طِیَرَۃَ، طَیَرَۃ، اِطَّار اور تَطَیُّر کے معنی ہیں: اچھی یا بری فال نکالنا۔ اہلِ عرب پرندے اڑا کر فال نکالا کرتے تھے کہ اگر دائیں جانب چلا گیا تو نیک فال اور بائیں جانب چلا تو بدشگون ہے۔ ہندو معاشرت کے اثرات کے تحت ہمارے ہاں نیک و بَد شُگون کی بہت سی روایات چلی آ رہی ہیں۔ صَفر المُظفر قمری سال کا دوسرا مہینہ ہے، ظہورِ اسلام سے پہلے اہلِ عرب میں بھی اِس مہینے کے بارے میں بہت سی روایات موجود تھیں۔ بعض لوگ ماہِ صفر کی طرف بیماری یا مالی نقصان یا مصیبتوں کے نزول کی بدشُگونی منسوب کرتے تھے۔ بعض لوگ اب بھی انہی باطل توہمات کے زیرِ اثر صفر میں شادی نہیں کرتے۔ رسول اللہﷺ نے اِن تمام باتوں کی نفی فرمائی۔ اِس حوالے سے کُتبِ احادیث میں متعدد روایات ہیں، ہم اُن تمام روایات کو یکجا کر کے درج کر رہے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ''بدشُگونی کی کوئی حقیقت نہیں، کوئی مرض اپنی ذات سے مُتعدی نہیں ہوتا، اُلّو کی نحوست کی کوئی حقیقت نہیں، ماہِ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت نہیں، ستاروں کے طلوع ہونے کا انسانوں کی تقدیر میں کوئی دخل نہیں اور بھوت پریت کی تاثیر کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘‘۔
قرآن مجید میں بدشگونی کے معنیٰ میں ''نَحس، اِطَّار اور تَطَیُّر‘‘ کے کلمات آئے ہیں، جبکہ حدیثِ مبارک میں ''طِیَرَۃ‘‘ کا کلمہ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''بے شک ہم نے اُن پر تُند وتیز مسلسل چلنے والی آندھی منحوس دن میں بھیجی، جو اُن کو اٹھاکر اِس طرح مارتی تھی جیسے وہ جڑسے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہیں‘‘ (القمر: 19 تا 20)، (2) ''سو ہم نے (اُن کے) منحوس دنوں میں اُن پر خو فناک آواز والی آندھی بھیجی تاکہ ہم اُنہیں دنیاکی زندگی میں ذلّت کے عذاب کا مزہ چکھائیں اور آخرت کا عذاب سب سے زیادہ رُسوا کُن ہے‘‘ (حمٓ السجدہ: 16)، (3) ''اور رہے عاد‘ تو اُن کو گرجتی ہوئی تیز آندھی سے ہلاک کر دیا گیا‘‘ (اللہ نے) اِس آندھی کو اُن پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن تک مُسَلّط رکھا، پس تم دیکھتے کہ یہ لوگ زمین پر کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح گر گئے‘‘ (الحاقّہ: 6 تا 7)، (4) ''پس جب اُن پر خوشحالی آتی تو وہ کہتے: یہ ہماری وجہ سے ہے اور اگر اُن پر کوئی بدحالی آتی، تو وہ موسیٰ (علیہ السلام) اور اُن کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے، سنو! اِن کافروں کی نحوست اللہ کے نزدیک ثابت ہے، لیکن اِن میں سے اکثر نہیں جانتے‘‘ (اعراف: 131)، (5) ''کافروں نے (رسولوں سے) کہا: ہم تم سے برا شگون لیتے ہیں اور اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں ضرور دردناک عذاب پہنچے گا، اُنہوں نے کہا: تمہاری بدشگونی تمہارے ساتھ ہے، کیا تم اس لیے برہم ہوتے ہو کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے، بلکہ تم تو حد سے تجاوز کرنے والے ہو‘‘ (یس: 18 تا 19)، (6) ''اور بے شک ہم نے ثمود کی طرف اُن کے ہم قبیلہ صالح کو یہ پیغام دے کربھیجا: اللہ کی عبادت کرو، تو وہ دو فریق بن کر جھگڑنے لگے، صالح نے کہا: اے میری قوم ! تم بھلائی کی طلب سے پہلے برائی کی طلب میں کیوں جلدی کر رہے ہو، تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے، انہوں نے کہا: ہم آپ اور آپ کے ساتھیوں کو نحس سمجھتے ہیں، صالح (علیہ السلام) نے کہا: تمہاری نحوست اللہ کے پاس ہے، بلکہ تم لوگ فتنے میں مبتلا ہو‘‘ (النمل: 45 تا 47)۔
نحوست یا بدشگونی کے لیے ابتدائی تین آیات میں ''نَحس‘‘ کا کلمہ آیا ہے، اِن آیات میں قومِ عاد پر عذاب کے دنوں کو منحوس کہا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے: قومِ عاد پر عذاب بدھ کے دِن آیا تھا اوروہ اِس دن کو منحوس کہتے تھے، اس کی تفسیر میں علامہ محمود آلوسی لکھتے ہیں: ''میں کہتا ہوں: تمام ایام برابر ہیں اور بدھ کا دن نحوست کے لیے خاص نہیں ہے، اُن پر عذاب اُن کی سرکشی اور بغاوت کی وجہ سے آیا نہ کہ بدھ کے دن کی وجہ سے، ہر گزرنے والی ساعت کسی شخص کے لیے اچھی اور مبارک ہوتی ہے اور وہی ساعت دوسرے شخص کے لیے بری اور منحوس ہوتی ہے اور ہر دن کسی شخص کے لیے خیر اور دوسرے شخص کے لیے شَر ہوتا ہے، ایک ہی دِن میں کہیں جنازہ اٹھتا ہے اور کہیں شادیانے بج رہے ہوتے ہیں، پس نحوست یا ناخوشگوار ہونے کا تعلق زمانے سے نہیں ہوتا، بلکہ افراد کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص پر کوئی عذاب یا کوئی مصیبت نازل ہونے کی وجہ سے بدھ کے دن کو منحوس مان لیا جائے تو ہر دن بلکہ ہر ساعت میں کسی نہ کسی شخص پر کوئی نہ کوئی مصیبت اور بلا نازل ہوتی رہتی ہے، پھر اِس طرح توتمام ساعتیں نحس قرار پائیں گی‘‘ (روح المعانی، جلد: 27، ص: 86)۔
اگلی تین آیات میں بدشگونی کے لیے ''تَطَیُّر‘‘ اور ''طَآئِر‘‘ کے کلمات آئے ہیں۔ سورۃ الاعراف کی آیت میں بتایا گیا ہے: فرعونیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں کی طرف نحوست کی نسبت کی؛ پس انہیں بتایا گیا: تمہاری نحوست، تمہاری بداعمالیوں کے سبب اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُقدر ہے۔ سورۂ یٰس میں بتایا گیا: اہلِ انطاکیہ کی طرف ہدایت دینے کے لیے جو رسول بھیجے گئے، انہوں نے ان کو جھٹلایا اور کہا: ''ہم تم سے برا شگون لیتے ہیں‘‘، اسی طرح سورۃ النمل میں قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی طرف نحوست کی نسبت کی، الغرض یہ ماضی کے کفار کا وتیرہ تھا کہ وہ ہدایت قبول کرنے کے بجائے انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کو نحس قرار دیتے تھے۔
حدیث پاک میں فرمایا: ''لَا طِیَرَۃَ‘‘ یعنی کسی خاص مقام، دِن یا وقت کے حوالے سے شریعت میں نحوست یا بدشگونی کا کوئی تصور نہیں ہے، بلکہ ایک روایت میں آپﷺ نے فرمایا: ''جو شخص کسی چیز سے بدشُگونی لے کر اپنے مقصد سے لوٹ آیا، اُس نے شرک کیا‘‘۔ شرک کی صورت یہ ہے: کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ اِس چیز یا واقعے کا ظہور اپنی ذات میں ناکامی کا سبب ہے اور اِس بنا پر وہ اپنا پروگرام ملتوی کر دے، تو گویا اُس نے اعتقادی طور پر شرک کا ارتکاب کیا اور غیر اللہ کو مؤثر بالذات مانا۔
اِس کے برعکس رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اسلام میں بدشگونی تو نہیں ہے، (البتہ) نیک فال لینا بہتر ہے۔ صحابہ نے پوچھا: ''نیک فال کیا ہے؟، آپﷺ نے فرمایا: ہر وہ اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنے‘‘ (صحیح بخاری: 5754)، چنانچہ رسول اللہﷺ نے بعض مواقع پر بعض امور کو نیک شگون قرار دیا، اس کے معنی یہ ہیں: ''کسی اچھی علامت کے نمودار ہونے پر اُسے نیک فال قرار دیا جا سکتا ہے‘‘، احادیث مبارکہ سے اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں: جب صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش مکہ کے سفارتی نمائندے کے طور پر سہیل بن عَمْرو مذاکرات کے لیے آیا، تو آپﷺ نے پوچھا: اس کا نام کیا ہے؟ صحابۂ کرام نے بتایا: اس کا نام سہیل ہے، (سہیل کا مادّہ ''سہل‘‘ ہے اور اس کے معنی ہیں: آسانی)؛ چنانچہ آپﷺ نے سہیل کے نام سے نیک فال لیتے ہوئے فرمایا: ''اللہ نے تمہارا کام آسان کر دیا ہے‘‘۔ اِسی طرح ''سفرِ ہجرت کے موقع پر کفارِ مکہ نے رسول اللہﷺ کو گرفتارکرنے والے کے لیے سو اونٹ انعام مقرر کیا تھا، بُرَیْدَہ ٔ اَسْلَمِیْ اس انعام کی لالچ میں آپﷺ کے تعاقب میں نکلا اور تلاش کرتے کرتے آپ کے قریب جا پہنچا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خطرے کو بھانپ کر آپﷺ کو اس کی جانب متوجہ کیا کہ ایک شخص ہمیں نقصان پہنچانے کی غرض سے ہمارے قریب آ پہنچا ہے۔ آپﷺ نے اس سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے، اُس نے کہا: بُرَیدہ، آپﷺ نے فرمایا: ''اللہ نے تمہارے لیے ٹھنڈک کا سامان پیدا کر دیا ہے‘‘ (بُرَیدہ کا مادّہ ''بَرد‘‘ہے اور اس کے معنی ہیں: ٹھنڈک) پھر آپﷺنے اُس سے پوچھا: تمہارا خاندان کیا ہے، اُس نے کہا: ''بنو اسلم‘‘، اِس پر آپﷺ نے فرمایا: ہمیں سلامتی مل گئی‘‘ (کیونکہ اسلم کے معنی ہیں: ''خطرات سے محفوظ‘‘،مادّہ ''سَلَم‘‘ ہے) پھرآپﷺنے پوچھا: تمہارا قبیلہ کون سا ہے، اُس نے جواب دیا: بنوسہم، آپﷺنے فرمایا: تمہارا تیر نکل گیا (سہم کے معنیٰ ہیں: تیر)، چنانچہ بُرَیدہ اور اُن کے سب ساتھی اسلام لے آئے‘‘ (سُبُل الھدی والرشاد، جلد: 9، ص: 356)۔ رسول اللہﷺ اچھے ناموں کو پسند فرماتے تھے، بعض مواقع پر آپﷺ نے ناموں کو تبدیل بھی فرمایا، آپ نے ''بَرّہ‘‘ نام کوبدل کر زینب اور جویریہ رکھا، اَصرم کو بدل کر زُرعہ رکھا۔ اِسی طرح آپﷺ نے ''عاص، عزیز، عَتَلہ، غُراب، حُباب اور شِہاب‘‘ ناموں کو بھی بدلا۔ سعید بن مُسیَّب نے بتایا: اُن کے دادا کا نام ''حَزْن‘‘ تھا (اس کے معنی ہیں: سختی)، وہ حضورﷺ کے پاس آئے، آپﷺ نے فرمایا: تمہارا نام سَھْل ہے، اُنہوں نے کہا: میں اپنے باپ کے رکھے ہوئے نام کو نہیں بدلوں گا، چنانچہ اِسی کے اثر سے ہمارے خاندان کے مزاج میں سختی چلی آ رہی ہے۔
رسول اللہﷺ کا یہ فرمان: ''صفر کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘‘، اِس کے معنی ہیں: ماہِ صفر کو جو لوگ منحوس تصور کرتے ہیں، اِس ماہ کے ابتدائی تیرہ دنوں کو بعض لوگ تیرہ تیزی کہتے ہیں، اِس مہینے میں شادی نہیں کرتے، شریعت کی رُوسے یہ سب باتیں بالکل بے اصل اور باطل ہیں۔ امام احمد رضا قادری سے سوال ہوا: ''صفر کے آخری بدھ کے متعلق لوگوں میں مشہور ہے: اُس دن رسول اللہﷺ صحت یاب ہوئے تھے، لہٰذا وہ اِس خوشی میں شیرینی تقسیم کرتے ہیں، بعض لوگ اِس دن کو نَحس جان کر برتن توڑتے ہیں‘‘، آپ نے جواب دیا: آخری بدھ کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، اس دن برتن توڑنا مال ضائع کرنا اور گناہ کا سبب ہے۔ اس دن آپﷺ کی صحت یابی کا بھی کوئی ثبوت نہیں، بلکہ جس مرض میں آپ کا وصال ہوا، اُس کاآغاز صفر 11ھ کے آخری بدھ کے دن ہوا تھا، ایک روایت کے مطابق حضرت ایوب علیہ السلام کی ا بتلا بھی بدھ ہی کے دن شروع ہوئی تھی‘‘۔
رسول اللہﷺ کا فرمان: ''ستارے کی کوئی اصل نہیں‘‘، اِس کے معنی ہیں: بعض نجومیوں کے یہ نظریات کہ ستاروں کی چالیں یا اُن کا کسی خاص برج میں ہونا انسانوں کی تقدیر پر اَثر انداز ہوتا ہے یا یہ کہ فلاں کا ستارہ یہ ہے اور برج یہ ہے اور اُس کا دن یا سال اِس طرح گزرے گا، یہ سب باتیں شریعت کی نظر میں باطل ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فَراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں
یعنی ستارہ اپنی مرضی سے حرکت نہیں کرتا، وہ خود قادرِ مُطلق کے حکم کا پابند ہے، اُس کی مَجال نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کرے۔ فرمایا: ''سورج کی مَجال نہیں کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے‘‘ (یس: 40)، کیونکہ: ''سورج اور چاند اللہ کے نظم کے پابند ہیں‘‘ (الرحمن: 5)۔ (جاری)