تیسری اور چوتھی آیات النحل: 44 اور یونس: 24 کا بھی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ میں جس غوروفکر کی تاکید کی گئی ہے‘ ان کا سیاق (Context) یہ ہے کہ حقانیت کے جو دلائل قرآنِ کریم نے بیان فرمائے ہیں اور خاص طور پر کفار سے ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے‘ ظاہر ہے: اس کے عموم سے غوروفکر کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے‘ جس کی صرف شکایت کنندہ ہی کو نہیں بلکہ ہر ایک کو ضرورت ہے حتیٰ کہ عدالت کو بھی اس سے زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس سے نہ کوئی جرم ثابت ہوتا ہے اور نہ کسی جرم کی نفی ہوتی ہے۔ پانچویں آیت الحجر: 9 حیرت انگیز طور پر نقل کی گئی ہے: ''حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘ (الحجر: 9)۔
اس آیت کا زیرِ نظر مقدمے سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی حفاظت اپنے ذمے لی ہے‘ لیکن کیا کسی ادنیٰ معقولیت کے ساتھ بھی اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ اب بندوں کو اس کی حفاظت کا کوئی اِقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ اسے حفظ کرنے کی ضرورت ہے‘ نہ چھاپنے کی حاجت ہے اور نہ قرآن کریم کی تحریف کو جرم قرار دیا جا سکتا ہے‘ نیز اگر بالفرض کوئی لفظی یا معنوی تحریف کر بھی لے‘ تو بھی اس کا ہاتھ نہیں پکڑا جا سکتا۔ پس قانون چاہے 2011ء کا ہو یا 2021ء کا‘ دونوں میں تحریف کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیا یہ کوشش اس آیت کے خلاف ہے‘ کیا امت مسلمہ قرآنِ کریم اور اس کی حرمت کے تحفظ کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہے اور اس کی بابت کسی کوتاہی پر اُن سے جواب طلبی نہیں ہو گی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ زیرِ نظر فیصلے میں درج کی گئی پانچوں آیتوں کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں بنتا‘ لہٰذا سیاق وسباق کی مناسبت کے بغیر ان کا حوالہ ذہنوں میں قطعیت کا سبب بننے کے بجائے‘ فکری انتشار کا سبب بنا۔ ان آیتوں کے ساتھ فیصلے میں آئین کی دفعہ 20B کا بھی حوالہ دیا گیا ہے‘ اس کے تمہیدی الفاظ یہ ہیں:
Subject to law, public order and morality,
(A) Every citizen shall have the right to profess, practice and propagate his Reliigion; and (B) Every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions.
نیز آئین کی دفعہ 22 شق 3 کا بھی حوالہ دیا گیا ہے‘ اس کے الفاظ یہ ہیں:
(3) Subject to law: No religious community or denomination shall be prevented from providing religious instruction for pupils of that community or denomination in any educational institution maintained wholly by that community or denomination.
آئین کی ان دونوں دفعات کو نقل کرتے ہوئے زیر نظر فیصلے میں ان دفعات کے شروع کے الفاظ نقل نہیں فرمائے گئے‘ جو ان دفعات میں دیگر مذاہب کو دی گئی آزادی پر قانون‘ امنِ عامّہ اور اخلاق کی پابندی عائد کرتے ہیں۔ الغرض دفعہ: 20 میں یہ صراحت ہے: اس دفعہ میں جو آزادی دی گئی ہے‘ وہ قانون‘ امن عامّہ اور اخلاق کے تابع ہے اور دفعہ: 22 میں بھی یہ صراحت موجود ہے: یہ آزادی قانون کے تابع ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ کی تشریح میں آزادی کی وسعت کو کسی قانون‘ امن عامّہ یا اخلاقی اصولوں کی وجہ سے ضابطوں کا پابند کرکے محدود کیا جا سکتا ہے۔
آئین کی دی ہوئی اجازت کے تحت قادیانیوں کے بارے میں ان دفعات کے عموم کو باقاعدہ قانون کے ذریعے ضابطوں کا پابند اور محدود کیا گیا ہے اور وہ قانونی ضوابط تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295B اور 298C میں‘ نیز پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ 2011 اور 2021 میں موجود ہیں اور زیرِنظر مقدمہ بھی انہی دفعات کے تحت دائر کیا گیا تھا۔ پس زیرِ نظر مقدمے میں عدالت کے سامنے اصل سوال یہ تھا: ملزَم پر ان دفعات کے تحت جرم ثابت ہے یا نہیں‘ اس مقدمے میں عدالت کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ ان دفعات کو قرآن وسنت یا آئینی دفعات کی کسوٹی پر پرکھے‘ اس لیے اس مقدمے کی حد تک عدالت کا ان آیات قرآنی یا آئین کی دفعات کو زیر بحث لانا قطعی غیر ضروری تھا۔
قرآن وسنّت کی روشنی میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے جو آئینی ترمیم کی گئی تھی‘ وہ پارلیمنٹ میں طویل بحث اور قادیانی و لاہوری گروپ کا موقف تفصیل کے ساتھ سننے کے بعد کی گئی تھی۔ مغالطہ پیدا کرنے کے لیے بعض قادیانی کہتے تھے: انہیں دستوری اغراض کے لیے غیر مسلم قرار دیا گیا ہے‘ قرآن وسنت کے لحاظ سے وہ غیر مسلم نہیں ہیں‘ اسی بنیاد پر انہوں نے فیڈرل شریعت کورٹ میں درخواست دائر کی‘ اُس میں بھی دفعہ 298B اور 298C پر اس تناظر میں تفصیلی بحث کی گئی تھی۔ فریقین کے دلائل تفصیل کے ساتھ سُنے گئے اور عدالت نے 1984ء میں 183 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا اور پوری تفصیل کے ساتھ قانون کا جائزہ لے کر یہ قرار دیا کہ یہ قوانین اسلامی احکام کے عین مطابق ہیں۔ بعد ازاں اس فیصلے کو سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں چیلنج کیا گیا اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ نے اپنے فیصلے (پی ایل ڈی 1988 SC) میں قرار دیا: '' فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ نافذ رہے گا‘‘۔ پھر 1988ء میں یہ سوال سپریم کورٹ کے سامنے آیا کہ یہ دفعات آئین کی دفعہ 20 کے خلاف ہیں یا نہیں‘ سپریم کورٹ نے اس پر بھی نہایت مفصل فیصلہ دیا جو ظہیر الدین بنام ریاست (1993SCMR1718) کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے ایک طرف تو اسلامی احکام کے لحاظ سے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کو ان الفاظ میں تسلیم کیا: اگر فیڈرل شریعت کورٹ کے کسی فیصلے کو سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں چیلنج نہ کیا جائے یا چیلنج توکیا جائے‘ مگر سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بنچ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھے‘ تو خود سپریم کورٹ بھی اس کی پابند رہے گی۔
دوسری طرف ظہیر الدین بنام ریاست کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے مذکورہ دفعات (295B اور 298C) کا آئین کی روشنی میں نہایت مفصَّل اور مدلَّل جائزہ لے کر آخر میں یہ فیصلہ دیا کہ یہ دفعات آئین میں دیے ہوئے بنیادی حقوق کے خلاف نہیں ہیں‘ چنانچہ ان قوانین کے خلاف تمام اپیلیں خارج کر دیں اور جو ملزمان ضمانت پر تھے‘ انہیں گرفتار کرنے اور سزا دینے کا حکم جاری کیا۔ اس تفصیل سے واضح ہوا: زیر نظر مقدمے میں مذکورہ آیاتِ مبارکہ اور آئین کی دفعات کا تذکرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی‘ کیونکہ یہ معاملہ اعلیٰ عدالتوں میں پہلے ہی طے ہو چکا ہے اور سپریم کورٹ پر بھی اس کی پابندی لازم ہے۔
مذکورہ بالا اعلیٰ عدالتوں نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی ہے: آئین کی دفعہ 20 اور 22 میں غیر مسلموں کو جو مذہبی آزادی دی گئی ہے‘ وہ اس وقت ہے جب وہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت مان کر اپنے مذہب پر عمل کریں‘ جیسے ہندو‘ عیسائی‘ یہودی وغیرہ کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف قادیانیوں کا معاملہ الگ ہے‘ کیونکہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم ظاہر نہیں کرتے‘ بلکہ اپنے آپ کو مسلم قرار دے کر دستورِ پاکستان اور تعزیراتِ پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں‘ پس وہ اس آزادی سے فائدہ اٹھانے کے اہل نہیں ہیں۔(جاری )