رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن،خَاتَمُ النَّبِیّٖن، سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی سراپا امتیاز ہے، آپﷺ کی ذاتِ مبارک اور اسوۂ حسنہ کا ہر زاویہ اور ہر عنوان اپنے اپنے شعبے میں رفعت و عظمت اور کمالات کے انتہائی اعلیٰ درجے کا حامل ہے اور مخلوق میں کسی کی بھی ان عظمتوں تک رسائی نہیں ہے۔ یہی امتیازی جہت آپﷺ کے دونوں اسمائے مبارکہ ''احمد‘‘ و ''محمد‘‘ سے بھی عیاں ہے، کیونکہ'' احمد‘‘ کے معنی: ''(اللہ کی) سب سے زیادہ تعریف کرنے والا‘‘ اور ''محمد‘‘ کے معنی: '' جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو‘‘۔ کسی کا وصف بطریقِ کمال وہی بیان کر سکتا ہے، جو اس کی رفعتوں اور حقیقتوں سے آشنا ہو اور ذاتِ مصطفی کے بارے میں یہ مقام خالقِ کائنات کا ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں یہ مقام سیدنا محمد رّسول اللہﷺ کا ہے۔ غالب نے کہا ہے:
غالبِ ثنائِ خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
ترجمہ: ''میں نے تاجدارِ کائناتﷺ کی مدح و ثنا اللہ تعالیٰ کی ذات پر چھوڑ دی ہے، کیونکہ وہی اُن کے مقام کو کماحقہٗ جاننے والا ہے‘‘۔ یہاں میں مقامِ مصطفیﷺ کے ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں: عام دستور اور شِعار یہ ہے کہ جس پر الزام لگایا جائے یا جس پر طعن کیا جائے، وہ خود اپنی صفائی پیش کرتا ہے، لیکن رسول اللہﷺ کی امتیازی شان یہ ہے کہ دشمنانِ رسالت کی طرف سے الزام سیدنا مصطفیﷺ پر لگتا ہے اور صفائی ربِ مصطفی بیان فرماتاہے۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں: (1) جب رسول اللہﷺ کے صاحبزادے حضرت قاسمؓ کا انتقال ہوا تو عاص بن وائل اور دیگر سرکردہ مشرکینِ مکہ نے آپﷺ پر ''اَبْتَرْ‘‘ یعنی نسل کا سلسلہ منقطع ہونے کاطعن کیاکہ آپﷺ کا ذکر آپ کے بعد جاری نہیں رہے گا، اس کا سبب کفار کا یہ زعم تھا کہ جب سیدنا محمد رّسول اللہﷺ دنیا سے وصال فرما لیں گے، تو کوئی اولادِ نرینہ نہ ہونے کے سبب آپﷺ کا ذکر منقطع ہو جائے گا۔ اہلِ عرب کا خیال تھا کہ ''جس کی نسل چلتی رہے، اس کا ذکر باقی رہتا ہے، ورنہ وقت گزرنے کے ساتھ نام مٹ جاتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ان طعن کرنے والوں کو جواب دیا: ''(اے حبیب کریم! آپ کا ذکر تو ہمیشہ شان وشوکت سے جاری رہے گا، ہاں!) بے شک آپ کے دشمن کا ذکر منقطع ہو جائے گا‘‘(الکوثر: 3)۔ مزید فرمایا: ''ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کر دیا‘‘ (الانشراح: 2)۔ امام احمد رضا قادری نے کہا ہے:
مٹ گئے، مٹ جاتے ہیں، مٹ جائیں گے اَعداء تیرے
نہ مٹا ہے، نہ مٹے گا، کبھی چرچا تیرا
(2) کافروں نے آپﷺ پر طعن کیا کہ جو کچھ آپ بیان کر رہے ہیں یہ ''اَضْغَا ثُ اََحْلَام‘‘ یعنی ''پریشاں خواب‘‘ ہیں، اس سے ان کی مراد بے ترتیب، بے ربط اور خلط ملط باتیں ہیں، اسی طرح انہوں نے پیغامِ مصطفیﷺ کو شاعرانہ تخیل قرار دیا۔ کبھی وہ رسالت مآبﷺ کے گفتارِ مبارک کی شیرینی اور اثر آفرینی کو جادوگری سے تعبیر کرتے اور آپﷺ پر ''سَاحِر‘‘ ہونے کا طعن کرتے تاکہ لوگ آپ سے دور رہیں اور آپ کے حلقۂ اثر میں نہ آئیں، اسی طرح بعض اوقات وہ آپﷺ کو ''کاہن‘‘ کہتے اور کبھی کہتے کہ معاذ اللہ! یہ کلام شیطان نے کا اِلقا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے ان طعنوں کے رد میں فرمایا: (الف) ''کافروں نے کہا: یہ (قرآن) پریشاں خواب ہیں، بلکہ انہوں نے خود اس کو گھڑ لیا ہے، بلکہ یہ شاعر ہیں، ان کو پہلے رسولوں کی طرح ہمارے سامنے کوئی نشانی لانی چاہیے‘‘ (الانبیاء: 5)، (ب) ''اور ہم نے اِس (نبی) کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ یہ اس کے شایانِ شان ہے، یہ کتاب تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے‘‘ (یٰسٓ: 69)، (ج) ''بے شک یہ (قرآن) ضرور رسولِ کریم کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے، تم بہت کم ایمان لاتے ہو اور نہ کسی کاہن کا قول ہے، تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو، (یہ) ربّ العٰلمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے‘‘ (الحاقہ: 40 تا 43)، (د) ''اور یہ شیطانِ مردود کا کلام نہیں ہے، پھر کدھر (بہکے) جا رہے ہو، یہ تو تمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہے، تم میں سے ہر اس شخص کے لیے جو راست روی کا خواہاں ہو‘‘ (التکویر: 25 تا 29)۔
(3) کفار کبھی آپﷺ کو معاذاللہ! مجنون کہتے، اللہ تعالیٰ نے اُن کے ردّ میں فرمایا: (الف): ''نٓ، قلم کی قسم اور اس کی جو (فرشتے) لکھتے ہیں، (اے رسولِ مکرم!) آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں، بے شک آپ کے لیے لامحدود اجر ہے اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں، پس عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون مجنون تھا‘‘ (القلم: 1 تا 6)۔ (ب) ''اور وہ کہتے ہیں کہ یہ مجنون ہیں، حالانکہ یہ تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے‘‘ (القلم: 51 تا 52)۔
(4) کفار کا ایک اعتراض یہ تھا کہ دوسری الہامی کتابوں کی طرح قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے بیک وقت نازل کیوں نہ کیا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''ہم نے یونہی اسے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ اِس سے آپ کے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے اِسے وقفے وقفے سے تلاوت فرمایا ہے‘‘ (الفرقان: 32)۔ یعنی بتدریج قرآن کے نزول کی حکمت یہ ہے کہ ایک تو رسول اللہﷺ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ نامہ و پیام کا سلسلہ جاری رہے، آپﷺ کے دل کو قرار و ثبات نصیب ہو اور اللہ تعالیٰ کے نورانی کلام کی تجلیات و اَسرار سے آپﷺ کے قلب کو تقویت حاصل ہوتی رہے۔
(5) ایک صورتِ حال یہ رونما ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے کچھ وقفے کے لیے نزولِ وحی کا سلسلہ موقوف فرما دیا، اس سے مشرکین نے طعن کیا کہ آپ کے رب نے آپ کو چھوڑ دیا ہے، یعنی نزولِ وحی کا موقوف ہونا معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے ردّ میں فرمایا: ''(اے حبیب!) آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا ہے، ہر آنے والا لمحہ آپ کے لیے گزشتہ سے بہتر ہے اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘ (الضحیٰ: 3 تا 5)۔ امام احمد رضا قادری نے انہی آیات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:
خدا کی رِضا چاہتے ہیں دوعالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
(6) سابق انبیائے کرام کی شریعتوں میں غنیمت اور صدقات کے مال سے لوگوں کو استفادے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ان صدقات کو کھلے میدان میں رکھ دیا جاتا، اگر وہ صدقہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتا تو آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا ڈالتی اور اگر وہ صدقہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ردّ ہو جاتا، تو آسمانی آگ اسے نہ جلاتی۔ اس سے صدقے کے قبول یا ردّ ہونے کا لوگوں کو پتا چل جاتا اور جس کا صدقہ ردّ ہوتا، اس کی رسوائی ہوتی۔ قرآن نے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی قربانی پیش کرنے، ایک کی ردّ ہونے اور دوسرے کی قبول ہونے کا ذکر سورۂ مائدہ کی آیات 27 تا 31 میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اسی بنا پر یہودِ مدینہ نے آپﷺ سے مطالبہ کیا کہ آپ بھی اس طرح کی قربانی پیش کریں، اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا: ''جن لوگوں نے کہا: اللہ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ ہم اس وقت تک کسی رسول پر ایمان نہ لائیں تاوقتیکہ وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی پیش کرے جس کو آگ کھا جائے، (اے رسول!) کہہ دیجیے! مجھ سے پہلے تمہارے پاس کئی رسول بہت سی واضح نشانیاں لے کر آئے اور یہ نشانی بھی جس کا تم نے مطالبہ کیا ہے، اگر تم سچے ہو تو تم نے انہیں کیوں قتل کیا؟‘‘ (اٰل عمران: 183)۔
(7) منافقین اور یہود نے تحویلِ قبلہ کے وقت اعتراض کیا کہ کبھی اِن کا رخ بیت المقدس کی جانب اور کبھی بیت اللہ کی جانب ہوتا ہے، ان کی بات کا کیا اعتبار؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے ردّ میں فرمایا: ''عنقریب بیوقوف لوگ کہیں گے کہ اِن (مسلمانوں) کو اِن کے اُس قبلے سے جس پر وہ تھے، کس نے پھیر دیا، کہہ دیجیے: مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں، وہ جس کو چاہتا ہے، صراطِ مستقیم پر چلاتا ہے‘‘ (البقرہ: 142)۔
بجائے اِس کے کہ رسول اللہﷺ اُن کے اعتراض کا خود جواب دیتے، سترہ ماہ تین دن تک بیت المقدس کی جانب نماز پڑھے جانے اور پھر تبدیلیِ قبلہ کا حکم آنے کا سبب بیان فرماتے، اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حکمت بیان فرما دی: ''(اور اے رسول!) جس قبلے پر آپ پہلے تھے، ہم نے اُسے اس لیے مقرر فرمایا تھا تاکہ جو لوگ رسول کی پیروی کرتے ہیں، ہم انہیں اُن لوگوں سے ممتاز کر دیں جو الٹے پائوں واپس (کفر کی جانب) پلٹ جاتے ہیں اور بے شک یہ (تحویلِ قبلہ) ضرور بہت بھاری ہے، سوائے اُن لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت عطا فرمائی ہے‘‘ (البقرہ: 143)، یعنی عارضی طور پر بیت المقدس کو قبلہ بنانے اور پھر تحویل قبلہ کے ذریعے حتمی اور قطعی طور پر بیت اللہ کو قبلہ قرار دے کر مخلص مومنوں کو منافقوں اور یہود سے ممتاز کرنا مقصود تھا۔ کیونکہ مومن کی نظر میں حقانیت کا معیار رسول اللہﷺ کی غیر مشروط اطاعت ہے، حق کی معرفت کا مدار عقل پر نہیں، بلکہ وحیِ ربانی پر ہوتا ہے اور مَہبطِ وحیِ ربّانی ذاتِ پاکِ مصطفیﷺ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے، جس کو جبریلِ امین لے کر آپ کے قلبِ (اطہر) پر نازل ہوئے تاکہ آپ (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں، (یہ) واضح عربی زبان میں ہے‘‘ (الشعرا: 192 تا 195)۔ الغرض منافق یہ اعتراض کریں گے کہ جو شخص آئے روز قبلہ تبدیل کرے، اس کی بات کا کیا اعتبار ہے، مگر مومنِ کامل کسی تردُّد کے بغیر سراپا تسلیم و رضا بن جائے گا اور اطاعتِ مصطفی کرے گا، کیونکہ معرفتِ حق کا منبع رسولِ کریمﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔