"MMC" (space) message & send to 7575

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ…(حصہ اول)

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی جعفر، کنیت ''ابو عبداللہ‘‘ اور ''ابو اسماعیل‘‘ ہے۔ اکابرِ اُمت نے آپ کو کئی القاب سے نوازا ہے، ان میں سے مشہور ترین لقب ''اَلصَّادِق‘‘ ہے۔ آپ کے سنِ ولادت کے بارے میں دو روایات ہیں: ایک 80 ہجری اور دوسری 83 ہجری ہے، آپ کے چچا امام زید رضی اللہ عنہ اور فقہِ حنفی کے بانی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا سنِ ولادت بھی 80 ہجری ہے۔
ایمان اور عملِ صالح کے بعد سب سے بڑا شرف خانوادۂ نبوت سے نسبت ہے، آپ کا نسب اسلام کی دو جلیل القدر اور برگزیدہ ہستیوں سے ملتا ہے۔ آپ کا پِدری سلسلہ نسب چوتھی پشت میں خلیفہ چہارم، جانشینِ رسول، زوجِ بتول، امام الواصلین، مولی المسلمین، امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے: ''امام جعفر الصادق بن امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین بن امام حسین بن امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ‘‘ اور مادری سلسلہ نسب چوتھی پشت میں خلیفہ اول، صدیقِ اُمت، وزیرِ رسول، رفیقِ غار و مزار خلیفۃ المسلمین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے: ''امام جعفر صادق بن اُم فروہ بنتِ قاسم بن محمد بن امیر المومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘‘۔ آپ کی نانی بھی حضرت ابوبکرصدیقؓ کی پوتی تھیں۔ اُن کا سلسلہ نسب یہ ہے: ''امام جعفر صادق بن ام فروہ بنت اسماء بنت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ‘‘، اس لیے آپ خود فرماتے تھے: ''خاندانِ ابوبکرؓ میں دوبار میری ولادت ہوئی ہے‘‘ (کَشْفُ الْغُمَّۃ فیِ مَعْرِفَۃِ الْاَئِمَۃ، ص: 376)۔
امام جعفر صادق کی ولادت مدینۂ طیبہ میں ہوئی، نشو ونَما اور پرورش گہوارۂ علم اور مَعدِنِ حکمت یعنی خاندانِ نبوت میں ہوئی، جہاں نبوی علوم کی وراثت تسلسل کے ساتھ چلی آ رہی تھی، وَرع و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی خوشبو ہر سو مہک رہی تھی۔ امام صادق نے اپنے جدِّ امجد امام زین العابدینؓ اور اپنے والدِ بزرگوار امام محمد الباقرؓ اور اپنے نانا قاسمؓ بن محمد سے بھی استفادہ و اکتسابِ فیض کیا ہے۔ ان کے علاوہ مدینہ طیبہ و حجازِ مقدس کے جلیل القدر فقہا و محدثین کے آگے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا۔ آپ کے شیوخ میں مفتیِ مکہ اور فقہائے حجاز کے سردار عطا بن ابی رباح، عروہ بن زبیر، عبید اللہ بن ابی رافع، محمد بن منکدر، ابن شہاب زُہری، مسلم بن ابی مریم کے اسمائے گرامی سرِ فہرست ہیں۔
امام جعفرصادق اپنے زمانے میں بنو ہاشم کے سردار، علومِ مصطفوی و مرتضوی کے جامع، ذہانت و فطانت میں اہلِ بیتِ نبوت کے وارث، فہم و دانش سے بہرہ ور، حد درجے وسیع النظر، شریعت کے معانی، مفاہیم اور مقاصد سے واقف اور کامل بصیرت سے ان کا احاطہ کیے ہوئے تھے۔ آپ کی شخصیت علم و حکمت، تحقیق و نکتہ سنجی، باریک بینی اور وسعت فکر و نظرسے لبریز تھی۔ آپ نے اپنے والدِ گرامی امام باقرؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی ذات کو علوم نبوت کی ترویج کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اِسی علم کی خاطر اُنہوں نے نہ سیاست میں دلچسپی لی، نہ دعوائے خلافت کیا، نہ قیادت کا بار اُٹھایا اور نہ کسی کے خلاف صف آرا ہو کر میدان میں آئے۔ آپ پوری زندگی نبی کریمﷺ کے مقصدِ حیات یعنی کتاب و حکمت کی تعلیم میں مصروف رہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کے زمانے میں جو سیاسی معرکے اور واقعات رونما ہوئے، ان میں کہیں بھی حضرتِ امام کا کردار نظر نہیں آتا۔ مورخین و سیرت نگاروں کے مطابق اس سرچشمہ علم و حکمت سے اپنی علمی پیاس بجھانے اور فیض یاب ہونے والوں کی تعداد چار ہزار سے زائد ہے، اُن میں آپ کے فرزند امام موسیٰ کاظم، امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت، امام مالک، یحییٰ بن سعید انصاری، ابن جریج، شعبہ بن حجاج، سفیان بن عیینہ اور سفیان ثوری ایسے اکابرِ اُمت کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ (1) امام مالکؒ بن انس فرماتے ہیں: ''میں جب بھی امامِ صادق کی خدمت میں آیا تو میں نے اُنہیں روزہ، نماز اور قرآنِ مجید کی تلاوت میں مصروف پایا اور جب رسول اللہﷺ کا ذکر ہوتا تو آپ کا رنگ زرد پڑ جاتا، جب حدیثِ پاک بیان کرتے تو وضو کرتے، کبھی میں نے اُنہیں بے مقصد بات کرتے نہیں دیکھا، آپ رسول اللہﷺ کی کثیر احادیث کے حافظ تھے، آپ کی مجلس علم و حکمت اور بے شمار فوائد کی حامل تھی‘‘ (تَرْتِیْبُ الْمَدَارِکْ وَتَقْرِیْبُ الْمَسَالِک، ج: 2، ص: 52)۔ (2) نیز امام مالکؒ فرماتے ہیں: ''امام جعفر صادق جیسا عالم اور عابد و زاہد کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا ہے، آپ کی شخصیت تصورات سے ماورا ہے‘‘ (تَہْذِیْبُ التَّہْذِیْب، ج: 2، ص: 104)۔ (3) امام ابوحنیفہ نعمانؒ بن ثابت تقریباً امامِ جعفر صادق کے ہم عمر تھے، لیکن یہ معاصرت ان کے لیے بارگاہِ امام میں ایک طالبِ حق کی حیثیت سے حاضر ہونے میں کبھی مانع نہ ہوئی، امام ابوحنیفہ اُنہیں سب سے بڑا عالم مانتے تھے، اس لیے کہ وہ اختلافِ علماء کے سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ فرماتے ہیں: ''میری آنکھوں نے جعفر بن محمد سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا‘‘ (تَذْکِرَۃُ الْحُفَّاظ، ج: 1، ص: 166)۔
(4) امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں: ''میں نے ابوجعفر منصور کے دربار میں اس کی فرمائش پر امام جعفر بن محمد سے چالیس دقیق فقہی مسائل پوچھے، آپ فی البدیہہ اُن کے جوابات دیتے رہے، میں پوچھتا جاتا اور آپ جواب دیتے جاتے اور فرماتے: ''تم عراقی لوگ یوں کہتے ہو، اہلِ مدینہ یوں کہتے ہیں اور میری اپنی رائے یہ ہے اور کبھی ہماری (اہلِ عراق کی رائے کے مطابق) جواب دیتے، یہاں تک کہ چالیس مسائل ختم ہو گئے، کوئی بھی مسئلہ باقی نہ چھوڑا، امام ابو حنیفہ نے فرمایا: سب سے بڑا عالم وہ ہے جو فقہائے کرام کے اختلافات سے زیادہ واقف ہو‘‘ (حَیَاۃُ اَبِیْ حَنِیْفَۃ، شیخ ابو زہرہ، ص: 130)۔
(5) صالح بن اسود کہتے ہیں: ''میں نے امام جعفر بن محمد سے براہِ راست سنا: ''قبل اس کے کہ تم مجھے اپنے درمیان نہ پائو، مجھ سے علومِ حدیث کے متعلق سوال کیا کرو، کیونکہ میرے بعد تمہیں میری طرح کوئی بھی حدیث بیان نہیں کرے گا‘‘ (تَذْکِرَۃُ الْحُفَّاظ، ج: 1، ص: 166)۔ (6) علامہ یحییٰ بن شرف نووی لکھتے ہیں: ''امامِ صادق سے محمد بن اسحق، یحییٰ الانصاری، مالک بن انس، سفیان ثوری، سفیان بن عُیَینہ، ابن جریج، شعبہ بن حجاج اور یحییٰ القطان وغیرہم نے احادیث روایت کی ہیں‘‘ (تَہْذِیْبُ الْاَسْمَآئِ وَاللُّغَات، ج: 1، ص: 155)۔
(7) علامہ عبد الکریم شہرستانی کے مطابق آپ کے زمانے میں علومِ نبوت اور ادب و حکمت میں آپ جیسا کمال کسی کوحاصل نہ تھا، آپ زُہد و تقویٰ کے پیکر اور دنیا کی ہنگامہ آرائیوں سے یکسر لاتعلق تھے، آپ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مدینہ طیبہ میں گزارا، تشنگانِ علم دور دراز کا سفر طے کرکے آپ کی خدمت میں تحصیلِ علم کے لیے حاضر ہوتے رہتے، پھر آپ عراق تشریف لے گئے اورکچھ عرصے وہاں قیام پذیر رہے، پوری زندگی آپ امامت کے بارے میں کسی سے برسرپیکار ہوئے اور نہ خلافت کے معاملات میں کوئی تنازع کیا‘‘ (اَلْمِلَل وَالنِّحَل،ج: 1، ص: 165)۔
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اپنے آبائو اجداد کی طرح حضرات شیخین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت کرتے تھے اور ان کی شان میں کوئی منفی بات سننا بالکل گوارا نہیں کرتے تھے، بلکہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ قائم رشتے کو اپنے لیے باعثِ خیر و برکت سمجھتے تھے، چنانچہ زہیر بن محمد بیان کرتے ہیں: ''میرے والد نے امام جعفر بن محمد سے کہا: میرا پڑوسی آپ کے متعلق کہتا ہے: آپ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے برأت کا اظہار کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہارے اس پڑوسی سے بری ہو، بخدا! میں تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ اُمید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قرابت سے نفع عطا فرمائے گا‘‘ (اَلتَّارِیْخُ الْکَبِیْر لِاَبِیْ خَیْثَمہ، ج: 2، ص: 333)۔
عروہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق سے سوال کیا: تلواروں کے دستے پر چاندی چڑھانا جائز ہے، آپ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی اپنی تلوار کے دستے پر چاندی چڑھائی تھی (عروہ بن عبداللہ کا شاید یہ خیال تھا کہ اہل بیت عظامؓ اور صحابہ کرامؓ کے مابین رنجش تھی)، انہوں نے پوچھا: آپ بھی اُنہیں صدیق کہتے ہیں، وہ کہتے ہیں: یہ سن کر امام ابوجعفر صادق جلال میں کھڑے ہو گئے، قبلہ رخ منہ کر لیا اور فرمایا: ہاں! وہ صدیق ہیں، ہاں! وہ صدیق ہیں، ہاں! وہ صدیق ہیں اور جو انہیں صدیق نہیں کہے گا، اللہ اس کودنیا اور آخرت میں جھوٹا ثابت کرے گا‘‘ (کَشْفُ الْغُمَّۃ فیِ مَعْرِفَۃِ الْاَئِمَۃ، ص: 362)۔
مشہور محقق عالم ابو عمرو محمد بن عبدالعزیز الکشی بیان کرتے ہیں: ''ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے سفیان ثوری نے محمد بن المنکدر سے روایت کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور وہ سزا دوں گا جو مفتری (کذاب) کو سزا دی جاتی ہے‘‘ (رِجَالُ الْکِشّی، ص: 338، مطبوعہ: موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، کربلا)۔
کسی بھی مقتدیٰ اور مرتبہ امامت پر فائز شخصیت کے لیے حاضر جوابی اور برجستگی لازمی ہے، ایسے شخص میں فکری قیادت کا جوہر پایا ہی نہیں جاتا جو کند ذہن ہو اور چبا چبا کر بولتا ہو، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں: امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ اور امام مالکؒ بھی حاضر جواب اور برجستہ گو تھے۔ امام جعفر صادقؓ بھی بے حد حاضر جواب اور مشکل ترین اور پیچیدہ سوالات کے کافی و شافی جواب مرحمت فرماتے اور اپنے حریف کومطمئن یا لاجواب کر دیتے۔ ایک زندیق نے حضرت امام سے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''نکاح کرو اُن عورتوں سے جو تمہیں پسند ہیں، (بیک وقت) دو‘ دو اور تین‘ تین اور چار‘ چار اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو‘‘ (النسآء: 3) اور اسی سورت میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ''اور تمام تر چاہت کے باوجود تم سے یہ نہیں ہو سکے گا کہ تم سب بیویوں کے درمیان عدل کرو، سو تم (کسی ایک بیوی کی طرف) پوری طرح مائل نہ ہو جائو‘‘ (النسآء: 129)۔ پس پہلی آیت میں بیویوں کے مابین قدرتِ عدل رکھنے کی صورت میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے، لیکن دوسرے مقام پر یہ خبر دی گئی ہے کہ تم عدل نہیں کر سکو گے (اس میں ہم تطبیق کیسے کریں گے:)، امام جعفر صادق نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے: ''اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم عدل قائم نہ کر سکو گے تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو‘‘، یہاں عدل سے مراد نفقہ کا عدل ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا: ''تم بیویوں کے مابین عدل نہ کر سکو گے خواہ کتنی ہی کوشش کر لو‘‘،یہاں عدل سے مراد محبت کا عدل ہے اور کسی کے بس میں نہیں ہے کہ وہ سب بیویوں سے یکساں محبت کر سکے، یعنی یہ امر لازم ہے کہ وہ امور جو انسان کے اختیار میں ہیں، اُن میں ایک سے زائد ازواج کے درمیان عدل کرے اور وہ ہیں: نفقہ، سُکنٰی (جائے سکونت) اور ایام کی تقسیم‘‘۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں