع ترمذی: 877)، نیز آپﷺ نے فرمایا: ''حجر اسود جنت کا سفید پتھر تھا، یہ برف سے زیادہ سفید تھا، اس کو مشرکین کے گناہو ں نے سیاہ کر دیا‘‘ (مسند احمد: 3046)، ایک حدیثِ پاک میں ہے: ''حجر اسود جنت کے پتھروں میں سے ہے، زمین پر جنت کی چیزوں میں سے اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے، یہ نہایت چمکدار سفید اور خوبصورت تھا، اگر اِسے جاہلیت کی ناپاکی نے نہ چھوا ہوتا تو جو بھی مریض اِسے چھوتا، وہ ٹھیک ہو جاتا‘‘ (معجم الکبیر: 11314)۔ پس جب شرک و کفر اور گناہوں کا اس قدر سخت اثر ہے کہ اُن کے اثرات نے اِس جنتی پتھر کی چمک دمک اور اس کی سفیدی کو زائل کر دیا تو وہ انسانی دلوں پر کس قدر اثر انداز ہوتے ہوں گے اور اُنہیں کس قدر زنگ آلود کر دیتے ہوں گے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیا ہ نکتہ لگ جاتا ہے، پس اگر وہ توبہ و استغفار کر لے تو وہ داغ ختم ہو جاتا ہے، اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے اور گناہوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے تو وہ نکتہ بھی بڑھتا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ اسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ''رَیْن‘‘ سے تعبیر کیا ہے: ''ہر گز نہیں! اُن کے کرتوتوں کے سبب ان کے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے‘‘، وہ یہی ہے‘‘ (جامع ترمذی: 3334)۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ''بعض ملحدین اِن احادیث پر یہ اعتراض کرتے ہیں: حجر اسود کو نیک و بد ہر قسم کے لوگ چھوتے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ گناہ گاروں کے چھونے کی وجہ سے اس کی رنگت سیاہ تو ہو گئی مگر صالحین کے چھونے کی وجہ سے اس کی رنگت اپنی سفیدی پرباقی نہ رہی، اس کی بابت حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس کی رنگت کو سیاہی میں اِس لیے تبدیل فرما دیا تاکہ اہلِ دنیا کی نظروں سے جنت کی اشیاء کا رنگ اور اُن کی زیب و زینت پوشیدہ رہے، سو اُس کی سیاہی حجاب کی طرح ہے۔ مُحبّ طَبری نے فرمایا: اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس کی چمک دمک کواُسی حال پر برقرار رکھتا جس حال پر اِسے جنت سے اُتارا گیا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی عبرت کے لیے اس پر گناہوں کے اثرات کو ظاہر کر دیا تاکہ لوگ اِسے دیکھ کر عبرت حاصل کریں اورگناہوں سے اجتناب کریں کہ جب گناہوں کے اثرات نے ایک چمکتے دمکتے جنتی پتھر کوسختی کے باوجود نہیں چھوڑا اور اُسے سیاہ کر دیا تو انسان کا دل تو گوشت کا ایک نرم لوتھڑا ہے، اُس پر گناہوں کا کس قدر سخت اثر ہوتا ہو گا، گناہ کے اثرات اُسے کس قدر سیاہ اور تاریک کر دیتے ہوں گے‘‘ (فتح الباری، ج: 3، ص: 463)۔
قاضی بیضاوی اور بعض اہلِ علم نے کہا ہے: ''حجر اسود کے جنتی پتھر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حقیقتاً جنت کا پتھر ہے اور اِسے جنت سے زمین پر اُتارا گیا ہے، بلکہ یہ دنیا کے پتھر وں میں سے ہی ایک پتھر ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پتھر کو کرامت سے نوازا ہے اور اس میں وہ برکتیں ودیعت فرمائی ہیں جو جنت کے پتھروں کو حاصل ہیں، سو اِس مشارکت کی بنا پر بطورِ مبالغہ اِسے مَجازاً جنتی پتھر سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ عَجوہ کھجور کو اُس کے باعثِ شفا و برکت ہونے کی وجہ سے جنتی پھل کہا گیا ہے، حجر اسود کے جنتی پتھر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں جنتی اشیاء کے خواص اور علامتیں نہیں پائی جاتیں، کیونکہ نصوص سے ثابت ہے: جنت کی اشیاء فنا، تغیّر و تبدّل اور زوال و تَکَسُّرْ (ٹوٹ پھوٹ) سے محفوظ رہتی ہیں، جبکہ حجر اسود کافی بوسیدہ ہو چکا ہے، اس میں سے مٹی جھڑتی ہے اور اس میں دراڑیں اور ٹوٹنے کے نشانات پائے جاتے ہیں، کسی چیز کا بوسیدہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا اُس کے زوال و فنا کی طرف جانے کے قوی ترین اسباب میں سے ہے، جبکہ جنتی اشیا کو زوال نہیں، تو حجر اسود کس طرح جنتی پتھر ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس جمہور اہل علم کا کہنا ہے: حجراسود حقیقتاً جنت سے اُتارا گیا پتھر ہے، کیونکہ جنت میں بیشمار جواہرات ہیں اور اُن جواہرات میں سے ایک حجر اسود ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے جنت سے اُتارا ہے، سو ٹوٹ پھوٹ کے سبب حجراسودکے جنتی پتھر ہونے کا انکار کرنا درست نہیں، الغرض حجر اسود حقیقتاً جنت سے نازل ہونے والا پتھر ہے، مگر چونکہ اِسے فانی اور تغیر پذیر دنیا میں اُتاراگیا ہے، اس بنا پر اس سے اُن خصوصیات کو سلب کر لیا گیا جو جنتی اشیا میں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''حجر اسود اور مقامِ ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں سے ہیں، اِن کے نور کو اللہ تعالیٰ نے سلب فرما دیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ اِن کے نور کو سلب نہ فرماتا تو یہ مشرق تا مغرب پوری دنیا کو روشن کر دیتے‘‘ (ترمذی: 878)، سو جب حجر اسود کو اِس فانی دنیا کا حصہ بنایا گیا تو اس پر اسی فانی دنیا کے احکام و خواصّ جاری ہوتے ہیں، اس کی مثال یہ ہے: نبی کریمﷺ نے اپنی قبرِ انور سے لے کر منبر شریف تک کے حصے کو جنت کی ایک کیاری قرار دیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہاں نہ بھوک لگے نہ پیاس، کیونکہ جنت کی خصوصیات میں سے بھوک اور پیاس کا نہ لگنا ہے، جبکہ ریاض الجنۃ میں بیٹھنے والے کو بھوک و پیاس لگتی ہے، اس کاسبب یہ نہیں کہ وہ حقیقتاً جنت کا حصہ نہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ جنت کے اِس حصے کو دنیا میں اُتارگیا ہے، اس لیے دنیا کی خصوصیات و عوارض اللہ تعالیٰ نے اس میں ودیعت فرما دی ہیں۔
صفا و مروہ بھی آیاتِ بیّنات میں سے ہیں، یہ مکہ معظمہ میں کعبۃ اللہ کے نزدیک آمنے سامنے دو پہاڑیاں ہیں۔ صفا کا لفظی معنی ہے: چکنا پتھر اور مروہ کا معنی ہے: سفید اور ملائم پتھر۔ بعض اہلِ علم نے کہا ہے: صفا پر حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام نے وقوف فرمایا تھا، اِس لیے اِسے صفا کہا جاتا ہے اور مروہ پر اُن کی اہلیہ حضرت حواء نے وقوف کیا تھا، اِس لیے اسے مروہ کہا جاتا ہے، یہ اِمْرَاء َۃٌ کا مخفّف ہے۔ سیرت نگاروں کے بقول کوہِ صفا پر اِساف اور مروہ پر نائلہ نامی بُت نصب تھے، یہ اصل میں انسان تھے، انہوں نے بیت اللہ شریف میں بدکاری کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مسخ کر کے پتھر بنا دیا، پھر قریش نے انہیں عبرت کے لیے کعبہ کے سامنے نصب کر دیا، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پرستش شروع کر دی گئی اور انہیں صفا و مروہ پر نصب کر دیا گیا، تو جو شخص صفا و مروہ کی سعی کرتا، وہ ان کا استلام کرتا تھا‘‘ (تفسیرِ قرطبی، ج: 2، ص: 179، تفسیر ابن کثیر، ج: 1، ص: 341)۔
ان پہاڑیوں کے درمیان سعی کی جاتی ہے جو حضرت ہاجَر (ہاجرہ) کی یادگار ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور اہلیہ حضرت ہاجَر کو مکہ مکرمہ کی بے آب گیاہ سرزمین میں چھوڑ کرچلے گئے، یہاں حضرت ہاجَر کے پاس خور و نوش کا سامان ختم ہو گیا تو وہ پانی کی تلاش میں کبھی صفا پر چڑھتیں، کبھی مروہ پر اور جب نشیب میں حضرت اسماعیل علیہ السلام نگاہوں سے اُوجھل ہو جاتے تو دوڑتے ہوئے گزرتیں حتیٰ کہ آپ نے صفا اور مروہ کے سات چکر لگائے، پس اللہ تعالیٰ کو حضرت ہاجرَ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اسے حج اور عمرہ کا حصہ بنا دیا اور انہیں شعائر اللہ (اللہ کے دین کی نشانیاں) قرار دیا۔