سب سے اہم بات یہ ہے: ''قانون بین الاقوام‘‘ کی بابت ہماری اعلیٰ عدلیہ کی مہارت پر سوالیہ نشان ہے۔ سپریم کورٹ نے ریکوڈک کے معاہدے میں مداخلت کی تو پاکستان کو عالمی عدالتوں میں رسوا ہونا پڑا۔ براڈ شیٹ معاہدے میں بھی عالمی رسوائی اور بھاری تاوان پاکستان کے حصے میں آیا۔ معاہدے کے ذمہ داروں سے کسی نے نہیں پوچھا کہ اس طرح کا معاہدہ کس نے اور کیوں کیا۔ کیا سیاست دانوں سے انتقام کا جذبہ اتنا حاوی تھا کہ عقل مائوف ہو گئی تھی اور آنکھوں پر پردے پڑ گئے تھے؟ حقیقتِ حال یہ ہے: ہم پر جتنے ملکی قوانین حاکم ہیں، اُن سے زیادہ عالمی قوانین حاکم ہیں۔ پس لازم ہے: عالمی معاہدات کے لیے قانون بین الاقوام کے ماہر ججوں پر مشتمل الگ آئینی عدالت ہو، نیز ان معاہدات کو حتمی شکل دینے کے لیے بھی الگ قانونی شعبہ ہو، ورنہ انجام حسبِ سابق ہو گا۔ کے الیکٹرک کسی کے قابو میں نہیں آ رہا۔ ہماری عدالتیں بھی بے بس ہیں۔ یہ راز بھی کسی کو نہیں معلوم کہ وہ اتنا خودسر کیوں ہے۔ باخبر لوگوں کا خیال ہے: موبائل کمپنیاں، پی ٹی سی ایل، بجلی کے تقسیم کار ادارے اور پی آئی اے سمیت تمام ایئر لائنیں صارفین سے بلوں؍ ٹکٹوں پر جو ٹیکس وصول کرتی ہیں، وہ پورا قومی خزانے میں جمع نہیں ہوتا، الغرض اتنے سوراخ ہیں کہ قومی محصولات کا رسائو مستقل جاری ہے۔
(7) ہمیں حکومتی نظام کے پورے انتظامی ڈھانچے کی اووَر ہالنگ کرنا ہو گی، اس کا سائز کم کر کے اس کے معیار کو بلند کرنا ہو گا، کیونکہ اب ہماری معیشت انتظامی ڈھانچے کے موجودہ بوجھ کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی، اس لیے ہمیں قرض لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، ہم ایک ساہوکار سے قرض لے کر دوسرے ساہوکار کو قرض لوٹاتے ہیں اور مالی بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ عنقریب مجموعی قرض ہماری مجموعی قومی پیداوار کو محیط ہو جائے گا۔ اگر ہمارے لچھن یہی رہے تو یہ قرض بتدریج ہمارے جی ڈی پی سے تجاوز کر تاچلا جائے گا۔ شہباز شریف صاحب روزانہ کی بنیاد پر منصوبوں کا افتتاح کرتے اور فیتے کاٹتے رہے ہیں، لیکن معلوم نہیں ہے کہ آیا ان کے لیے وسائل دستیاب ہیں اور یہ پایۂ تکمیل تک پہنچ پائیں گے، اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ آنے والی حکومت کس کی ہوتی ہے اور اس کی ترجیحات کیا ہوں گی۔
(8) بیرونی سرمایہ کاری کے لیے قانون کی حکمرانی، پولس کا معیاری نظام، خوراک وغیرہ کے لحاظ سے صاف ستھری اشیا کی دستیابی، ہوٹلوں کے لیے معیارات کا تعیّن وغیرہ جیسی چیزیں شامل ہیں۔ مغربی ممالک میں تو مسجد، چرچ، سنیگاگ یا کسی بھی مذہب کے عبادت خانے یا ہوٹل اور ہسپتال کے لیے پارکنگ کا انتظام اور ہنگامی صورتِ حال میں آگ بجھانے اور عمارتوں سے خروج کا نظام بھی لازمی ہے۔ الغرض بعض بنیادی ضروریات کے بغیر عمارات کے نقشے پاس نہیں ہوتے اور تعمیر کے تمام مراحل میں باقاعدہ مرحلہ بہ مرحلہ انسپکشن اور متعلقہ ادارے کی منظوری لازمی ہے۔ حال ہی میں ''سہولت کاری کونسل برائے سرمایہ کاری‘‘ کا ادارہ تشکیل دیا گیا ہے، اس کے صدر دفتر کے قیام اور سریع العمل طریقۂ کار وضع ہونے کی بابت ہمیں معلوم نہیں ہے؛ تاہم اُس کے تحت آرمی چیف کی سربراہی میں ''پاکستان منرل سمٹ‘‘ یکم اگست کو منعقد ہوئی ہے، اس میں سعودی وزیر معدنیات اور بعض دیگر غیر ملکی عمائدین بھی شریک ہوئے ہیں۔ سمٹ سربراہانِ حکومت کی کانفرنس کو کہتے ہیں، جبکہ یہاں صرف پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ چیف صاحب نے ایک بار پھر امید افزا باتیں کی ہیں، قرآنی آیات سے بھی استدلال کیا ہے اور علامہ اقبال کے یہ اشعار بھی سنائے ہیں:
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؍ خُودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؍ عبث ہے، شکو ۂ تقدیرِ یزداں تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے۔ بندہ ''تقدیرِ یزداں ‘‘تب بنتا ہے، جب اُس کی فکر اور سوچ حضرت فاروقِ اعظمؓ کی طرح منشائے باری تعالیٰ کے سانچے میں ڈھل جائے، اُس کی فکر باصفا ہو، اُس کا تخیّل اتنا بلند ہو کہ وہ وہی سوچے اور وہی کرے جو منشائے باری تعالیٰ ہے۔ حدیث قدسی میں ہے: ''اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا بندہ جس محبوب عمل سے میرے زیادہ قریب ہوتا ہے، وہ اُس پر میرے عائد کردہ فرائض ہیں، پھر وہ نوافل کے ذریعے مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے، پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے وہ کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، میں اس کی وہ آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے وہ ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کا وہ پیر ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اس کو ضرور پناہ عطا کرتا ہوں‘‘ (بخاری: 6502)۔ حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے: بندہ جب اللہ کا ہو جائے تو اس کی تائید و حمایت اور نصرت اُسے نصیب ہوتی ہے، وہ مظہرِ صفاتِ باری تعالیٰ بن جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا نورِ ہدایت اُس کی عقل کا رہنما بن جاتا ہے۔
(9) بلوچستان اور پختونخوا کے ساتھ ایران اور افغانستان کی طویل سرحد ہے، اس پر غیر قانونی دراندازی کو روکنے کے لیے اربوں روپے خرچ کر کے باڑ لگائی گئی ہے۔ ہمیں شروع سے اندیشہ تھا کہ اس پر لگا ہوا سرمایہ رائیگاں نہ جائے کیونکہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک افغانستان کی کسی بھی حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم نہیں کیا۔ پس دہشت گرد جب اور جہاں سے چاہیں گے، بم یا راکٹ پھینک کر اس باڑ کو ناکارہ بنا دیں گے۔ سو اب ہمارا وطنِ عزیز دہشت گردی کی ایک نئی لہر سے دوچار ہے۔ باجوڑ میں دہشت گردی کا ایک بڑا سانحہ ہوا ہے، اس میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔ قومی سلامتی کے اداروں کے اہلکاروں پر حملوں کا سلسلہ تو کافی عرصے سے جاری تھا، لیکن حالیہ برسوں میں عوامی اجتماع پر یہ پہلا بڑا حملہ ہے۔ ہماری سلامتی کے اداروں کے جوانوں اور افسروں کی شہادتیں اور قربانیاں بلاشبہ قابلِ قدر ہیں، لیکن دہشت گردوں کے حملوں کی پیش بندی کے لیے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اُن کی روک تھام کا پیشگی انتظام ہو سکے۔
(10) کہاوت ہے: ''دوست بدلے جا سکتے ہیں، لیکن پڑوسی نہیں‘‘۔ پس بھارت، ایران اور افغانستان ہمارے پڑوسی ہیں اورخواستہ و ناخواستہ دہشت گردی کے سدِّباب کے لیے غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے ان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کرنا ناگزیر ہے، کیونکہ ان کے اشتراک کے بغیر دہشت گردی کو مکمل طور پر کنٹرول کرنا مشکل ترین امر ہے اور بھارت تو خود دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں آمادۂ پیکار بلوچ رہنمائوں کے ساتھ اگر کوئی قابلِ عمل فارمولا طے پا سکے تو اس کے امکانات پر بھی غورہونا چاہیے، اس کارِ خیر میں باغی عناصر پر اثر و رسوخ رکھنے والے بعض بلوچ سردار اگر مُمِدّ و مُعاون ثابت ہو سکتے ہیں تو ضرور اُن کی بھی مدد لی جائے، بشرطیکہ وہ اُن سے کوئی بات منوا بھی سکیں اور حکومت کی طرف سے ضروری ضمانتیں بھی دے سکیں۔ ثالثوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے: پاکستان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اُن کے ساتھ معاملات طے کرنے یا سودے بازی کی گنجائش کتنی ہے۔ انگریزی کا محاورہ ہے: ''ہمیشہ گرین اور ریڈ لائن کے درمیان ایک گرے لائن ہوتی ہے، یہ دراصل فریقین کو قریب لانے کے لیے گنجائش کے امکانات کا نام ہے‘‘۔
افغانستان سے پاکستان کے اندر جو دراندازی ہو رہی ہے، یہ پاکستان کی اُن دینی قوتوں کے لیے انتہائی اذیت و آزار کا باعث ہے،جنہوں نے حُرِّیتِ وطن کے لیے ہمیشہ اُن کی منصفانہ جدوجہد کی حمایت کی ہے، اُن کے ہمدرد اور بہی خواہ رہے ہیں، اُن کی کامیابی کے دل و جان سے متمنی رہے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ پاکستان اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کے درمیان اعتماد سازی میں کیا رکاوٹ ہے اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کو لمحۂ موجود میں پاکستان سے کیا شکایات ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کو جو مسائل درپیش ہیں، سب کو معلوم ہے: اُن کی کمین گاہیں افغانستان میں ہیں، وہ وہاں سے آکر کارروائیاں کرتے ہیں اور واپس جاکر وہاں روپوش ہو جاتے ہیں، اُن کے سہولت کار کہیں نہ کہیں ہماری سرحدوں کے اندر بھی موجود ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ آیا اُن کے کوئی ہمدرد ہماری انتظامیہ اور اداروں میں بھی موجود ہیں۔ امریکہ نے افغانستان میں آمنے سامنے میدانی جنگ کبھی نہیں لڑی، اُس نے یا تو فضائوں سے بمباری کی یا ڈرون حملے کیے، اُس کی یہ ساری کارروائیاں افغانستان کے اندر اُس کے مقامی جاسوسوں کی مدد سے ہوتی تھیں اور اکثر اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوتے تھے۔ ماضی میں کہا جاتا تھا: ہماری انٹیلی جنس کی دھاک دنیا پر بیٹھی ہوئی ہے، ہماری رسائی دور تک ہے، آج کی صورتِ حال کا ہمیں علم نہیں ہے۔ دہشت گردوں کی کامیابی کا راز اس میں ہے کہ یہ آمنے سامنے کی جنگ نہیں ہے، دشمن بے رنگ ہے، معاشرے میں مخلوط ہے، اُس کی پہچان آسان نہیں ہے، نیز پہل بھی اُس کے ہاتھ میں ہے، وہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہدف کا تعیّن کرتے ہیں، کئی دن تک جائے واردات کا جائزہ لیتے ہیں، اپنی سہولت کاری کے لیے کمین گاہیں تلاش کرتے ہیں، آتشیں مواد اور اسلحہ منتقل کرتے ہیں اور اچانک اپنے حریف کو غافل پاکر حملہ کر دیتے ہیں۔ یہ صورتِ حال امریکہ کی زیرِ قیادت اتحادی افواج کو بھی افغانستان میں درپیش رہی ہے، مگر اتنا فرق ہے کہ امریکی اجنبی تھے، ہم اجنبی نہیں ہیں، معاشرے میں ہماری بھی جڑیں موجود ہیں، لہٰذا ہمارے لیے اُن کی بہ نسبت دشمن کو تلاش کرنے میں آسانی ہونی چاہیے۔
پہلی بار آرمی چیف نے قبائلی عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک اعلان کیا ہے: ''کسی باغی گروہ سے مذاکرات نہیں ہوں گے، یہ خوارج ہیں، ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے: پاکستانی ریاست کی بالادستی اور آئین و قانون کو تسلیم کریں، اگر بات ہوگی تو حکومتِ افغانستان سے ہو گی‘‘۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے رہبر ملّا ہبۃ اللہ کا بیان بھی حوصلہ افزا ہے: ''افغانستان کی سرحدوں سے باہر جنگی کارروائیاں جہاد نہیں ہے، یعنی فساد ہے‘‘، اگر یہ افغان حکومت کی سرکاری پالیسی ہے توکافی حوصلہ افزا ہے، لیکن بعض افغان عہدیداران کے بیانات اس کے برعکس ہیں۔