حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما الانبیاء:107کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں: ''جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے‘ اس کے لیے دنیا اور آخرت کی رحمت لکھ دی جاتی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے‘ اس کو عذاب کی ان صورتوں سے (دنیا میں) عافیت مل جاتی ہے‘ جس طرح پچھلی امتوں پر زمین میں دھنسائے جانے اور آسمان سے سنگ باری کے عذاب نازل ہوئے‘ (جامع البیان للطبری،ج:16،ص:440)‘‘۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے: (۱) ''حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور ہادی بنا کر بھیجا ہے‘ (المعجم الکبیر للطبرانی:7803)‘‘۔ (۲)''رسول اللہﷺ نے (ایک بار) خطبے کے دوران فرمایا: میں اپنی امت میں سے کسی شخص کو برا کہوں یا غصے سے لعنت کروں تو میں بھی بنی آدم ہوں اور دوسروں کی طرح مجھے بھی غصہ آجاتا ہے‘ اللہ نے مجھے فقط رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا ہے‘ اے اللہ! قیامت کے دن اس برا کہنے کو اس کے لیے دعائے خیر بنا دے‘ (المعجم الکبیر للطبرانی:6156)‘‘۔ (۳)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں صرف رحمت ہوں جو اللہ کی طرف سے تمام کائنات کو ہدیہ کی گئی ہے‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 31782)‘‘۔ (۴) ''حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: عرض کیا گیا: یارسول اللہ! مشرکوں کے خلاف دعا فرمائیے‘ آپﷺ نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا‘ مجھے تو فقط (تمام جہانوں کے لیے) مجسم رحمت بناکر بھیجا گیا ہے، (مسلم:2599)‘‘۔
اگر کوئی یہ کہے: ''رسول اللہﷺ نے اپنے عہد کے بعض کفار پر نام لے کر ان کے خلاف دعا فرمائی تو کیا آپ کا یہ عمل اس آیت کے عموم کے منافی نہیں ہے‘‘ ، جواباً عرض ہے: ''اُن کی بابت اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو مطلع فرما دیا تھا کہ وہ دائمی طور پر ہدایت سے محروم رہیں گے‘‘، حدیث پاک میں ہے: ''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبیﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا‘ ہاں! اگر اللہ کی حدود کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کے لیے انتقام لیتے تھے‘ (بخاری:6853)‘‘۔ بعض اہلِ ایمان پر حدودِ الٰہی کا جاری کیا جانا بھی اُن کے حق میں رحمت ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو اس کے سبب اللہ تعالیٰ انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرمائے گا۔
''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: انہوں نے نبیﷺ سے عرض کی: کیا آپ کے اوپر کوئی ایسا دن بھی آیا جو آپ کے نزدیک غزوۂ اُحد کے دن سے بھی زیادہ شدید تھا‘ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری قوم سے مجھے جو مصائب پہنچے سو پہنچے اور ان تمام مصائب میں سے سب سے زیادہ سخت مصیبت وہ تھی جو مجھے عقبہ کے دن پہنچی‘ جب میں نے ابن عبد یا لیل بن عبد کلال پر اپنی نبوت کو پیش کیا تو اس نے میرے ارادے کے مطابق میری دعوت کو قبول نہیں کیا‘ میں وہاں سے بہت مغموم حالت میں چل پڑا‘ پھر جب میں قرن الثعالب پر پہنچا تو میری حالت سنبھلی‘ وہاں میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو مجھ پر ایک بادل نے سایا کیا ہوا تھا‘ میں نے غور کیا تو اس میں (حضرت) جبریل تھے‘ انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا: بے شک اللہ نے آپ کی قوم کی باتیں سن لی ہیں اور انہوں نے آپ کو جو جواب دیا ہے‘ وہ بھی سن لیا ہے اور اللہ نے آپ کی طرف پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپ اس کو ان لوگوں کے متعلق جو چاہیں حکم دے دیں‘ پھر مجھ کو پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی‘ اس نے مجھ کو سلام کیا اور کہا: اے محمد! اگر آپ چاہیں تو جن دو پہاڑوں کے درمیان یہ لوگ ہیں‘ ان دو پہاڑوں کو آپس میں ملادوں (جس سے یہ ان کے درمیان پِس جائیں)‘ آپﷺ نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ اللہ ان لوگوں کی پشتوں سے ایسے لوگوں کو نکالے گا جو صرف اللہ وحدہٗ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں کریں گے‘ (صحیح البخاری:3231)‘‘۔
قرآنِ کریم میں بعض صفات جو اللہ تعالیٰ کے لیے بیان کی گئی ہیں‘ وہی صفات رسول اللہﷺ کے لیے بھی بیان کی گئی ہیں‘ جیسے: رؤوف‘ رحیم ہونا‘ شاہد ہونا اور دیگر صفاتِ جلیلہ‘ کوئی یہ نہ کہے: ان میں شرک کا شائبہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتی ہیں‘ بے عطائے غیر ہیں‘ جبکہ رسول اللہﷺ کی صفات اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہیں‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''بے شک تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک عظیم رسول آگئے ہیں‘ تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر بہت گراں گزرتا ہے‘ وہ تمہاری ہدایت کے بے حد خواہش مند ہیں‘ مومنوں پر بہت مہربان‘ نہایت رحم فرمانے والے ہیں‘ (التوبہ:128)‘‘ نیز فرمایا: ''(اے رسول مکرّم!) یہ اللہ کی عظیم رحمت کا فیضان ہے کہ آپ ان (مومنوں) کے لیے نرم ہیں اور اگر آپ تند مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے اردگرد سے تتر بتر ہو جاتے‘ (آل عمران: 159)‘‘۔ اسی طرح قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کی صفات ''سمیع وبصیر‘‘ ہیں اور فرمایا: ''بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اسے آزمائیں اور اسے سمیع و بصیر بنایا،(الدہر:2)‘‘۔ قرآنِ کریم میں ''اَلْاَعْلٰی‘‘اللہ تعالیٰ کی صفت بیان ہوئی ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ''بے شک آپ ہی سربلند رہیں گے‘ (طٰہٰ:68)‘‘۔
رحمۃٌ لِلعالمینﷺ کے امتی ہونے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کے لیے رأفت و رحمت‘ کرم اور جودوسخا کا مظہر بنیں‘ افتخار عارف نے کہا ہے:
رحمتِ سید لولاک پہ کامل ایمان
امتِ سیدِ لولاک سے خوف آتا ہے
امام شعرانی نے ابن عربی رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کیا ہے: ''سہل بن عبداللہ تُستری کے پاس شیطان آیا اور کہنے لگا: بتائو! میری بخشش ہوگی یا نہیں‘ سہل نے کہا: نہیں۔ شیطان نے کہا: اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: ''میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے‘ (الاعراف:156)‘‘ اور ہر شے کے عموم میں مَیں بھی داخل ہوں تو میری مغفرت بھی ہونی چاہیے۔ سہل نے کہا: یہ مومنین کے ساتھ خاص ہے‘ تم اس کے عموم سے خارج ہو۔ شیطان نے کہا: پہلے میں تم کو عالم سمجھتا تھا‘ آج تمہارا جہل مجھ پر آشکار ہوگیا کہ تم اللہ تعالیٰ کی صفت (یعنی رحمت کے عموم) کو محدود کر رہے ہو حالانکہ تقیید اور تحدید مخلوق کی صفات میں ہوتی ہے‘ اس کی صفات غیر مقید اور لامحدود ہوتی ہیں‘ شیطان کا یہ جواب سن کر وقتی طور پر سہل حیرت زدہ ہوکر رہ گئے‘ (الکبریت الاحمر علی ہامش الیواقیت، ج:1، ص:2-3)‘‘۔
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر جو لکھا‘ اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
''اللہ تعالیٰ نے خود اس مقام پر اپنی رحمت کا مصداق رحمۃٌ للعالمینﷺ کی امت کو قرار دیا ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''(حضرت موسیٰ نے دعا کی:) اے اللہ! ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں بھی بھلائی لکھ دے‘ بے شک ہم نے تیری طرف رجوع کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں جسے چاہوں اپنا عذاب دوں اور میری رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘ پس عنقریب میں اپنی رحمت ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگار ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں‘ جو اُس عظیم رسول نبیِ اُمّی کی پیروی کریں گے جس کو وہ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں‘ جو ان کو نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے منع کرے گا‘ جو ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دے گا‘جو ان کے بوجھ اور ان کے گلوں میں پڑے ہوئے طوق اتار دے گا‘ سو جو لوگ اس پر ایمان لائے‘ اس کی تعظیم کی‘ اس کی نصرت و حمایت کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے‘ وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، (الاعراف:156-157)‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے: اللہ تعالیٰ نے رحمتِ کاملہ کی امتِ ختم المرسلینﷺ کے لیے خود تقیید و تحدید فرما دی‘ البتہ ابلیس سمیت سب کفار کے لیے ہدایت کا سامان فراہم کرنا یہ بھی اللہ کی رحمت ہی ہے‘ پس جو اس رحمت کو خود ٹھکرا دے‘ ناشکری کرے تو اس نے خود اپنے آپ کو اس سے محروم کردیا‘ یہ ایسا ہی ہے: آسمان سے بارش زرخیز‘ بنجر‘ پتھریلی اور چٹانوں والی زمین پر یکساں برستی ہے‘ نرم و زرخیز زمین اس بارش کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور اس کے ثمرات برگ و بار‘ ثمر و اشجار اور طرح طرح کی نعمتوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں لیکن پتھریلی اور چٹانوں والی زمین پانی کو جذب نہیں کرتی بلکہ بارش کا پانی بہہ کر چلا جاتا ہے اور وہ زمین اسی طرح بے فیض اور بے ثمر رہتی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کے لیے کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیّٖن‘ رحمۃٌ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی امت پر احسانِ عظیم فرمایا اور اُن انعامات و اکرامات کو اس امت کے لیے مختص فرما دیا۔ دنیا کی بھلائی سے مراد احکامِ الٰہیہ کا آسان ہونا اور آخرت کی بھلائی سے مراد عمل کی مقدار کے مقابلے میں اجر کا زیادہ ہونا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کی امت پر احکام بڑے سخت تھے جبکہ نبی آخر الزماںﷺ کی امت کے لیے احکام میں نرمی اور آسانیاں پیدا فرما دیں اور بے حساب اجر کی نوید سنائی‘ قرآنِ کریم میں فرمایا:
''جو شخص (اللہ کے پاس) ایک نیکی لے کر آئے گا‘ اس کے لیے اس جیسی دس نیکیوں کا اجر ہو گا اور جو شخص ایک برائی لے کر آئے گا‘ اس کو صرف ایک برائی کی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا،(الانعام:160)‘‘۔ نیز فرمایا: ''جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں‘ ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے جس نے سات ایسے خوشے اگائے کہ ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کے لیے چاہے‘ ان کو دگنا کر دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے، (البقرہ: 261)‘‘۔
الغرض ان آیاتِ مبارکہ میں دس گنا سے لے کر سات سو گنا اجر کی نوید سنائی گئی ہے اور جس کے لیے اللہ چاہے‘ اس کا دگنا اجر ہے لیکن بعض آیاتِ مبارکہ میں بے حساب اجر کی بھی بشارت دی گئی ہے‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''آپ کہیے: اے میرے ایمان دار بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو‘ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک کام کیے ہیں‘ ان کے لیے اچھا اجر ہے اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے‘ صبر کرنے والوں کوکسی حساب کے بغیر ان کا بھرپور اجر عطا کیا جائے گا، (الزمر:10)‘‘۔ نیز فرمایا: (۱) ''سو جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو عنقریب اس کا حساب بہت آسان ہو گا اور وہ خوشی خوشی اپنے گھر والوں کی طرف پلٹے گا‘ (الانشقاق:7--9)‘‘۔ (۲) ''پس جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ (دوسروں سے) کہے گا: لو میرا نامۂ اعمال پڑھو‘ مجھے یقین تھا کہ مجھے میرا حساب ملنے والا ہے اور وہ بلند باغات میں پسندیدہ زندگی میں ہوگا، (الحاقّۃ:19-22)‘‘۔