(1) حقیقی تصویر پیش کی جائے: انتخابی مہم میں تو سیاسی جماعتیں عوام کو ''سبز باغ‘‘ دکھاتی ہیں ''سَراب‘‘ کو پانی ثابت کرتی ہیں جبکہ اقتدار ملنے کے بعد یہ وعدے بھلا دیے جاتے ہیں؛ تاہم لازم ہے کہ قوم کے سامنے ملکی حالات کی حقیقی تصویر پیش کی جائے‘ بیرونی اور داخلی قرضوں کے صحیح اعداد و شمار قوم کو بتائے جائیں اور مشکل حالات کے لیے قوم کو تیار کیا جائے۔ یہ بھی بتایا جائے کہ ان قرضوں کے بتدریج اداکرنے کی تدبیر کیا ہو گی کیونکہ پچھلے قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا خسارے کا سودا ہے۔ ماضی میں ہم یہی کرتے چلے آئے ہیں اور اب گلے گلے تک پھنس چکے ہیں‘ قرضوں کا یہ طوق ملک و ملّت کے لیے وبالِ جان بن گیا ہے‘ اس لیے اس بوجھ کو کم کرنے اور بتدریج ختم کرنے کی حکمتِ عملی وضع کرنا لازم ہے‘ ورنہ ہر ایک اپنی باری پر اقتدار کے مزے لوٹ کر بعد میں آنے والوں کے لیے مشکل حالات چھوڑ کر جائے گا۔
(2) ہماری انتظامی مشینری کا بوجھ بھی ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے اور ہر آنے والی حکومت اس میں اپنے حصے کا مزید بوجھ ڈال کر چلی جاتی ہے‘ لازم ہے کہ انتظامی مشینری کا حُجم کم کیا جائے اور اس کے معیار کو عالمی معیار کے قریب تر لایا جائے یا ہو سکے تو اس سے بہتر بنایا جائے‘ ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ یہ قوم اس انتظامی مشینری کے بوجھ سے نڈھال ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں ایک ہی مقصد کے لیے اداروں کا جال بچھا ہوا ہے‘ مثلاً: بدعنوانی کو قابو میں لانے کیلئے محکمۂ انسدادِ بدعنوانی‘ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی‘ قومی ادارۂ احتساب‘ وفاقی اور صوبائی محتسب کا ادارہ اور پھر عام عدالتی نظام اس سے سوا ہے‘ یہ ایک ہی مقصد کے لیے اداروں کی تہہ پہ تہہ چڑھانا ہے۔ قومی ادارۂ احتساب 1999ء میں آرڈیننس کی صورت میں تشکیل دیا گیا‘ آج تک قوم کو نہیں معلوم کہ قومی خزانے سے اس ادارے پر خرچ کتنا ہوا‘ نیز سیاسی بلیک میلنگ کے علاوہ اس سے مالی منفعت کیا حاصل ہوئی‘ بظاہر مالی اعتبار سے یہ ادارہ ملک کیلئے فیض رساں ثابت نہیں ہوا۔ پس ضرورت اس امر کی ہے: ایک ہی مقصد کیلئے کئی ادارے قائم کرنے کے بجائے ایک ہی بااختیارادارہ بنایا جائے اور پارلیمنٹ اُس کی کارکردگی کا سال بہ سال جائزہ لے۔
(3) نظامِ عدل کی اصلاح: ہمار انظامِ عدل فرسودہ اور پیچیدہ ہے‘ عالمی رینکنگ میں یہ انتہائی نچلے درجے پر ہے‘ خاص طور پر ہماری اعلیٰ عدلیہ کے عالی مرتبت جج صاحبان کے مشاہرے اور مراعات غیر معمولی ہیں‘ لیکن نسلیں گزر جاتی ہیں اور لوگوں کو انصاف نہیں ملتا‘ ایسی بھی مثالیں ملتی ہیں کہ مجرم جیل میں وفات پا گیا اور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ نے اُسے بعد کو بے قصور قرار دیا‘ اب سوال یہ ہے کہ اُس کی زندگی کون لوٹائے گا اور جو وقت اُس نے بے قصور ہوتے ہوئے جیل میں گزارا‘ اُس کی تلافی کیسے ہو گی۔ ماتحت عدالتوں کا حال سب سے ابتر ہے‘ کوئی پرسانِ حال ہے اور نہ ان عدالتوں پر کڑی نگرانی کا کوئی اہتمام ہے‘ سول مقدمات عشروں تک چلتے رہتے ہیں اور فیصلے کی نوبت نہیں آتی۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں نے ہمارے بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں جو فیصلے دیے‘ اُن کے نتیجے میں بھی عالمی عدالتوں سے جرمانے عائد ہوئے‘ یہ بھی ان عدالتوں کی اہلیت پر بڑا سوال ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے تقرر کیلئے کوئی شفاف انتظام ہے نہ کوئی میرٹ ہے‘ من پسند لوگوں کا تقرر کر دیا جاتا ہے‘ اس کے بعد اُن سے نَجات مشکل ہوتی ہے‘ گزشتہ دو عشروں میں جو چیف جسٹس صاحبان یکے بعد دیگرے آئے‘ اُن کے کارنامے عدالت کیلئے شرمندگی کا باعث ہیں‘ لیکن تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اگر کسی جج پر کرپشن کے الزامات ہوں تو وہ جوڈیشل کمیشن کے سامنے اپنی برأت ثابت کیے بغیر مستعفی ہو جاتے ہیں اور مراعات سمیت پنشن سے تاحیات مستفید ہوتے ہیں بلکہ اُن کے انتقال کے بعد اُن کی بیوائیں بھی اُس سے مستفید ہوتی ہیں۔
(4) نظامِ تعلیم کی اصلاح: ملک کا نظامِ تعلیم بھی فرسودہ ہے‘ حکومت کے زیرِ اہتمام تعلیمی اداروں کی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ سرکاری سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ تعلیم ہمارے ملک میں سب سے منفعت بخش صنعت بن چکی ہے‘ مختلف شعبوں مثلاً: میڈیکل‘ انجینئرنگ‘ ٹیکنالوجی‘ چارٹرڈ اکائونٹنسی اور سائنس کے مضامین کی فیسیں اتنی ہیں کہ ان شعبوں سے فارغ التحصیل ہونے والے گریجویٹس کے لیے اتنی تنخواہ پر ملازمت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ پھر ہمارے ملک کے وسائل سے اعلیٰ تعلیم پانے والے نوجوان بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں‘ اپنی صلاحیتوں سے اُن ممالک کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور اپنا ملک ان کی صلاحیتوں سے محروم رہتا ہے۔
(5) پاور پروجیکٹس: بجلی پیدا کرنیوالے اداروں کے ساتھ جو معاہدات کیے گئے تھے‘ وہ کیلئے ناقابلِ تلافی بوجھ بنتے جا رہے ہیں‘ ہماری حکومتیں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اُن معاہدات سے چھٹکارا حاصل کر پاتی ہیں اور نہ اس انداز سے ان کی تجدید کر پاتی ہیں‘ جس سے ملک کو فائدہ پہنچے‘ اس لیے اس شعبے پر بھی پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(6) بیرونی سرمایہ کاری: یہ بشارت دی جا رہی ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد بیرونِ ملک سے وافر مقدار میں سرمایہ کاری آئے گی اور اس سے قومی معیشت کو سہارا ملے گا۔ بیرونی سرمائے کیلئے وہ ملک پُر کشش ہوتا ہے جہاں سیاسی استحکام ہو‘ سرمایہ کاروں کو یقین ہو کہ اُن کا سرمایہ محفوظ رہے گا اور وہ اس پر نفع بھی کما سکیں گے۔ سیاسی اعتبار سے غیر مستحکم اور معاشی اعتبار سے ڈانواں ڈول ملک میں کوئی بھی آسانی سے سرمایہ کاری کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ فرض کریں کہ کچھ بیرونی سرمایہ کار ہمارے سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو وہ اصل مع منافع زرِ مبادلہ کی شکل میں لے جائیں گے‘ جبکہ ہمارے ہاں زرِ مبادلہ کا قحط ہے۔ اس وقت بھی ہم زرِ مبادلہ کی کم ترین سطح پر ہیں‘ چند دوست ممالک نے اپنے قرضوں کوایک سال کیلئے مؤخر کیا ہے‘ اگر ہمیں فی الفور ادائی کرنا پڑے تو ہمارا خزانہ کم ترین سطح پر آ جائے گا اور ہم انتہائی ضروری اشیا درآمد کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے: بیرونی سرمایہ کاری اُن شعبوں میں کی جائے جن کی مصنوعات برآمد کی جا سکیں اور وہ زرِ مبادلہ کمانے کے قابل ہوں‘ یعنی Export Oriented ہوں‘ ورنہ محض سرمایہ کاری سے زرِ مبادلہ کے بوجھ میں اضافہ ہو گا۔اس کی مثال یہ ہے: گزشتہ حکومت نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو تیرہ فیصد شرحِ سود پر زرِ مبادلہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کرنے کی ترغیب دی‘ اُس وقت سود کی عالمی شرح دو فیصد کے لگ بھگ تھی‘ اس طرح بعض لوگوں نے بیرونی ممالک سے دو فیصد شرح سود پر قرض لیا اور اُسے پاکستان میں تیرہ فیصد شرحِ سود پر جمع کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد اصل مع منافع لے گئے اور پاکستان پر زرِ مبادلہ کا دبائو مزید بڑھ گیا۔
(7) قومی اتفاقِ رائے: ملکی‘ ملّی اور قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے کم از کم آئندہ دس سال کیلئے دیرپا معاشی پالیسی بنائی جائے تاکہ حکومت بدلنے سے پالیسی کے تسلسل میں فرق نہ آئے‘ شاید اس سے ہماری معیشت کا پہیہ رواں ہو جائے اور ہم بتدریج اس معاشی بحران سے نکل سکیں۔
(8) یہ بھی لازم ہے کہ احتساب اور سیاسی انتقام میں فرق کو واضح کیا جائے‘ ورنہ سیاسی قیادت اور نوکر شاہی بھی سہم جاتی ہے اور افسران بڑے فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہوتے‘ نیز سرمایہ کار بھی محتاط رہتے ہیں اور پچھلے دو عشروں میں کافی سرمایہ ہمارے ملک سے باہر منتقل ہو چکا ہے‘ صرف متحدہ عرب امارات اور شرقِ اوسط میں جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہو گا کہ پاکستانیوں کے اربوں ڈالر وہاں کاروبار اور تعمیری صنعت میں لگے ہوئے ہیں‘ بہت سے لوگ امریکہ اور یورپ منتقل ہو جاتے ہیں‘ اس لیے ملک سے سرمائے کی اس اُڑان کا بھی کوئی حل تلاش کیا جائے۔