"MMC" (space) message & send to 7575

کینیڈا میں پانچ دن

میں نے اسلامک سپریم کونسل آف کینیڈا (ISCC) کی دعوت پر 27 تا31 اکتوبر‘ پانچ دن کینیڈا کے شہر وینکور (Vancouver) میں گزارے۔ وہاں اسلامک ایسوسی ایشن آف ویسٹرن کینیڈا کے زیرِ اہتمام 28 اکتوبر کو دوسری سالانہ کانفرنس کا انعقاد تھا۔ 27 اکتوبر کو '' فجی اسلامک سوسائٹی آف کینیڈا (FISC)‘‘ کے زیرِ اہتمام قائم اسلامک سنٹر کی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھائی، اسی رات کو اس سنٹر میں جلسۂ عام سے خطاب کیا۔ ہفتہ 28 اکتوبر کو ''تاج محل کنونشن سنٹر‘‘ میں دوسری سالانہ کانفرنس میں شرکت کی اور کلیدی خطاب کیا۔ اس کانفرنس میں انگلینڈ سے ڈاکٹر مشرف حسن اور امریکہ سے علامہ مقصود قادری بھی تشریف لائے ہوئے تھے، اس کے علاوہ کینیڈا میں خدمات انجام دینے والے اہلسنّت اور دوسرے مکاتب فکر کے ممتاز علمائے کرام بھی شریک ہوئے۔ اسلامک سپریم کونسل آف کینیڈا کے سرپرستِ اعلیٰ جناب پروفیسر امام سید بدیع الدین سہروردی ہیں۔ یہ علامہ سید ریاض الدین سہروردی مرحوم کے صاحبزادے ہیں، ان کے نیٹ ورک میں پورے کینیڈا میں تقریباً 28 مساجد قائم ہیں اور اب کیلگری میں ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا ہے، اس کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہو چکی ہے، اسے سکول ایجوکیشن سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک لے جانے کا ارادہ ہے۔ اسلامک ایسوسی ایشن آف ویسٹرن کینیڈا کے صدر جناب محمد ارجمند طاہر ہیں، ان کے زیرِ اہتمام جامع مسجد اولیاء اللہ ''سری‘‘ میں تکمیل کے قریب ہے اور امید ہے کہ رمضان المبارک سے پہلے اس جامع مسجد کا باقاعدہ افتتاح ہو گا۔ یہ ایک کثیر المقاصد منصوبہ ہے، اس میں مسلمانوں کی میتوں کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے انتظامات کے ساتھ ساتھ سماجی تقریبات کی بھی گنجائش رکھی جائے گی۔ پیر کو جامع مسجد ''سری‘‘ میں خطاب کا موقع ملا۔
براعظم شمالی امریکہ دو بڑے ممالک کینیڈا اور امریکہ پر مشتمل ہے، رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک روس، دوسرا بڑا ملک کینیڈا اور تیسرا بڑا ملک چین اور چوتھا بڑا ملک امریکہ ہے۔ کینیڈا اور امریکہ دو سمندروں بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean) اور بحر الکاہل (Pacific Ocean) کے درمیان واقع ہیں، بحر الکاہل پر امریکہ کا شہر سان فرانسسکو اور اس کے بالمقابل کینیڈا کا شہر وینکور ہے۔ کینیڈا کی آبادی تقریباً تین کروڑ ستاسی لاکھ ہے، رقبے کے تناسب سے فی مربع کلومیٹر چار نفوس آتے ہیں، اس کی برآمدات میں زرعی اجناس بھی شامل ہیں اور پاکستان بھی دالیں وغیرہ کینیڈا سے درآمد کرتا ہے، کراچی کا نیوکلیئر پاور پلانٹ (KANUPP) 1965ء میں کینیڈا کی مدد سے بنایا گیا تھا۔ کینیڈا چونکہ برطانیہ کی نوآبادی رہا ہے، اس لیے دولتِ مشترکہ کا ممبر ہے اور دستوری طور پر تاجِ برطانیہ کے ماتحت ہے۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ دولتِ مشترکہ کے سفیروں کو ہائی کمشنر کہا جاتا ہے۔
اتوار 29 اکتوبر کو ہمارے میزبان ادارے نے علماء و مشایخ اور مندوبین (Delegates) کے لیے شہر کی سیاحت کا اہتمام کیا تھا، اس میں وینکور کے تمام سیاحتی مقامات کو دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ شہر کینیڈا کے صوبہ ''برٹش کولمبیا‘‘ کا خوبصورت ترین شہر ہے اور شاید دنیا کے خوبصورت شہروں میں سے ایک ہے۔ مرکزی شہر (Down Town) میں سمندر کے کنارے ایک مقام Canada Place ہے جو خوبصورت عمارتوں کا مجموعہ ہے۔ یہ بندرگاہ ہے، بڑی تعداد میں سیاحتی اور تجارتی بحری جہاز سمندر میں کھڑے دیکھے۔ ایک تجربہ جو میرے لیے زندگی میں پہلی بار تھا کہ ہوائی جہاز کو سمندر پر لینڈ کرتے ہوئے اور بحری رن وے پر پرواز کے لیے اڑتے ہوئے یعنی Take off کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ دس بارہ سیٹوں کے جہاز تھے، ان کے نیچے کشتی لگی ہوئی ہے اوران جہازوں کے ذریعے سیاحوں کو وینکور شہر کا فضائی نظارہ کرایا جاتا ہے۔ مغربی وینکور کا ایک خوبصورت سیاحتی مقام Cypress Mountain ہے، سمندر کے ایک طرف بہت بڑا پارک ہے جسے ''Stanley Park‘‘ کہا جاتا ہے، یہ ایک شخص کی ذاتی ملکیت تھا اور اُس نے اسے ایک سیاحتی مقام کے طور پر وقف کر دیا، اس لیے وہاں عمارتیں نہیں بنائی جا سکتیں۔ اس کا رقبہ تقریباً چار ہیکٹر ہے۔ کہا جاتا ہے: وینکور دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں سے ایک ہے۔
میں نے کنونشن میں اپنے خطاب کے دوران کہا: ''مغرب میں بعض لوگ لامذہب ہیں، وہ کسی مذہب کے قائل نہیں ہیں، جرمنی کے فلاسفر نطشے نے کہا تھا: ''(العیاذ باللہ!) خدا مر چکا ہے‘‘ اور چند برس پہلے وفات پانے والے ماہر طبعیات سٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا: ''میں نے کائنات کا مشاہدہ کیا، آخر میں ایک بلیک ہول آتا ہے،جو چیز اس میں جاتی ہے، اس کا پتا نہیں چلتا اور نہ اس کی انتہا کی بابت کچھ معلوم ہے‘‘۔ اُس نے کہا تھا: ''(العیاذ باللہ!) مجھے خدا کہیں نظر نہیں آیا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے: اُن کے نزدیک العیاذ باللہ! خدا ایک مادّی وجود کا نام ہے، جسے وہ اپنے حواس سے محسوس کر سکیں یا انسانی عقول اس کا احاطہ کر سکیں، جبکہ قرآنِ کریم میں اللہ کا فرمان ہے: ''آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب آنکھوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘‘ (الانعام: 103)۔ بصارت آنکھ کی بینائی کو کہتے ہیں، اس کی جمع ''اَبْصَار‘‘ ہے اور بصیرت عقل ودانش کو کہتے ہیں اور اس کی جمع ''بَصَائِر‘‘ ہے، الغرض دونوں کا مادّہ (حروفِ اصلی ) ایک ہے، انسان کی نگاہوں اور عقلوں کی رسائی محدود ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات لامحدود ہے، نہ اس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ انسانی نگاہیں یا عقول اس کا احاطہ کر سکیں۔ کسی صاحبِ نظر نے کہا تھا:
تو دل میں تو آتا ہے‘ سمجھ میں نہیں آتا
میں جان گیا‘ تیری پہچان یہی ہے
جو لوگ مسیحیت کے ماننے والے ہیں، وہ بھی علامتی طور پر ہیں، وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مذہب کی ہدایات کے تابع نہیں ہیں، خاص طور پر نظمِ اجتماعی اور حکومتی و ریاستی نظام سے مذہب کو خارج کر دیا ہے۔ اگرچہ ڈالرکے نوٹ پر لکھا ہوتا ہے: ''In God We Trust‘‘، لیکن عملاً وہ ''لاخدائی نظام‘‘ کے قائل ہیں۔ ان کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفع و نقصان کا فیصلہ انفرادی، اکثری یا اجتماعی دانش سے خود کرے گا اور ایل جی بی ٹی پلس اسی فلسفے کی پیداوار ہے۔ اسی طرح وہ مذہبی بنیاد پر کسی چیز کی حِلّت و حُرمت کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا مذہب Humanism ہے، یعنی انسان خود ہی ''عابد‘‘ ہے اور خود ہی ''معبود‘‘۔ اسی طرح Feminism کا نظریہ ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: ''تمام جنسی صنفیں یکساں حقوق اور یکساں مواقع کا استحقاق رکھتی ہیں‘‘۔ یہ بظاہر خواتین کو اپنے حقوق کا احساس دلانے اور انہیں بااختیار بنانے کی تحریک ہے، لیکن اس تحریک نے عورت کو تماشا گاہِ عالَم اور ایک کھلونا بنا دیا ہے، آزادی کے نام پر اُس سے عفت و حیا اور سَتر و حجاب کو چھین لیا ہے، جو دراصل نسوانیت کے وقار کی علامت ہے۔
میں نے کہا: ''کہنے کو یہ تہذیبِ جدید ہے، لیکن اس میں کچھ بھی جدید نہیں ہے، یہ قدیم ابلیسی تہذیب کا جدید ایڈیشن ہے، ہیئتیں بدلتی رہتی ہیں، لیکن حقیقت ایک رہتی ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا: ''پس شیطان نے انہیں (آدم وحوا علیہما السلام کو) اُس (ممنوعہ) درخت کے ذریعے لغزش میں مبتلا کیا اور (ناز و نِعَم کی اُس جنت سے) نکال دیا، جہاں وہ رہتے تھے‘‘ (البقرہ: 36)۔ یعنی شیطان جنت سے ان کے اخراج کا سبب بنا اور شیطان کے بہکانے، ورغلانے اور پُھسلانے کا ایجنڈا وہی تھا جو آج کی جدید مغربی تہذیب کے علمبرداروں کا ہے، یعنی برہنگی، بے حیائی اور جسم کی نمائش۔ نیز یہ سب کچھ وہ خیر خواہی کے روپ میں کر رہا تھا اور قسمیں کھا کر یقین دلا رہا تھا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''اور اس نے کہا: (تمہارے رب نے) تمہیں اس درخت سے اس لیے منع کیا تھا کہ تم (اِس کا پھل کھا کر) فرشتے بن جائو گے یا تمہیں ابدی زندگی مل جائے گی اور اس نے قسمیں کھا کر ان دونوں کو یقین دلایا: میں تمہارا ''خیرخواہ‘‘ ہوں، اس طرح شیطان نے انہیں دھوکا دے کر (اُس درخت کا پھل کھانے پر) تیار کر لیا، پھر جب انہوں نے اُس درخت کا ذائقہ چکھ لیا تو اُن کا ستر اُن پر منکشف ہو گیا اور وہ (بے اختیار) اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے، اُن کے ربّ نے انہیں پکار کر فرمایا: کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تمہیں نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے‘‘ (الاعراف: 20 تا 22)۔
غور کیجیے! آج اس تہذیبِ جدید کی روح وہی برہنگی، بے حیائی اور عفت کا جنازہ ہے، جبکہ آدم و حوا علیہما السلام اور آدمیت کی فطرت عِفّت، حیا اور ستر پوشی ہے، الغرض ایجنڈا وہی قدیم ہے، صورتیں اور تعبیریں جدید ہیں، لیکن اس تہذیبِ نَو کا جوہر اور روح وہی قدیم ہے، حربہ بھی وہی ہے، انداز بھی وہی ہیں، شکار بھی وہی ہے اور نتیجہ بھی وہی ہے۔ الغرض ابلیسی تہذیب کا ''ہیولیٰ‘‘ وہی ہے، صورتِ جسمیہ اور پیرہن بدلتے رہتے ہیں، اسی دنیا میں لذتِ جنس، لذتِ نظر، لذتِ سمع اور لذتِ کام و دہن سے لطف اندوز ہونا ان کی معراج ہے۔ اس سیلابِ بلاخیز کے آگے آپ کو بند باندھنا ہے اور بلاشبہ یہ دشوار ترین امر ہے۔ ''میرا جسم، میری مرضی‘‘ اس کا نیا پُرکشش عنوان ہے، یعنی مخلوق اپنے وجود پر خالق کی حکمرانی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ سراپا بغاوت پر آمادہ ہے۔ جدید الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اس کا زہریلا ہتھیار ہے، اس کی زد سے بچ نکلنا کارِ دشوار ہے۔ جب انسان اپنے چھ فٹ کی قامت و جسامت پر اپنے خالق ومالک کی حکمرانی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، تو پورے نظام پر کیسے آسانی سے تسلیم کر لے گا۔ اُس کا دوسرا پُرکشش نعرہ اِباحتِ کُلّی (Total Permissiveness) ہے، یعنی ہر چیز جائز ہے تاوقتیکہ ہماری انفرادی یا اکثری یا اجماعی عقل اُس کے ضرر رساں ہونے کا فیصلہ نہ کر دے، اس میں کسی الٰہی ہدایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یعنی وحیِ ربانی کو عقلِ انسانی پر حاکم ماننے کے بجائے عقلِ انسانی کو وحیِ ربانی (Revelation) یا الٰہی ہدایت پر حاکم مان لیا گیا ہے اور یہ اسلام کی ضد ہے۔ اس میں کسی مفاہمت یا مقاربت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ :
باطل دوئی پسند ہے‘ حق لا شریک ہے
شرکتِ میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
باطل کے سو چہرے، سو تاویلات اور سو توجیہات ہو سکتی ہیں، جبکہ حق کا چہرہ ایک ہی ہوتا ہے، قطعی اور مبنی برحق تعبیر ایک ہی ہوتی ہے، اس میں سودے بازی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ چنانچہ جدید دور کی ایک مہم ''وحدتِ اَدیان (Unity of Religions) ہے کہ سب مذاہب کی بے ضرر اور بے عمل چیزوں کو یکجا کر کے ایک تخیلاتی ہیولیٰ تیار کرلیا جائے تاکہ موم کی اس ناک کو جو جس طرف موڑنا چاہے‘ موڑ سکے، دین حاکم بننے کے بجائے خواہشِ نفس کے تابع ہو جائے اور مسلمان کے لیے یہ صورتِ حال قبول کرنا ناممکن ہے۔ سورۃ الکافرون بتاتی ہے کہ کفار مکہ کا ایجنڈا بھی وحدتِ ادیان تھا، الغرض آدمیت و ابلیسیت، چراغِ مصطفوی اور شرارِ بولہبی کا معرکہ ازل سے تا امروز جاری ہے اور جاری رہے گا، لیکن یہ ایجنڈا حسین غلاف میں ملفوف ہے۔ شاعر نے کہا ہے:
کسے خبر تھی کہ ہاتھ میں لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں بھر میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
گویا ''شرارِ بولہبی‘‘ کو ''چراغِ مصطفوی‘‘ کا عنوان دے کر قابلِ قبول بنانے کی سعیِ مذموم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں