پاکستان اور ایران دو برادر مسلم ممالک ہیں، دونوں ہمسائے ہیں اور دونوں کے درمیان ایک طویل سرحد ہے، دونوں ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں، بلکہ پاکستان زیادہ شکار ہے، ماضی میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا تو پتا چلا کہ وہ درحقیقت بھارتی نیوی کا اہلکار ہے اور حسین مبارک پٹیل کے نام سے اس کا جعلی پاسپورٹ بنایا گیا تھا، پھر وہ ایران آیا اور چابہار سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک آپریٹ کر رہا تھا۔ کلبھوشن یادیو کا اپنا اعترافی بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے، نیز بھارت نے اُسے اپنا شہری اور بھارتی نیوی کا اہلکار بھی تسلیم کیا ہے، اسی بنا پر وہ عالمی عدالتِ انصاف میں گیا۔ پس پاکستان کے لیے یہ انتہائی اذیت و آزار کا باعث ہے کہ اُس کے خلاف برادر ہمسایہ مسلم ملک سے دہشت گردی کا نیٹ ورک آپریٹ کیا جائے، اسی طرح ریاستِ پاکستان کی باغی تنظیمیں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے مراکز بھی ایران کے اندر موجود ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ گم شدگان (Missing Persons) کی تحریک چلانے والی خاتون ماہ رنگ بلوچ نے یہ اعتراف کیا کہ ایرانی بلوچستان کے اندر جن کو نشانہ بنایا گیا ہے، اُن کے رشتے دار اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے میں موجود ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ جن کی پاکستانی حدود میں گمشدگی کا واویلا مچایا جا رہا تھا، اُن میں سے بعض کے ایرانی بلوچستان میں خفیہ اڈے اور گوریلا تربیت گاہیں موجود ہیں، نوٹ: بروز بدھ اسلام آباد کا دھرنا اٹھا لیا گیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کا سبب یہ ہے: ایران کی جانب سے 16 جنوری کی رات پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے سبز کوہ میں شدت پسند تنظیم ''جیش العدل‘‘ کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا گیا تھا، اس میں حکومتِ پاکستان کے مؤقف کے مطابق دو بچے جاں بحق اور تین بچیاں زخمی ہوئی تھیں، ایران کی طرف سے اس دراندازی کی خبر اُس کی سرکاری نیوز ایجنسی ''اِرنا‘‘ نے جاری کی اور پھر ایرانی وزیرِ خارجہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ ایران کا یہ اقدام مسلّمہ عالمی قوانین کی رُو سے سو فیصد ناجائز اور غیر قانونی تھا، یہ پاکستان کی حدود میں دخل اندازی تھی اور سرحدوں کی حرمت کو پامال کیا گیا تھا۔ حکومتِ ایران کا یہ اقدام پاکستان کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا، چنانچہ پاکستان نے جوابی اقدام کے طور پر 18 جنوری کو علی الصباح ''مرگ بر سرمچار‘‘ کے عنوان سے آپریشن کرکے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے اڈوں کو نشانہ بنایا۔ بلوچستان میں بغاوت پر آمادہ گروہوں نے سوشل میڈیا پر اسے تسلیم بھی کیا ہے۔ پس یہ جوابی اقدام ناگزیر تھا، اس سے یہ واضح پیغام دینا مقصود تھا کہ پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر کسی دوسرے ملک کی دراندازی برداشت نہیں کرے گا؛ چنانچہ پاکستانی قوم قومی اور ملّی حمیّت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلّح افواج کی پشت پر کھڑی ہو گئی، پاکستان کی مسلح افواج کا یہ اقدام برحق تھا، کیونکہ اس کا جواز خود ایران نے پہل کر کے فراہم کیا اور مزید یہ کہ ایران نے خود تسلیم کیا کہ جو لوگ پاکستانی میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنے، وہ ایرانی نہیں تھے۔ یہ اعتراف بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی بلوچستان میں بغاوت کی جو تحریکیں چل رہی ہیں، ان کے مراکز ایران میں ہیں۔
حقِ ہمسائیگی اور برادر ملک ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ اگر حکومتِ ایران کے پاس کچھ ایسے شواہد تھے کہ کچھ لوگ پاکستان کی حدود میں رہتے ہوئے ایران میں بے امنی کا سبب بن رہے ہیں تو اُن کے بارے میں حکومتِ پاکستان کو اعتماد میں لیا جاتا اور اگر شواہد درست ہوتے تو حکومتِ پاکستان خود اقدام کرتی اور پاکستان بھی اپنی شکایات کے بارے میں برادر ممالک سے یہی توقع رکھتا ہے۔ پاکستان کی یہ پالیسی ہرگز نہیں ہے اور نہ ہونی چاہیے کہ کوئی پاکستان کی حدود کے اندر رہتے ہوئے برادر ہمسایہ ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچائے، دہشت گردی کی کارروائیاں کرے، بے امنی اور فساد پھیلائے۔
حکومتِ ایران کا یہ اقدام حکمت اور دانش کے تقاضوں کے خلاف اور پاکستان کو بیٹھے بٹھائے مشتعل کرنے کے مترادف ہے۔ دنیا میں مسلّمہ طریقۂ کار یہ ہے کہ ایسے معاملات میں Intelligence Sharing یعنی خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا جاتا ہے، نیز متعلقہ ملک کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ خود ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کر کے جائز شکایات کا ازالہ کرے اور اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ترجیحی صورت تو یہ ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں اور ایک دوسرے کے لیے مُمِدّ و معاون ثابت ہوں، ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کریں، آپس میں سفارتی، اقتصادی اور تجارتی روابط بڑھائیں، دونوں ممالک کے درمیان ایسی ہاٹ لائن ہونی چاہیے تاکہ باہمی شکایات کا بروقت تدارک اور ازالہ ہو اور بات بڑھنے نہ پائے۔ نیز برادر مسلم ممالک میں امن و آشتی سب کی ترجیح ہونی چاہیے اور حقِ ہمسائیگی کا کمترین درجہ یہ ہے کہ دوسرے ہمسائے کو نقصان نہ پہنچے، حدیث پاک میں ہے:
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے تین بار فرمایا: بخدا ! وہ مومن نہیں ہے، صحابۂ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! وہ کون ہے، آپﷺ نے فرمایا: وہ ایسا پڑوسی ہے جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو (یہاں آپ نے ''بَوَائِق‘‘ کا کلمہ ارشاد فرمایا)، صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! اُس کے ''بَوَائِق‘‘ کیا ہیں، آپﷺ نے فرمایا: اُس کا شر۔ (مسند احمد: 7878)‘‘۔ ''بَوَائِق‘‘ بَائِقَۃٌ کی جمع ہے، اس کے معنی ہیں: ''مصیبت، شر اور برائی‘‘۔
جس طرح افراد ایک دوسرے کے پڑوسی ہوتے ہیں، ہمسائیگی کا ایسا ہی تعلق اُن ممالک کے درمیان ہوتا ہے،جن کی سرحدیں باہم ملتی ہیں۔ پاکستان، افغانستان، ایران، وسطی ایشیائی ممالک، خلیجی اور دیگر عرب ممالک کی سرحدیں جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ اگر مسلم ممالک میں اخوتِ اسلامی کا صحیح جذبہ کارفرما ہو اور سب پڑوسی ممالک ایک دوسرے کے لیے راحتوں اور آسائشوں کا باعث بنیں، تو یورپی یونین کے طرز پر ایک مشترکہ منڈی (Common Market) وجود میں آ سکتی ہے، سب ممالک اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے اپنے دست و بازو اور وسائل کھلے رکھیں تو اس کے نتائج بڑے مفید اور ثمر آور ثابت ہوں گے۔
19 جنوری کو پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، صورتِ حال پر پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ غور کیا گیا، تینوں مسلّح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور انٹیلی جنس کے سربراہان اس اجلاس میں شریک ہوئے، تمام معلومات ریاست کے ذمہ دار عناصر کے علم میں لائی گئیں اور دانش پر مبنی یہ فیصلہ ہوا کہ تنازع کو بڑھانے (Escalation) کے بجائے اسے حل کیا جائے گا اور دونوں ممالک کے درمیان روابط کو بڑھایا جائے گا، بے اعتمادی کو ختم کیا جائے گا اور اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایرانی وزیرِ خارجہ نے بھی پاکستانی وزیرِ خارجہ سے رابطہ کر کے مثبت رویے کا اظہار کیا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کے سفیر دوبارہ اپنے منصب کو سنبھالیں گے اور حالات کو معمول پر لایا جائے گا۔ لیکن صرف آگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے تک محدود رکھنے کے بجائے اس مسئلے کا دیرپا اور طویل المدت حل نکالنا چاہیے۔ یہ بات دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ بے اعتمادی کی فضا ختم ہو اورایک دوسرے پر اتنا اعتماد ہو کہ مسلم ممالک کی مشترکہ سرحدوں پر بڑی تعداد میں مسلّح افواج رکھنے کی ضرورت نہ ہو۔ معلوم ہوا ہے کہ عنقریب ایرانی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔
انقلاب کے بعد ایران امریکہ اور مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کے زیر اثر ہے، اس سے ایرانی عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، یہ درست ہے کہ ایران نے استقامت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ پاکستان نے ایران کی مجبوریوں سے فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ جہاں تک ممکن ہوا، اُسے مدد فراہم کی ہے اور اس سلسلے میں امریکہ کے زیرِ اثر عالمی دبائو کو قبول نہیں کیا، پاکستان کے اس رویے کی بھی قدر کی جانی چاہیے۔ نیز ایران کا یہ حق ہے کہ وہ بھارت سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ اپنے ملکی اور قومی مفاد میں تجارتی، سفارتی اور اقتصادی روابط قائم کرے، لیکن اُس پر لازم ہے کہ ان تعلقات کی آڑ میں پاکستان کے دشمن ملک بھارت کو پاکستان میں تخریب و فساد، دہشت گردی اور علیحدگی پسندوں کو ابھارنے کی کسی قیمت پراجازت دے اور نہ ایران پاکستان کے خلاف اپنی تخریبی کارروائیوں کے لیے ایران کی سرزمین کو مرکز بنائے۔ چین نے اس مسئلے میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا اور دونوں ممالک کو بردباری کا مشورہ دیا، ہو سکتا ہے: پسِ پردہ کوئی سفارت کاری کی ہو، نیز روس، ترکیہ، افغانستان اور سعودی عرب کے بارے میں بھی ایسی ہی اطلاعات آئی ہیں، لیکن چونکہ سعودی عرب کا کوئی اعلان منظرِ عام پر نہیں آیا، اس لیے اُس کی بابت تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔
سب کو معلوم ہے: ایران پر تجارتی پابندیوں کے باوجود پاکستان میں کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بغیر ایران کا ڈیزل اور پٹرول بھی آ رہا ہے اور یہ پٹرول ٹیکس کی ادائی کے بغیر مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے، اسی طرح ایران کی دوسری مصنوعات بھی کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بغیر پاکستان میں آرہی ہیں اور حکومتِ پاکستان صرفِ نظر سے کام لیتی ہے، ہو سکتا ہے اس میں کچھ بااثر لوگوں کے مفادات بھی شامل ہوں، لیکن بہرحال ایران کو اس تجارت کا فائدہ یقینا پہنچتا ہے۔ ہم بارہا عرض کرچکے ہیں کہ ہماری معاصر دنیا میں حکمران اور سیاست دان تو یقینا ہیں، لیکن مدبّرین (Statesmen) کی کمی ہے اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ تقریباً ساڑھے تین ماہ گزرنے کے باوجود اقوامِ متحدہ، عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم غزہ کی جنگ کو غیر مشروط طور پر رکوانے میں ناکام رہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر فلسطین میں خونِ ناحق بہہ رہا ہے، شہادتوں کی تعداد تیس ہزار کے قریب اور زخمیوں کی تعداد ساٹھ ہزار تک پہنچ رہی ہے، بڑے پیمانے پر رستی بستی آبادیاں مسمار ہو چکی اور ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں اور ان کی مکمل بحالی کے لیے بے انتہا وسائل درکار ہوں گے اور کئی عشرے لگ جائیں گے، یہ عالمی سطح پر انسانیت کا بہت بڑا المیہ ہے اور عالمی برادری کی بہت بڑی ناکامی بھی ہے۔