"MMC" (space) message & send to 7575

معارفِ سعدی …(حصہ پنجم)

(29) شیخ سعدی کہتے ہیں: ''ایک شیخ طریقت سے سوال ہوا: ''تصوف کی حقیقت کیا ہے‘‘، انہوں نے کہا: ''گزشتہ زمانے میں تو صوفیہ ایسا گروہ تھا جو پراگندہ حال نظر آتے تھے، لیکن ان کا دل قرار و سکون اور اطمینان کی دولت سے مالا مال ہوتا تھا، اب جو بناوٹی صوفی ہیں، بظاہر پُرکشش نظر آتے ہیں، لیکن ان کے دل اطمینان و قرار کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں‘‘، وہ فرماتے ہیں:
چوں ہر ساعت از تو بجائے رود دل
بہ تنہائی اندر صفائے نہ بینی
ورت مال و جاہ است و زرع و تجارت
چو دل باخدایست خَلوت نشینی
مفہومی ترجمہ: ''اگر ہر وقت تیرا دل ہر سُو بھٹکتا پھرے، توخَلوت میں بھی وہ باطنی نور سے محروم رہے گا، ورنہ خواہ مال و جاہ اور زراعت و تجارت کے مشاغل بھی رہیں، لیکن اگر دل اللہ کی یاد میں محو ہے، تو جَلوت میں بھی خَلوت کا لطف آئے گا‘‘۔
فارسی شاعر نے کہا ہے:
چیست دنیا از خدا غافل بدن
نے قماش ونقرہ وفرزند وزن
مفہومی ترجمہ: ''دنیا مال و دولت اور آل اولاد کا نام نہیں ہے، بلکہ دنیا خدا سے غافل ہونے کا نام ہے‘‘۔
مولانا حسن رضا خان رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا:
دل میں ہو یاد تیری اور گوشۂ تنہائی ہو
ایسی خَلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
مفہومی ترجمہ: ''یا رسول اللہﷺ! اگر آپ کی یاد دل میں رچی بسی ہو اور تنہائی کا گوشہ نصیب ہو تو ایسی تنہائی میں بھی بزم آرائی کا لطف نصیب ہوگا‘‘۔ اس پر صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا:
سارا عالَم ہو اور دیدۂ دل دیکھے تجھے
انجمن گرم ہو اور لذتِ تنہائی ہو
مفہومی ترجمہ: ''یعنی (یا رسول اللہﷺ!) ساری دنیا کی بزم سجی ہو، لوگ لاکھوں کی تعداد میں ہوں، لیکن دل کی آنکھ آپ ہی کو دیکھ رہی ہو، ایسی بزم میں جب تصورِ محبوب دل پر چھایا ہو، تو تنہائی کی عجب لذت نصیب ہو گی‘‘۔ اسی کو پنجابی میں کہتے ہیں: ''ہتھ کار وَلے، دل یار وَلے‘‘۔ فارسی میں کہتے ہیں: ''دست بکار، دل بہ یار‘‘۔
(30) شیخ سعدی لکھتے ہیں: ''ایک مردِ دانا بچوں کو نصیحت کر رہے تھے کہ اے باپ کے پیارو! کوئی ہنر سیکھو، کیونکہ ملک و دولتِ دنیا قابلِ اعتماد (اور دیرپا) چیز نہیں ہے اور سونا اور چاندی (یعنی دولتِ دنیا) ہر وقت خطرے میں رہتے ہیں کہ یا تو ایک ہی بار انہیں چور لے اڑے گا یا مالک تھوڑا تھوڑا کر کے اُسے خرچ کر دے گا، جبکہ ہنر ایک ابلنے والا چشمہ اور دائمی دولت ہے، اگر ہنرمند کے ہاتھ سے دولت چلی بھی جائے تو فکر کی بات نہیں ہے، کیونکہ ہنر بجائے خود دولت ہے، ہنر مند جہاں بھی جائے گا، قدر و منزلت پائے گا اور مقامِ افتخار پر فائز ہو گا اور بے ہنر شخص ایک ایک لقمے کا محتاج ہو گا اور سختی کا سامنا کرے گا‘‘۔
(31) شیخ سعدی لکھتے ہیں: ''دیہاتیوں کے عقل مند بچے بادشاہ کے وزیر مشیر کے منصب پر فائز ہوئے اور وزیروں کے ناقص عقل والے بچے شہروں میں گداگر بن گئے‘‘، یعنی اپنی اولاد کو عقل و دانش اور تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا چاہیے، انہیں ہنرمند بنانا چاہیے، اس کے نتیجے میں وہ اعلیٰ مناصب پر فائز ہوں گے، جبکہ وزیروں مشیروں کی نااہل اور نالائق اولاد ایک وقت آئے گا کہ محتاج ہو جائے گی اورگداگر بن جائے گی۔ پس معلوم ہوا کہ علم کی دولت لازوال ہے، حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا فرمان ہے:
رَضِیْنَا قِسمَۃَ الْجَبّارِ فِیْنَا
لَنَا عِلمٌ وَلِلْجُہّالِ مَالُ
فَإِنَّ الْمَالَ یَفْنٰی عَنْ قَرِیْبٍ
وَإِنَّ الْعِلْمَ بَاقٍ لَا یَزَالُ
ترجمہ: ''ہم اپنے درمیان اللہ جبّار رب العزت کی تقسیم پر راضی ہیں کہ اُس نے ہمیں علم کی دولت سے آراستہ کیا ہے اور جاہلوں کے لیے مال ہے، کیونکہ مال جلد فنا ہو جاتا ہے اور علم ہمیشہ باقی رہتا ہے‘‘۔ نیز آپؓ نے فرمایا: ''مال خرچ کرنے سے گھٹتا رہتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھتا رہتا ہے‘‘ (نہج البلاغہ، حکمت: 147)۔
ایک شخص نے کسی صاحبِ نظر سے پوچھا: ''ہم نے دیکھا ہے: بعض اوقات صاحبانِ علم اہلِ دولت کے در پر جاتے ہیں، جبکہ دولت مند اہلِ علم کے در پر نہیں آتے۔ انہوں نے فرمایا: اس میں بھی عالِم کی فضیلت ہے کہ وہ دولت کی قدر کو جانتا ہے اور دولت مند کی شومئی قسمت ہے کہ وہ علم کی قدر کو نہیں جانتا‘‘۔
(32) شیخ سعدی لکھتے ہیں: ''ایک بار سفرِ حجاز میں اصحابِ دل نوجوانوں کا ایک گروہ ہمارا ہمدم وہمقدم تھا، کبھی کبھی وہ گنگناتے اور محققانہ اشعار پڑھتے، سفر میں ایک عابد بھی اُن کے ہمراہ تھا جوان کے درد سے بے خبر اور درویشوں کے حال سے ناآشنا تھا، جب ہم بنی ہلال کے کھجوروں کے باغ میں پہنچے تو وہاں ایک سیاہ فام عرب بچہ آیا اور اس قدر شیریں آواز میں پڑھنے لگا کہ ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے بھی ٹھہر گئے اور ایک عابد کے اونٹ کو دیکھا کہ وہ رقص کر رہا ہے، اس نے عابد کو چھوڑا اور بیابان میں چل پڑا۔ میں نے شیخ سے کہا: اے شیخ! اس شیریں نغمے نے حیوان پر اثر کیا اور تجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں:
دانی کہ چہ گفت مرا آں بلبلِ سحری
تو خود چہ آدمی کہ زعشق بیخبری
اشتر بشعرِ عرب در حالتست وطرب
گر ذوق نیست ترا کژطبع جانوری
مفہومی ترجمہ: ''تجھے معلوم ہے کہ سحر کی بلبل نے مجھ سے کیا کہا، تو کیسا آدمی ہے کہ عشق سے بے خبر ہے، عربی شعر سن کر اونٹ موج مستی میں آ گیا، اگر تو بے ذوق ہے تو جانور کے مقابلے میں بھی تیری طبیعت میں کجی ہے، یعنی تو بے حس وبے ذوق ہے‘‘۔
وَعِنْدَ ھُبُوْبِ النَّاشِرَاتِ عَلَی الْحُمٰی
تَمِیْلُ غُصُوْنِ الْبَانِ لاَ الْحَجَرُ الصَّلْدُ
مفہومی ترجمہ: ''سبزہ زاروں میں جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو بان درخت کی شاخیں جھک جاتی ہیں، لیکن سخت چکنا پتھر حرکت ہی نہیں کرتا‘‘۔
(33) شیخ سعدی لکھتے ہیں: ''ایک مرید نے اپنے شیخِ طریقت سے کہا: میں لوگوں سے بہت پریشان ہوں، کیونکہ وہ مجھ سے ملنے کے لیے آتے ہیں اور مجھے بہت پریشانی ہوتی ہے، شیخ طریقت نے جواب دیا: ملنے والوں میں سے جو فقرا ہیں، ان کو کچھ قرض دے دو اور جو مال دار ہیں، اُن سے کچھ قرض مانگ لو، پھر کوئی بھی تمہارے قریب نہیں آئے گا‘‘۔ اس لیے عربی میں کہتے ہیں: ''اَلْقَرضُ مِقْرَاضُ الْمَحَبَّۃِ‘‘، یعنی ادھار محبت کی قینچی ہے، مقروض بارِ قرض تلے دب کر محبت کی چاشنی سے محروم ہو جاتا ہے۔ شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ''اُونٹ کے بچے نے ماں سے کہا: آج تم نے بہت سفر کیا ہے، کچھ دیر کے لیے سو جائو، کہنے لگی، اگر میری مہار میرے ہاتھ میں ہوتی تو تم مجھے اس قطار میں نہ دیکھتے:
قضا کشتی آں جاکہ خواہد برد
وگر ناخدا جامہ برتن درد
ترجمہ: ''خدا کشتی کو جہاں چاہے لے جاتا ہے، خواہ ناخُدا تن کے کپڑے پھاڑ ڈالے‘‘۔ نوٹ: شیخ سعدی اس شعر کے ذریعے خودی اور خودداری کی تعلیم دیتے ہیں کہ جو خواہشاتِ نفس کا اسیر ہو جائے،اس کی لگام کسی اور کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے اور پھر وہ اپنی آزادی کو قربان کر کے دوسروں کے اشارۂ ابرو کا محتاج ہو جاتا ہے۔
(34) ایک شخص نے بدنظری سے بچنے کے لیے اپنے کھیت میں گدھے کا سر لٹکا رکھا تھا، ایک دانشور کا وہاں سے گزر ہوا تو کہا: جس گدھے کے سر پر زندگی بھر ڈنڈے برستے رہے اور وہ اُنہیں نہ روک سکا، وہ بھلا مرنے کے بعد بری نظر سے کیا بچائے گا۔ شیخ سعدی کی اس حکایت کا مقصد یہ ہے: '' ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی ایک ایسا نفسیاتی مرض ہے کہ انسان کو ایمان و یقین کی دولت، توکل اور عزیمت سے محروم کردیتا ہے‘‘۔
(35) مفلسی اور فقر و غربت کی بابت لکھتے ہیں: ''کوتوال سے اس کی بیوی نے کہا: جائو اور شاہی مطبخ سے ناشتہ لے آئو کہ بچے بھوک سے رو رہے ہیں،کہا: آج باورچی خانہ ٹھنڈا ہے، کیونکہ بادشاہ نے روزہ رکھا ہوا ہے، اس پر اس کی بیوی نے سرد آہ لی اور کہا:
ندانم از ایں روزہ سلطان چہ خواست
کہ افطار او عیدِ طفلاں ماست
ترجمہ: ''نہ جانے بادشاہ اس روزے سے کیا چاہتا ہے، جبکہ وہ جانتا ہے کہ ہمارے بچوں کی عید اس کے روزہ نہ رکھنے میں ہے‘‘۔
شیخ سعدی کا پیغام یہ ہے: ''اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض کی بجاآوری کے بعد حاکمِ وقت کا سب سے بڑا فریضہ رعایا کی خبرگیری کرنا ہے، ورنہ اگر وہ اپنی رعایا کی خبر گیری اور حقوق العباد سے غافل رہا تو اس کی نفلی عبادات کسی کام نہیں آئیں گی‘‘۔
(36) ایک بچے کے دانت نکل رہے تھے اور اس کا مفلس باپ اس فکر میں گم تھا کہ اس کے لیے روزی روٹی کا انتظام کہاں سے کرے گا، اس نے بیوی سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو بیوی نے کیا ہی اچھی بات کی :
مخور ہولِ ابلیس تا جاں دہد
ہماں کس کہ دنداں دہد، نان دہد
ترجمہ: ''شیطان کے ڈراوے میں نہ آ، کہ بچہ بھوک سے مر جائے گا، جس خدا نے اسے دانت دیے ہیں، وہ روزی بھی دے گا‘‘۔ شیخ سعدی بوستان میں اس شعر سے یہ سبق دینا چاہتے ہیں : ''بندۂ مومن کا اللہ تعالیٰ کی شانِ رزّاقی پر ایمان ہونا چاہیے، اس کا کام سعی و عمل کرنا ہے اور اُن کوششوں کو بارآور کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے، وہی تو ہے جس نے ماں کے رحم کی تاریکیوں میں بھی بچے کی روزی کا اہتمام فرمایا ہے، جو مچھلی کے بچے کو پیدا ہوتے ہی تیرنا سکھاتا ہے، پرندے کے بچے کو اڑنا سکھاتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اگر تم اللہ پر توکل کرو جیساکہ اُس کا حق ہے، تووہ تمہیں اسی طرح رزق دے گا، جیسے پرندے کو دیتا ہے کہ وہ (ہر صبح) خالی پیٹ نکلتا ہے اور (شام کو) پیٹ بھرا ہوا واپس لوٹتا ہے‘‘ (سنن ترمذی: 2344)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں