"MMC" (space) message & send to 7575

منشورِ امام احمد رضا قادری

25 صفر المظفر امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ کا یومِ وصال ہے، اس کی مناسبت سے میں اپنی فہم اور علمی بساط کے مطابق منشورِ امام احمدرضا کے چند گوشے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ بدقسمتی سے اہل سنت نے چند شعائر اور ظاہری علامات کو عملاً واجب کا درجہ دے رکھا ہے اور فرائض و واجبات اور سُنن کو حسبِ مراتب اہمیت نہیں دی جا رہی، اس کے نتیجے میں بے عملی فروغ پا رہی ہے، مسلک کو روحانی حَظّ و سرور کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، نعت خواں اور قوال مذہب کے سٹار سمجھے جاتے ہیں، اس کے سبب دین کی ترجیحات پسِ منظر میں چلی گئی ہیں۔ پاکستان سے لے کر یورپ، کینیڈا اور امریکہ تک ان مجالس کے لیے پروموٹر افراد اور ادارے وجود میں آ گئے ہیں۔ برطانیہ میں آرٹ اینڈ کلچرکے لائسنس یافتہ لوگ نعت خوانوں کو بھی سپانسر کرتے ہیں، گویا یہ آرٹ کا شعبہ بن گیا ہے۔ کاش! ان لوگوں نے فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں دین کی ترجیحات کا علم ہوتا۔ آج سے کم و بیش ایک صدی قبل امام احمد رضا اہل سنت کی بے حسی اور دینی ترجیحات کی معکوس ترتیب کو دیکھ کر تڑپ اٹھے اور لکھا:
مرا سوزیست اندر دل‘ اگر گویم زباں سوزد
وگر دَم دَر کَشم، تَرسم کہ مغزِ اُستُخواں سوزد
ترجمہ: ''دین و مسلک کے بارے میں اپنے لوگوں کے طرزِ عمل کو دیکھتا ہوں تو دل میں جذبات کا ایسا شعلہ اٹھتا ہے کہ اگر انہیں زبان پر لاؤں تو زبان جل جائے اور اگر ضبط کر کے سانس روکے رکھوں تو اندیشہ ہے کہ ان جذبات کی تپش سے ہڈیوں کا گودا تک جل جائے گا‘‘۔ اردو شاعر نے اسی مفہوم کو اس شعر میں بیان کیا ہے:
جو سچ کہتا ہوں‘ مزہ الفت کا جاتا ہے
جو چُپ رہتا ہوں‘ کلیجہ منہ کو آتا ہے
اہلسنت کی بے عملی کو دیکھتے ہوئے امام احمد رضا قادری نے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے ایک منشور دیا، اس کے چند نکات یہ ہیں: ''ایک علما کا اتفاق جو اُن کے عہد میں بھی مفقود تھا، دوسرا یہ کہ ہر مسلمان اپنی طاقت کے مطابق دین کی راہ میں مشکلات کو برداشت کرنا سیکھے، جبکہ مسلمان سہل پسند ہو چکے ہیں۔ تیسرا یہ کہ جن خوش نصیب افراد کو اللہ تعالیٰ نے نعمتِ مال سے نوازا ہے، وہ ہر طرح کی نمود اور ریاکاری سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اُس کے عطا کیے ہوئے مال میں سے اُس کی راہ میں اس انداز سے خرچ کریں کہ حدیث پاک کے مطابق ''بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا‘‘۔ پھر لکھتے ہیں: ''یہ تمام چیزیں یہاں مفقود ہیں،کیونکہ لوگوں کو نمود اور شہرت مطلوب ہے‘‘۔ یہ تواُن کے دور کا عالم تھا، آج اخلاص سے محرومی اور ریاکاری کی یہ بیماری اور زیادہ پھیل چکی ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے مالی وسائل سِوم، جمعرات، دسویں بیسویں، چہلم اور اَعراس کی تقریبات پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ یہ ایصالِ ثواب کے مختلف عنوانات ہیں، ان کا جواز و استحباب مسلّم، مگر رسول اللہﷺ نے ایصالِ ثواب اور انفاق فی سبیل اللہ کے لیے صدقاتِ جاریہ کو ترجیح دی ہے۔ صدقاتِ جاریہ سے مراد ایسے شعبوں اور ایسی مدّات پر اپنے لیے اور اپنے وفات پانے والے اقارب کے ایصالِ ثواب کے لیے مال خرچ کرناچاہیے، جیساکہ حدیثِ پاک میں ہے: ''جب انسان وفات پا جاتا ہے تو تین قسم کے اعمال کے سوا اُس کے اعمالِ (صالحہ) کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے: (1) صدقۂ جاریہ، (یعنی جس عمل کا فیض بعد از وفات بھی جاری رہے)، (2) علمِ نافع، (3) نیک اولاد جو اُس کے لیے دعائے خیر کرے‘‘ (ترمذی: 1376)۔ صدقاتِ جاریہ میں مدارس و مساجد کی تعمیر اور مصارف میں حصہ لینا، رفاہِ عامّہ کے کام کرنا، علمِ نافع دینا جس کا فیض دینی لٹریچر یا فیض پانے والے علما کے ذریعے جاری رہے اور نیک اولاد بھی صدقۂ جاریہ ہے۔
آپ سے سوال ہوا: ایک خاتون ہر سال گیارہویں شریف کی نیاز کرتی ہیں، ڈیڑھ من چاول پکا کر غوث الاعظم کی ایصالِ ثواب کے لیے تقسیم کرتی ہیں، فلاں جگہ ایک دینی مدرسے میں مستحق طلبہ ہیں، اگر یہ اُن پر خرچ کر دیے جائیں توکیا گیارہویں شریف کی نیاز ہو جائے گی؟ آپ نے جواب دیا: تم گیارہویں شریف کی نیاز کے جواز کی بات کرتے ہو، گیارہویں بھی ہو جائے گی اور چودہ سو گنا زیادہ اجر ملے گا، کیونکہ یہ صدقۂ جاریہ ہو گا، انہوں نے لکھا: (1) عظیم الشان مدارس قائم کیے جائیں اور باقاعدہ تعلیمی نظام ہو، (2) انتہائی ذہین اور قابل طلبہ، جو غربت کے سبب تعلیم کو ترک کرکے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، کو وظائف دیے جائیں تاکہ وہ تعلیمِ دین کی طرف مائل ہوں، (3) مدرّسین کو اعلیٰ معیار پر بیش بہا تنخواہیں دی جائیں تاکہ وہ فکرِ معاش سے بے نیاز ہو جائیں اور کسی کی ملامت کی پروا کیے بغیرحق کی حمایت کریں اور باطل کے خلاف مصروفِ عمل ہوں، (4) طلبہ کے ذہنی رجحان کو دیکھ کر انہیں اُن کے پسندیدہ علمی شعبے کا متخصِّص بنایا جائے، (5) جن کے اندر تحقیق اور تصنیف وتالیف کا جوہر ہے، اُن کی قابلیت کے مطابق مشاہرے دے کر اس شعبے میں اُن کی خدمات حاصل کی جائیں، (6) دینی رسائل و جرائد اور اخبارات کا اجرا کیا جائے، (7) سودی شکنجے سے نجات کے لیے مسلمانوں کے اپنے مالیاتی ادارے ہوں جو دیانت کا اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے اسلامی شراکت و مضاربت کے اصولوں پر لوگوں کو خدمات فراہم کریں اور انتہائی ضرورت مندوں کو بلاسود قرضے دیں، (8) مسلمانوں کے باہم تنازعات کو طے کرنے کے لیے مصالحتی کونسلیں بنائی جائیں تاکہ برسوں عدالتوں میں رُلنے اور وکلا کی بڑی بڑی فیسیں دینے سے بچ سکیں، اس کی ضرورت آج بھی ہر شخص محسوس کر سکتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں انصاف انتہائی گراں قدر جنس بن چکا ہے۔ قرآنِ کریم نے بھی عائلی تنازعات طے کرنے کے لیے ایک ''مجلسِ تحکیم‘‘ (Arbitration Council) تشکیل دینے کاحکم فرمایا ہے۔ نوٹ: یہ برطانوی سامراج کا دور تھا۔
لوگوں نے غلط طور پر یہ تاثر دیا ہے کہ اُن کا من پسند مشغلہ کفر کے فتوے جاری کرنا تھا، یہ اُن کی فکر کی سو فیصد غلط تعبیر ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ''فرضِ قطعی ہے کہ اہلِ کلمہ کے ہر قول و فعل کو، اگر چہ بظاہر کیسا ہی خراب سے خراب تر ہو، حتی الامکان کفر سے بچائیں۔ اگر ضعیف سے ضعیف، نحیف سے نحیف تاویل بھی کی جا سکتی ہو، جس کی رو سے حکمِ اسلام کی گنجائش نکلتی ہو، تو اس کی طرف جائیں اور اس کے سوا ہزار احتمال اگر کفر کی جانب جاتے ہوں، انہیں خیال میں نہ لائیں‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج: 12ص: 317)۔ آپ حدیث بیان کرتے ہیں: ''لا الٰہ الا اللّٰہ(یعنی کلمۂ طیبہ) کہنے والوں سے زبان روکو، انہیں کسی گناہ پر کافر نہ کہو، کلمۂ طیبہ پر اعتقاد رکھنے والوں اور اس کا اقرار کرنے والوں کو جو کافر کہے، وہ کفر سے نزدیک تر ہے‘‘ (المعجم الکبیر، ج: 12، ص: 272)۔ آپ لکھتے ہیں: ''امام اعظم و دیگر ائمہ فرماتے ہیں: ''جو کسی مسلمان کی نسبت یہ چاہے کہ اُس سے کفر صادر ہو، وہ کفر کرے یا نہ کرے، یہ (خواہش رکھنے والا) ابھی کافر ہو گیا کہ مسلمان کا کافر ہو نا چاہا‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج: 12، ص: 403)۔ البتہ آپ لکھتے ہیں: ''جو ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہو، باجماعِ مسلمین یقینا قطعاً کافر ہے، اگرچہ کروڑ بار کلمہ پڑھے، مگر اس کی وضاحت تو کی جائے کہ کسی شخص نے ضروریاتِ دین میں سے کس چیز کا انکار کیا ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو علمائے کرام کو اتفاقِ رائے سے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تاکہ جماعتی انتشار ختم ہو اور سب یک سُو ہوں‘‘۔ امام احمد رضا قادری کا یہ مشورہ نہایت صائب ہے کہ ایسے اُمور میں، جن کے نتائج دور رس ہوں، انفرادی کے بجائے ثقہ علما کو اجماعی اور متفقہ فتوے جاری کرنے چاہئیں تاکہ اگر کسی پہلو کے بارے میں کسی ایک عالم سے صرفِ نظر ہو جائے تو دوسرا اس کی اصلاح کر لے۔
آپ لکھتے ہیں: ''خدمتِ دین میں مشغول کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے تقدیرِ الٰہی سے کوئی لغزش واقع ہو تو اس پر پردہ ڈالنا چاہیے، ورنہ لوگ اُن سے بدظن ہوں گے اور اُن کی تحریر و تقریر سے دین کو جو فائدہ پہنچتا ہے اُس کا نقصان ہو گا‘‘۔ بعض لوگ بغض و عداوت کی بنا پر کسی کی طرف جھوٹی بات منسوب کر لیتے ہیں، آپ نے حدیث کا حوالہ دیا: ''جس نے اپنے بھائی کو ایسے گناہ پر عار دلایا جو اُس نے نہیں کیا، تو موت سے پہلے یہ شخص خود اس میں مبتلا ہو گا‘‘ (ترمذی: 2505)۔
امام احمد رضا قادری کی ایک انتہائی دقیق عبارت کا خلاصہ آسان الفاظ میں پیشِ خدمت ہے، اس سے ان کی فکر میں یُسر اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے: ''ان امور میں یہ قاعدۂ کلیہ ضرور یاد رکھنا چاہیے: فرائض کی ادائیگی اور حرام کاموں سے بچنے کو مخلوق کی خوشنودی پر ترجیح دے اور ان امور میں کسی کی ناراضی کی پروا نہ کرے۔ دینی حکمت کے تحت مخلوق کی دلداری اور ان کے جذبات کو مستحب کاموں پر ترجیح دے، یعنی نفسانیت نہیں بلکہ دینی مصلحت کے تحت بعض صورتوں میں افضل کاموں کو چھوڑا جا سکتا ہے اور بعض اوقات خلافِ اَولیٰ کام بھی کیا جا سکتا ہے۔ دین کے مُبلّغ کو لوگوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے، وہ لوگوں کے لیے اذیّت اور دل آزاری کا سبب نہ بنے۔ لوگوں میں کوئی ایسا شِعار رائج ہو جو نہ شریعت کے خلاف ہے اور نہ اس میں شرعی عیب ہے، اپنی پارسائی ظاہر کرنے کے لیے اس پر لوگوں کو ملامت نہ کرے۔ اگر کوئی لوگوں کی عام روش سے ہٹ کر الگ راستہ اپناتا ہے، تو یہ لوگوں کے دلوں کو دین کی طرف مائل کرنے کے اعلیٰ مقصد کے خلاف ہے۔ خبردار رہو! اس بات کو خوب توجہ سے سنو! کہ یہ بہت خوبصورت باریک علمی نکتہ اور حکمت کی بات ہے اور دین کے معاملے میں سلامتی اور وقار کا راستہ ہے، جس سے بہت سے خشک مزاج زاہد اور باطنی کشف کا دعویٰ کرنے والے غافل اور جاہل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے فاسدگمان میں بڑے دین دار بنتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ دین کی حکمت اور شریعت کے مقاصد سے بہت دور ہوتے ہیں، حکمت و دانش کے اس پیغام کو مضبوطی سے پکڑو، یہ چند سطریں ہیں، مگر ان میں علم کا بڑا خزانہ ہے‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد: 4، ص: 528)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں