"MMC" (space) message & send to 7575

قربانی کے حوالے سے چندفقہی مسائل

قربانی کا موسم شروع ہو چکا ہے، ا س مناسبت سے قربانی کے ضروری مسائل پیشِ خدمت ہیں:
٭قربانی ہرصاحب نصاب بالغ مرد و عورت پر واجب ہے، زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے کم از کم نصاب پر پورا قمری سال یا سال کا اکثر حصہ گزرنا شرط ہے، جبکہ قربانی اور فطرے کے وجوب کے لیے بالترتیب عیدالاضحی اور عیدالفطر کی صبح صادق کو محض کم از کم نصاب کا مالک ہونا کافی ہے، سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ قربانی کے جانوروں کی عمریں حسبِ ذیل ہیں: بکرا، بکری، دنبہ، بھیڑ ایک سال مکمل ہو جائے اور دوسرے سال میں داخل ہو جائیں ٭بیل، گائے، بھینس، بھینسے کی عمر دو سال پوری ہو جائے اور تیسرے سال میں داخل ہو جائیں ٭اونٹ، اونٹنی کی عمر پانچ سال پوری ہو جائے اور چھٹے سال میں داخل ہو جائیں، یہاں قمری سال مراد ہے؛ البتہ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنے فربہ ہوں کہ دیکھنے میں ایک سال کے نظر آئیں توان کی قربانی جائز ہے۔
٭اگر صاحبِ نصاب مال دار شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ گم ہو گیا یا قربانی سے پہلے مر گیا تو اس پر لازم ہے کہ دوسرا جانور خرید کر قربانی دے یا قربانی کے جانور میں حصہ ڈالے۔ اگر قربانی سے پہلے گم شدہ جانور مل جائے تو مالدار شخص کو اختیار ہے کہ جس جانور کی چاہے قربانی دے، دونوں کی قربانی لازمی نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ جس جانور کی قیمت زیادہ ہو، اُس کی قربانی کرے۔ ٭اگر نادار شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ قربانی سے پہلے گم ہوگیا یا مر گیا، تو اس پر دوسرے جانور کی قربانی لازم نہیں ہے۔ اگر اس نے دوسرا جانور خرید لیا اور پہلا گم شدہ جانور بھی بعد میں مل گیا، تو اس پر دونوں کی قربانی لازم ہو گی،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو اُس پر قربانی واجب نہیں تھی، اُس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدکر خود اپنے اوپر واجب کی، اسی طرح دوسرے جانور کا حکم ہے۔
٭قربانی کے جانوروں کی عمر پورا ہونے کی ظاہری علامت دو دانت کا ہونا ہے، لہٰذا جس جانور کے دو دانت پورے نہیں ہوئے، اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ البتہ جانور گھر کا پلا ہوا ہے یا کسی قابل اعتماد شخص کے پاس ہے اور اس کی مطلوبہ عمر پوری ہو گئی ہے، تو اس کی قربانی شرعاًجائز ہے، خواہ سامنے کے دو دانت ابھی پورے نہ ہوئے ہوں، عام کاروباری لوگوں پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔
٭قربانی کا جانور تمام ظاہری عیوب سے سلامت ہونا چاہیے، اس سلسلہ میں فقہائے کرام نے یہ ضابطہ مقرر کیا ہے کہ ہر وہ عیب جو جانور کی کسی منفعت یا جمال کو بالکل ضائع کر دے، اس کی وجہ سے قربانی جائز نہیں ہے اور جو عیب اس سے کم تر درجے کا ہو، اس کی قربانی ہو جاتی ہے۔
٭جو جانور اندھا‘ کانا یا لنگڑا ہو، بہت بیمار اور لاغر، جس کاکوئی کان، دم یا چکتی تہائی سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں، پیدائشی کان نہ ہوں، ناک کٹی ہو، دانت نہ ہوں، بکری کا ایک تھن یا گائے بھینس کے دو تھن خشک ہوں، ان سب جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ''ھَتْمَاء یعنی وہ جانور جس کے دانت نہ ہوں، اگر وہ چَر سکتا ہے اور چارا کھا سکتا ہے تو اُس کی قربانی جائز ہے‘‘ ( ج: 5، ص: 298)۔ جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا سینگ اوپر سے ٹوٹا ہوا ہے، کان، چکتی یا دُم ایک تہائی یا اس سے کم کٹے ہوئے ہیں تو ایسے جانوروں کی قربانی جائز ہے ٭جانور میں حسن پیدا کرنے کے لیے اُس کے سینگ سر کے اوپر سے رگڑ دیتے ہیں یا ایسا کیمیکل استعمال کرتے ہیں کہ سینگ کی نشو و نما رُک جاتی ہے، لیکن اس کا اثر دماغ پر مرتّب نہیں ہوتا اور سینگ کی جَڑ بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے، تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے ٭صاحب نصاب نے عیب دار جانور خریدا یا خریدتے وقت بے عیب تھا، بعد میں عیب پیدا ہو گیا تو ان دونوں صورتوں میں اس کے لیے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا بے عیب جانور خریدے اور قربانی کرے اور اگر خدانخوستہ ایسا شخص صاحب نصاب نہیں ہے، تو اُس کے لیے اُسی جانور کی قربانی جائز ہے۔
٭خصی جانور کی قربانی آنڈو کے بہ نسبت افضل ہے، کیونکہ اس کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہے، اگر گائے کے ساتویں حصے کی قیمت بکری سے زیادہ ہو تو وہ افضل ہے اور اگر قیمتیں برابر ہوں تو بکری کی قربانی افضل ہے، کیونکہ بکری کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ ٭بکرا بکری، بھیڑ دنبے کی قربانی صرف ایک فرد کی طرف سے ہو سکتی ہے، اونٹ‘ گائے وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ سات افراد شریک ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ سب کی نیت عبادت کی ہو۔ سات سے کم (مثلاً: چھ، پانچ، چار، تین، دو) افراد بھی ایک گائے کی قربانی میں برابر کے حصے دار ہو سکتے ہیں حتیٰ کہ ایک آدمی بھی پوری گائے کی قربانی کر سکتا ہے، سات حصے داروں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
٭سات افراد نے مل کر قربانی کا جانور خریدا، پھر قربانی سے پہلے ایک حصے دار کا انتقال ہو گیا اگر اُس کے ورثا باہمی رضا مندی سے یا کوئی ایک وارث یا چند ورثا اپنے حصہ وراثت میں سے اجازت دے دیں تو استحساناً اس کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ اپنی واجب قربانی ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ توفیق دے تو رسول اکرمﷺ کے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کرنا افضل ہے اور کرنیوالے کو نہ صرف پورا اجر و ثواب ملے گا، بلکہ حضورﷺ کی نسبت سے اس کی قبولیت کا بھی یقین ہے۔
٭شریعت مطہرہ کی رو سے ہر عاقل و بالغ مسلمان مرد و عورت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا جواب دہ ہے، لہٰذا اگر کسی مشترکہ خاندان میں ایک سے زیادہ بالغ افراد صاحب نصاب ہیں تو سب پر فرداً فرداً قربانی واجب ہے، محض ایک کی قربانی سب کے لیے کافی نہیں ہو گی، بلکہ تعین کے بغیر ادا ہی نہیں ہو گی ٭گائے کی قربانی میں عقیقہ کا حصہ بھی ڈال سکتے ہیں، بہتر ہے کہ لڑکی کے لیے ایک اور لڑکے کے لیے دو حصے ہوں، اگر دو کی استطاعت نہ ہو تو لڑکے کے لیے ایک حصہ بھی ڈالا جا سکتا ہے، نیز عقیقے کا گوشت والدین اور قریبی رشتے دار بھی کھا سکتے ہیں۔ قربانی کے جانور نے ذبح سے پہلے بچہ دے دیا یا ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے زندہ بچہ نکلا تو دونوں صورتوں میں یا تو اسے بھی قربان کر دیں یا زندہ صدقہ کر دیں یا فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ کر دیں۔ اگر بچہ مردہ نکلے تو اسے پھینک دیں، قربانی ہر صورت میں صحیح ہے۔
٭ذبح کرتے وقت قربانی کا جانور اچھلا کودا اور اس میں کوئی عیب پیدا ہو گیا یا ذبح ہوتے ہوئے اٹھ کر بھاگا اور وہ عیب دار ہو گیا تو اسے اسی حالت میں ذبح کر دیں، قربانی ہو جائے گی ٭افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں: ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے، ایک حصہ اقارب و احباب کے لیے اور ایک حصہ فقرا اور ناداروں پر صرف کیا جائے، سارا گوشت رضائے الٰہی کے لیے مستحقین کو دے دینا عزیمت اور اعلیٰ درجے کی نیکی ہے اور ضرورت مند ہونے کی صورت میں کل یا اکثر گوشت ذاتی استعمال میں لانے کی بھی رخصت و اجازت ہے، لیکن یہ روحِ قربانی کے منافی ہے۔ نوٹ: شریعت کے مطابق ذبح کیے ہوئے حلال جانور کے مندرجہ ذیل اعضا کھانے منع ہیں: ٭دَم مسفوح (ذبح کے وقت بہنے والا خون) ٭نر جانور کا آلہ تناسل ٭ گائے، بکری کے پیشاب کی جگہ ٭کپورے ٭مثانہ، جانور کے پاخانے کی جگہ ٭حرام مغز، اوجھڑی اور آنتیں، ان میں دمِ مسفوح حرام قطعی اور باقی مکروہِ تحریمی ہیں۔ بَٹ کو کھانا جائز ہے، اوجھڑی کو امامِ اہلسنّت نے مکروہِ تحریمی کہا ہے اور بعض علماء اس کے جواز کے قائل ہیں۔
٭قربانی کا وقت دس ذی الحجہ کی صبح صادق سے لے کر بارہ ذی الحجہ کے غروبِ آفتاب تک ہے۔ گیارہویں اور بارہویں شب میں بھی قربانی ہو سکتی ہے۔ شریعت کے مطابق عورت کا ذبیحہ حلال ہے، ایسے دیہات اور قصبات جہاں عید کی نماز پڑھی جاتی ہے، وہاں نمازِ عید سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے اور جہاں نمازِ عید کا اہتمام نہیں ہوتا، وہاں دس ذوالحجہ کو صبح صادق کے بعد جائز ہے۔
آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے، سنا ہے کہ دودھ دینے کی صلاحیت میں اضافے کے لیے ان کی افزائشِ نسل حرام جانور سے کرائی جاتی ہے، اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ فقہی رائے کا مدار سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا بلکہ حقائق و شواہد پر ہوتا ہے۔ فقہی اصول ہے: ''یقین شک سے زائل نہیں ہوتا ‘‘۔ تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو تو یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے، کیونکہ جانور کی نسل کا مدار ماں پر ہوتا ہے۔ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں: ''جو بچہ پالتو مادہ اور وحشی نر کے ملاپ سے پیدا ہو، وہ ماں کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، حتیٰ کہ اگر بھیڑیے نے بکری سے ملاپ کیا، تو ان کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہو گا، اس کی قربانی جائز ہے‘‘۔ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود حنفی لکھتے ہیں: ''کیونکہ بچہ ماں کا جُز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچہ آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ عہدِ غلامی کا مسئلہ ہے)، کیونکہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے اور مادہ کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے‘‘ (فتح القدیر، ج: 9، ص: 532)۔
ہمارے بہت سے لوگ مغربی ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں، وہ اپنی قربانی اپنے آبائی وطن میں کرانے کو ترجیح دیتے ہیں، اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ بعض صورتوں میں اُن ممالک کے قوانین کی وجہ سے قربانی کرنا دشوار ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہاں مستحقین دستیاب نہیں ہیں، لہٰذا وہ کسی رشتہ دار یا دینی مدرسہ یا رفاہی ادارے کو وکیل بنا کر قربانی کی رقم پاکستان بھیج دیتے ہیں تاکہ قربانی مستحقین تک پہنچ جائے۔ اس میں ان امور کا خیال رکھنا ہو گا: جس دن امریکہ یا کینیڈا وغیرہ میں مقیم کسی شخص کی قربانی پاکستان میں کی جا رہی ہے تو ضروری ہے کہ اس دن دونوں ممالک میں قربانی کے ایام ہوں، خواہ وہ یہاں کے اعتبار سے عید کا پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا، کیونکہ بعض اوقات امریکہ یا کینیڈا میں عید ایک دن پہلے ہو جاتی ہے۔ البتہ وقت میں ذبح کے مقام کا اعتبار ہو گا۔ جن شہروں یا قصبات میں نمازِ عید ہوتی ہے، وہاں دس ذوالحجہ کو پہلی نمازِ عید کے بعد قربانی کی جائے، تین دن اور دو راتیں ایام قربانی ہیں۔
قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت جانور بائیں پہلو پر قبلہ رو لٹائیں، خود ذبح کریں یا کسی سے ذبح کرائیں، چھری تیز ہو اورکم از کم تین رگیں کٹنی ضروری ہیں، افضل یہ ہے کہ چاروں رگیں کاٹی جائیں، بہتر یہ ہے کہ ایک جانور کے سامنے دوسرا جانور ذبح نہ کریں اور ذبح سے پہلے پانی پلائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں