(13) شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''اگر کسی سے اپنی کوئی حاجت اور ضرورت بیان کرنی ہو تو ادب اور سلیقے سے بیان کرنا چاہیے، چنانچہ ایک بادشاہ نے ایک پارسا سے پوچھا: وقت کیسے کٹ رہا ہے؟ کہا:
ہمہ شب در مناجات و سحردر دعائے حاجات
وہمہ روز در بندِ اخراجات
ترجمہ: رات اللہ کے حضور مناجات میں، سحردعائے حاجات میں اور سارا دن فکرِ معاش میں گزر جاتا ہے۔ بادشاہ اشارے کو سمجھ گیا اور کہا: اس کا وظیفہ مقرر کر دو تاکہ عیال کا بوجھ اُس کے دل سے اُٹھ جائے اور بے فکری سے اللہ کی یاد میں لگا رہے‘‘۔
(14) فرماتے ہیں: ''اپنے دُکھ اور نقصان کا ذکر دوستوں کے سوا کسی سے نہیں کرنا چاہیے، دشمنوں کو سُنانے سے نقصان تو پورا نہیں ہوتا، البتہ اُنہیں خوش ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایک تاجر کو ہزار دینار کا خسارہ ہوا، بیٹے سے کہنے لگا: کسی سے ذکر نہ کرنا، بیٹے نے پوچھا: اس بات کو چھپانے میں مصلحت کیا ہے؟ جواب دیا:
گفت تا مصیبت دو نہ شود
یکے نقصان مایہ، دیگر شماتتِ ہمسایہ
ترجمہ: ''کہا: اس لیے کہ مصیبت دوچند نہ ہو جائے کہ ایک تو مالی نقصان ہوا اور دوسری (بدخواہ) ہمسائے کی خوشی‘‘۔
(15) فرماتے ہیں: اگر کسی کی سرشت اور فطرت میں صلاحیت و قابلیت نہ ہو تو تعلیم و تربیت کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی جہالت و حماقت مزید بڑھ جاتی ہے، چنانچہ ایک وزیر نے اپنا ایک نہایت نالائق، کم فہم اور کند ذہن لڑکا ایک دانشمند کے پاس تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا، وہ مدتوں وہاں رہا، لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا، بالآخر اُستاد نے لڑکے کو یہ پیغام دے کر واپس بھیج دیا کہ یہ تو عاقل نہ بن سکا، البتہ اس نے مجھے پاگل کر دیا ہے:
ہیچ صیقل نکو نداند کرد؍ آہنے را کہ بد گہر باشد
سگ بہ دریائے ہفت گانہ بشو ؍ چونکہ تر شد، پلید تر باشد
خرِ عیسیٰ گرش بہ مکہ برند؍ چوں بیاید، ہنوز خر باشد
ترجمہ: ''اگر لوہا ناقص ہو توکوئی پالش یا گھِسانا اُسے چمکا نہیں سکتا، کتے کو بے شک سات سمندروں میں نہلائو، وہ جتنا بھیگے گا اتنا ہی پلید ہوتا جائے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا گدھا اگر مکہ بھی پہنچ جائے، وہ جب بھی واپس آئے گا تو گدھا ہی رہے گا‘‘۔ حضرت سلطان باہوؒ نے کہا ہے:
جے رب ناتیاں دھوتیاں ملدا، تاں ملدا ڈَڈواں مچھیاں ھُو
جے رب لمیاں والاں ملدا، تاں ملدا بھیڈاں سسیاں ھُو
جے رب راتیں جاگیاں ملدا، تاں ملدا کال کڑچھیاں ھُو
جے رب جتیاں ستیاں ملدا، تاں ملدا ڈانداں خصیاں ھُو
رب اوہناں نوں ملدا باہوؔ، نیتاں جنہاں اچھیاں ھو
ترجمہ: ''سلطان باہو کہتے ہیں: اگر محض نہانے دھونے سے رب مل جاتا، (جیساکہ ہندو گنگا جمنا میں اَشنان کر کے سمجھتے ہیں کہ وہ پَوِتر یعنی پاک ہو گئے) تو ہر وقت پانی میں تیرنے والی مچھلیوں اور مینڈکوں کو رب ضرور مل جاتا‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ''اگر ربّ لمبی زلفوں والوں کو ملتا تو بھیڑ بکریوں کو ملتا۔ اگر محض راتوں کو جاگتے رہنے سے رب ملتا تو چمگاڈروں کو مل جاتا‘‘۔ نیز وہ کہتے ہیں: ''اگر ربّ جنسی خواہشات سے پرہیز کرنے والوں کو ملتا تو خصی بیلوں کو مل جاتا‘‘۔ خلاصۂ کلام کے طور پر سلطان باہو کہتے ہیں: رب سے وصال کے لیے ظاہری اعمال کے حُسن کے ساتھ ساتھ نیّت کا خالص اور پاکیزہ ہونا ضروری ہے، پاک بدن کے ساتھ ساتھ روح کی پاکیزگی بھی نجات کے لیے ضروری ہے، نیز تقویٰ کا معیار وہی ہے جو شریعت نے مقرر کیا ہے، شریعت کی راہ سے ہٹ کر کوئی معیار اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ہے:
''حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: تین افراد ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجرات کی طرف آئے اور ان سے آپﷺ کی عبادت کے معمولات کے بارے میں سوال کرنے لگے، پس جب امہات المؤمنینؓ نے انہیں آپﷺ کے (روز و شب کی عبادت کے) معمولات بتائے، تو انہوں نے اپنی دانست میں اُن کو کم سمجھا اور کہا: کہاں ہم اور کہاں نبیﷺ !(یعنی ہمیں اس سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے)، آپﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے مغفرتِ کُلّی کی سند عطا کر رکھی ہے۔ پس ان میں سے ایک نے کہا: اب میں ہمیشہ ساری رات نوافل پڑھا کروں گا اور بالکل نہیں سوئوں گا، دوسرے نے کہا: اب میں ہمیشہ نفلی روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ نہیں چھوڑوں گا، تیسرے نے کہا: میں کبھی شادی نہیں کروں گا، (یعنی تجرّد کی زندگی گزاروں گا تاکہ ہر وقت عبادت میں مشغول رہوں، نہ بیوی بچوں کا جھنجھٹ ہو اور نہ ان کی فرمائشیں)۔ دریں اثنا رسول اللہﷺ اُن کی طرف تشریف لائے اور (ان کی باتوں کا حوالہ دے کر) فرمایا: تمہی وہ لوگ ہو جنہوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں، سنو! واللہ! مجھ سے بڑھ کر نہ کسی کے دل میں خشیتِ الٰہی ہے اور نہ مجھ سے کوئی بڑا متقی ہے، لیکن (میرا معمول یہ ہے کہ) میں نفلی روزے بھی رکھتا ہوں اور کبھی چھوڑ بھی دیتا ہوں، رات کا کچھ حصہ نوافل پڑھتا ہوں اور کچھ دیر کے لیے سو بھی جاتا ہوں اور میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھے ہیں، (پس یہی میرا شِعارتقویٰ ہے)، سو جو میری سنت سے اعراض کرے گا، وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘ (صحیح بخاری: 5063)۔
(16) فرماتے ہیں: ''اگر کوئی جاہل اور کمینہ خصلت انسان اپنی چرب زبانی سے کسی عالم پر غالب آ جائے اور اُس کا ناطقہ بند کر دے تو کوئی تعجب کی بات نہیں، اگر سونے کا پیالہ ٹوٹ بھی جائے تو بھی پتھر کی قیمت زیادہ اور سونے کی قیمت کم نہیں ہو گی اور وہ جاہل یہ نہ سمجھے کہ میں نے اُسے نیچا دکھا دیا، کیونکہ بربط کی آواز ڈھول کی ڈھم ڈھم کے آگے سنائی نہیں دیتی اور مُشکِ عبیر کی خوشبو لہسن کی بو کے آگے ماند پڑ جاتی ہے‘‘۔
(17) فرماتے ہیں: ''جوہر اگر درخِلاب اُفتد، ہماں نفیس است، وغبار اگر برفلک رود ہماں خسیس است‘‘، یعنی موتی اگر کیچڑ میں گر جائے تو بھی نفیس رہتا ہے اور غبار خواہ آسمان پر پہنچ جائے تو بے توقیر ہی رہتا ہے۔
(18) فرماتے ہیں: ''مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘، یعنی مشک وہ ہے جو خود خوشبو دے اور بتا دے کہ میں مشک ہوں، نہ کہ عطر فروش کہے کہ یہ مشک ہے، پس عقل مند انسان عطار کی ڈِبیا کی مانند خاموش ہوتا ہے، لیکن خوشبوکی مانند اُس سے کمالات اور صلاحیتوں کا ظہور ہوتا رہتا ہے، جبکہ جاہل بازی گر کے ڈھول کی مانند بلند آواز ہوتا ہے، لیکن اندر سے خالی ہوتا ہے۔
(19) نیز فرماتے ہیں: ''نصیحت اَز دشمن پذیر فتن خطا ست، لیکن شُنیدن رَوا ست کہ بخلاف آں کارکنی کہ عین صواب است‘‘، یعنی بدخواہ دشمن کا مشورہ قبول کرنا خطا ہے، لیکن سُننا روا ہے تاکہ اس کے خلاف بہترین حکمت عملی اپنائی جا سکے کہ یہی صحیح راستہ ہے۔
(20) فرماتے ہیں: ''تاکار بَزَر می آید، جاں در خطر افگندن نشاید،عرب گوید: آخِرُ الْحِیَلِ السَّیْفُ‘‘، یعنی جب تک مال و زَر سے کام نکل سکتا ہو، جان کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے، عربی کا مقولہ ہے: تلوار سب سے آخری تدبیر ہے۔
(21) فرماتے ہیں: ''ہر کس را عقلِ خود بکمال و فرزندِ خود بجمال نماید‘‘، یعنی ''ہر شخص کو اپنی عقل کامل اور اپنا بیٹا خوبصورت نظر آتا ہے‘‘، لیکن اس کا فیصلہ دوسرے کرتے ہیں، انسان اپنا منصف خود نہیں بن سکتا۔
شیخ سعدی فرماتے ہیں: ''انسان اپنی فطرت سے کبھی باز نہیں آتا، مشہور کہاوت ہے: جبل گردد جِبِلِّے نہ گردد، یعنی پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے، لیکن فطرت کا بدلنا مشکل ہے‘‘۔ شیخ سعدی کا یہ قول ایک حدیث پاک کا مفہومی ترجمہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے، تو تصدیق کر لو (کہ ایسا ممکن ہے) اور جب تم سنو کہ ایک شخص کی فطرت بدل گئی ہے تو اس کی تصدیق نہ کرو، کیونکہ وہ پلٹ کر اپنی جِبلّت کی طرف ہی آئے گا‘‘ (مسند احمد: 27499)۔
(22) شیخ سعدی فرماتے ہیں: ''اگر کسی پر اُس کا عیب ظاہر کرنا ہو تو ادب اور سلیقے سے ظاہر کرنا چاہیے کہ اُس پر گراں نہ گزرے، چنانچہ ایک موذن کی آواز اس قدر مکروہ تھی کہ جب اذان دیتا تو لوگ کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے، مسجد کا متولی ایک نیک خصلت انسان تھا جو نہیں چاہتا تھا کہ اس کا دل رنجیدہ ہو، سو اس نے موذن سے کہا: اے جواں مرد! اس مسجد کے چند قدیمی موذن ہیں، جنہیں میں پانچ دینار وظیفہ دیتا ہوں، تمہیں دس دینار دیتا ہوں تم کہیں اور چلے جائو، وہ موذن خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا، چند دنوں کے بعد وہ واپس آگیا،کہنے لگا: آپ نے میرے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مجھے دس دینار دے کر فارغ کر دیا ہے، اب میں جس جگہ موجود ہوں، وہ میرے پیچھے پڑگئے ہیں اور کہتے ہیں: بیس دینار لو اور یہاں سے چلتے بنو، متولی ہنس کر کہنے لگا: خبردار! بیس پر فیصلہ نہ کرنا، دو چار اذانیں اور دو، وہ پچاس پر راضی ہو جائیں گے‘‘۔
(23) شیخ سعدی فرماتے ہیں: ''میں بچپن میں رات بھر عبادت و تلاوت کیا کرتا تھا، ایک مرتبہ اپنے والد کے ساتھ مسجد میں مصروفِ عبادت تھا اور ایک گروہ ہمارے اردگرد خراٹے لے رہا تھا، میں نے والد سے کہا: یہ لوگ کس قدر بد نصیب ہیں کہ اللہ کو بھول کر سوئے ہوئے ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا مر چکے ہیں، میرے والد نے کہا: ''اگر تو نیز بخفتی ازاں بہ کہ دو پوستین خلق افتی، اے جانِ پدر!‘‘ اگر تم بھی سوئے رہتے تو یہ اس سے بہتر تھا کہ لوگوں کے کپڑے تار تار کرتے (یعنی غیبت نہ کرتے)۔
(24) تقدیر و تدبیر کی بابت فرماتے ہیں: ایک گدھ نے چیل سے کہا: میری نظر اتنی تیز ہے کہ زمین پر رینگتی ہوئی ایک چیونٹی تک مجھے نظر آ جاتی ہے، وہ دیکھو بیابان میں ایک دانہ پڑا ہے، جو مجھے یہاں سے نظر آ رہا ہے، یہ کہہ کر گدھ دانے کی طرف جھپٹا اور دام میں پھنس کر رہ گیا:
شنیدم کہ می گفت وگردن بہ بند
نہ باشد حذر باقدر سود مند
ترجمہ: ''سناہے: گردن پھنسنے کے بعد وہ گدھ یہ کہتا پایا گیا: ''تقدیر کے سامنے کوئی تدبیر نہیں چل سکتی‘‘۔ (جاری)