10 جولائی 2023ء کو اسلام آباد میں ''گرین پاکستان انیشی ایٹوسیمینار‘‘ منعقد ہوا، اس میں وزیراعظم پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف نے خطاب کیا۔ وزیراعظم کا خطاب براہِ راست نشر ہوا، لیکن چیف آف آرمی سٹاف کا خطاب براہِ راست نشر نہیں ہوا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی پالیسی ہے کہ غیر ضروری تشہیر سے گریز کیا جائے۔ یہ اچھی بات ہے‘ کثرتِ گفتار اور بسیار گوئی کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ فارسی کا مقولہ ہے: ''تا مرد سخن نگفتہ باشد، عیب و ہنرش نِہُفتہ باشد‘‘، یعنی جب تک آدمی بات نہ کرے، اُس کی خوبیاں اور خامیاں پردۂ اِخفا میں رہتی ہیں۔ انسان طاقت کے زعم میں اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، اس کومدح سرا اور قصیدہ گو بھی مل جاتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ اس سے مخلص نہیں ہوتے، مطلب پرست ہوتے ہیں۔
پی ٹی وی کے ٹویٹر پیج پر چیف آف آرمی سٹاف کے خطاب کا جو متن پیش کیا گیا، وہ حسبِ ذیل ہے: ''ہم سب یہاں پاکستان کو ایک بار پھر سر سبز کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں، پاکستان کو اللہ نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، ہم باصلاحیت قوم ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ مل کر اس کی ترقی میں حصہ ڈالیں، ہم پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بحیثیت ادارہ مکمل جانفشانی کے ساتھ تعاون کا یقین دلاتے ہیں، پاکستان نے ترقی کی منازل طے کرنی ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی، پاکستان میں ہر طرح کی صلاحیت موجود ہے جو اسے عروج پر لے جا سکتی ہے۔ مسلمان کے لیے نا امیدی کفر ہے، مسلمان پرجب مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور خوشی ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے‘‘۔ انہوں نے قرآن مجید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بعض وی لاگرز نے کچھ مزید نکات کا اضافہ کیا ہے: چیف صاحب نے پاکستان میں سونے، تانبے، کوئلے اور دیگر معدنیات کا حوالہ دیا اور کچھ اعداد وشمار بھی پیش کیے۔ نیز یہ بھی کہا: ''ہم سروے کریں گے کہ پاکستان میں کہاں کہاں اور کتنی زمین غیر آباد پڑی ہے، اس کے لیے چین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور شاید قطر وغیرہ کو سرمایہ کاری کی دعوت دیں گے، وہ جدید زرعی آلات اور جدید طریقوں سے اُسے کاشت کریں گے، بیج بھی اعلیٰ معیار کے ہوں گے، فی ایکڑ پیداوارعالمی معیار پر ہو گی اور ایسی فصلیں کاشت کی جائیں گی، جو اُن ملکوں کی ضرورت ہیں۔ پھر وہ اس کا ایک حصہ اپنی سرمایہ کاری کے منافع کے طور پر اور مزید اگر مطلوب ہو گا تو پاکستانی برآمدات کے طور پر اپنے ممالک میں لے جائیں گے، یہ زرِمبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ ہو گا اور مقامی لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ نیز یہ بھی بتایا گیا کہ چھیالیس لاکھ ایکڑ قطعۂ اراضی کا تعیّن کر دیا گیا ہے اور سٹیلائٹ سروے کے ذریعے مزید زمین تلاش کی جائے گی‘‘۔ یقیناایف اے ٹی ایف کی طرح اس کے لیے بھی جی ایچ کیو میں سپیشل ڈیسک یا سپیشل ٹاسک فورس قائم کی جائے گی، اُس وقت تو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے دبائو تھا، اس لیے اُدھر سے جو احکام نازل ہوئے، اپنے زمینی حالات کے مطابق اُن کا مطالعہ کیے اور جائزہ لیے بغیر انہیں مِن و عَن نافذ کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں ایک دن میں پارلیمنٹ سے 33 قوانین منظور کرا لیے گئے، متعلقہ وزارتوں نے اُن کا مطالعہ کیا اور نہ ارکانِ پارلیمنٹ نے اُن کا جائزہ لیا، بس عُجلت میں مصیبت ٹالنے کے لیے یہ کام کر دیے گئے۔ چنانچہ جب وقف کا عجیب و غریب اور خلافِ شرع ایکٹ پاس ہوا اور اُس پر احتجاج ہوا تو سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر نے کہا: ''اس میں ترامیم تجویز کریں، ہم پارلیمنٹ سے منظور کرا دیں گے ‘‘۔ انہیں قانون سازی کے طریقے پر ترمیمی بل بھی بنا کے دیا گیا، لیکن پھر کچھ بھی نہ ہوا، اب وقتی طور پر یہ قانون معطل ہے، مگر قانون کی کتاب میں درج ہے۔
پھر 24 جولائی کو چیف صاحب نے ''خانیوال ماڈل ایگریکلچر فارم‘‘ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا: ''پاک فوج کو اپنی قوم کی خدمت پر فخر ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو موجودہ بحران سے نکال کر دم لیں گے، فوج عوام سے ہے اور عوام فوج سے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ''پاکستانی غیرت مند، غیور اور باصلاحیت قوم ہیں، تمام پاکستانیوں نے بھیک کاکشکول اٹھا کر باہر پھینکنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو تمام نعمتوں سے نوازا ہے، ان شاء اللہ پاکستان میں زرعی انقلاب آکر رہے گا۔ ہم اس ماڈل فارم کی طرز کے جدید فارم بنائیں گے جس سے چھوٹے کسانوں کو فائدہ ہو گا، نیز سرسبز پاکستان کی اس تحریک کو پورے پاکستان میں پھیلایا جائے گا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ''ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، عوام اور ریاست کا رشتہ محبت اور احترام کا ہے، سکیورٹی اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، قومی سلامتی اور مستحکم معیشت لازم و ملزوم ہیں، انہوں نے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے علامہ اقبال کا شعر پڑھا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
چیف صاحب نے یقین دلایا: وہ سرسبز اور خود کفیل پاکستان کی اس مہم پر پہرہ دیں گے اور اُن کا تعاون شاملِ حال رہے گا۔
ہمارے ہاں خوش آئند اعلانات تو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن کبھی انہیں رو بہ عمل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، جسٹس ثاقب نثار نے جھونپڑی ڈال کر ڈیم پر پہرہ دینے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے، لیکن یہ سب دعوے شہرت پسندی کے لیے تھے، سَراب تھے، حقیقت سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا، انہیں منصبی اختیارات کا ایک زُعم تھا، عُجب تھا، تعلّی تھی، اس لیے حقیقت آشکار ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔
ہم انتہائی اخلاص کے ساتھ دعاگو ہیں کہ چیف صاحب کے الفاظ اور یہ دعوے ماضی کی طرح صدا بصحرا ثابت نہ ہوں اور کوئی عملی نتیجہ برآمد ہو۔ قومی اقتصادی منظر سے مایوسی کے بادلوں کا چھٹنا، قوم کے ذہنوں میں امید کی شمع جلانا اوران کے دلوں میں ایمان و یقین کی جَوت جگانا اچھی بات ہے۔ راویوں نے بتایا: چیف آف آرمی سٹاف نے قرآنِ کریم کی آیاتِ مبارکہ تلاوت کیں اور اُن کا ترجمہ سنایا۔ اس پر حاضرین نے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور ہال تکبیر و رسالت کے نعروں سے گونج اٹھا۔
علمائے ربّانیین نے کہا ہے: ''حقیقتِ ایمان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید اور اُس کے عذاب سے خوف کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے‘‘، یعنی انسان نہ تو بالکل اُس کی رحمت سے مایوس ہوجائے اور نہ یکسر اُس کے عقاب وعتاب سے بے خوف ہو جائے۔ اس موضوع پر آیات درج ذیل ہیں: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''(اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے (گناہ کر کے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ معاف فرما دیتا ہے، بے شک وہی بخشنے والا، نہایت رحم فرمانے والا ہے‘‘ (الزمر: 53)۔ اس میں راہِ راست سے بھٹکے ہوئے اور بہکے ہوئے بندگانِ خدا کو مایوسی کے قعرِ مَذلَّت میں گرنے سے بچانے کے لیے رحمتِ باری تعالیٰ کی امید دلائی گئی ہے، اس کی مزید وضاحت قرآنِ کریم میں یوں فرمائی گئی ہے: ''اور ہم نے ہر رسول صرف اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے رسولِ مکرّم!) جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو یہ اُسی وقت آپ کے پاس آ جاتے، پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول فرمانے والا، بے حد رحم فرمانے والا پاتے‘‘ (النسآء: 64)۔ شیخ ابوسعید ابوالخیر نے کہا ہے:
باز آ، باز آ، ہر آنچہ ہستی، باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی، باز آ
ایں درگہِ ما، درگہِ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی، باز آ
ترجمہ: ''رحمتِ باری تعالیٰ پکار رہی ہے: اے میرے بندے! اگر تم راہِ راست سے بھٹک گئے ہو، توتم جو کوئی بھی ہو اور جیسے بھی ہو، واپس میری طرف پلٹ آئو، اگر تم کافر، آتش پرست اور بت پرست ہو چکے ہو، تب بھی واپسی کا راستہ کھلا ہے، ہماری یہ بارگاہ ناامیدی کی جگہ نہیں ہے، اگر تم نے سو بار بھی پیمانِ وفا باندھ کر توڑ دیا ہے، تو آئو، ایک بار پھر پلٹ کر ہماری رحمت کی آغوش میں آ جائو‘‘۔ قرآنِ کریم میں ہے: (1) ''اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اور جب ان کے پہلے سے کیے ہوئے برے کاموں کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں‘‘ (الروم: 36)، (2) ''اور جب ہم انسان کو نعمتوں سے نوازتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بچا کر ہم سے دور ہو جاتا ہے اور جب اُسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو پھر وہ لمبی چوڑی دعا مانگتا ہے‘‘ (حم السجدہ: 51)، (3) ''انسان خیر طلب کرنے سے کبھی نہیں اکتاتا اور اگر اسے کوئی شر پہنچ جائے تو وہ مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے‘‘ (حم السجدہ: 49)۔
یاس اور قنوط کے معنی ہیں: ناامیدی، یہ دونوں کلمات معنوی اعتبار سے مترادف ہیں، لیکن کیفیت یا گراف کے اعتبار سے قنوط کے مقابلے میں ''یاس‘‘ میں ناامیدی کے معنی زیادہ ہیں، قنوط کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ مایوس ہوتے ہیں‘‘ (الحجر: 56) اور یاس کے بارے میں فرمایا: ''یعقوب نے کہا: میں اپنی پریشانی اور غم کی شکایت صرف اللہ سے کرتا ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے ان باتوں کا علم ہے جن کا تم کو علم نہیں ہے، اے میرے بیٹو! جائو یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگائو اور اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوتے ہیں‘‘ (یوسف: 86 تا 87)۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کے حوالے سے مایوسی کے ظاہری اسباب کے باوجود اللہ کی ذات سے اپنی آس کو نہیں توڑا اور اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ یوسف اوراُس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، کیونکہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کافروں کا شیوہ ہے۔ (جاری)