علامہ اقبال نے کہا تھا: وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے ؍ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔ علامہ نے تو وطن کے بارے میں متفکر ہونے کی وعید سنائی تھی‘ لیکن اب جدید دنیا میں انسانیت کی بقا اور مقصدیت پر سوال کیا جا رہا ہے۔ سوفٹ ویئر انجینئر حسان احمد صاحب نے ماہنامہ ''ترجمان القرآن‘‘ میں ایک فکر انگیز اور چشم کشا مضمون لکھا ہے‘ وہ لکھتے ہیں: ''بیسویں صدی کے آخر میں ''نئے عالمی نظام اور تہذیبوں کے تصادم‘‘ کی صدائے بازگشت سنائی دی تھی‘ لیکن اب ''عظیم تعمیرِ نَو اور کائنات وعالمِ انسانیت کے مستقبل‘‘ کی بات ہو رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے چلانے والوں کے افکار سامنے آ رہے ہیں‘ ایکس کے مالک اور دنیا کے مالدار ترین شخص ایلون مسک نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: ''اصل لڑائی دو قوتوں کے درمیان ہے: معدومیت پسند (Extinctionists) جو پوری انسانیت کی تباہی چاہتے ہیں اور توسیع پسند (Expansionists) جو ستاروں کی تسخیر اور کائنات کے رازوں کو سمجھنا چاہتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید لکھا: ذرا سوچیں: اگر معدومیت پسندوں کے فلسفے کو مصنوعی ذہانت کے پروگرام میں شامل کر دیا جائے‘ بلکہ مصنوعی ذہانت کا یہ کام گوگل اے آئی اور چیٹ جی پی ٹی پہلے ہی کر رہے ہیں‘ تو اس کے نتائج کے بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے۔ دراصل ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی درجۂ حرارت میں غیر معمولی اضافہ سائنسدانوں اور ان کے مربّیوں یعنی سرمایہ داری کے بڑے بڑے عفریتوں کو پریشان کر رہا ہے‘ ان کے نزدیک ''گرین ہائوس گیسوں کا غیر معمولی اخراج ‘‘ مستقبل کی تباہ کن تصویر پیش کر رہا ہے۔ یہ خطرات بھی لاحق ہیں کہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کے نتیجے میں بڑے بڑے برفانی تودے پگھل سکتے اور سیلابوں کے ذریعے آبادیوں کی تباہی اور غرقِ آب ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے: ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے میں تیس فیصد حصہ فوڈ انڈسٹری کا ہے‘ اسی طرح زہریلی میتھین گیس کے اخراج کا ایک بڑا سبب بھینسوں اور گائیوں وغیرہ کے بڑے بڑے ''لائیو سٹاک فارم‘‘ ہیں جو دنیا بھر کو اُن کا گوشت سپلائی کرتے ہیں‘ اس لیے یہ تحریک بھی سر اٹھا رہی ہے کہ بڑے بڑے ''مویشی فارم‘‘ ختم کرکے اِن مویشیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جائے اور مصنوعی گوشت کا استعمال شروع کیا جائے۔ ہالینڈ اور آسٹریلیا دنیا میں لائیو سٹاک سے متعلق مصنوعات کے بڑے برآمد کنندگان ہیں‘ وہاں انہیں محدود کرنے کیلئے قانون سازی کی تحریک بھی بپا ہو رہی ہے۔ یہ بھی خیال ہے: زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے جو مصنوعی کھاد استعمال ہو رہی ہے‘ وہ بھی بڑی خرابیوں کا سبب ہے۔ یہ تو آپ سب کو معلوم ہے: گائیوں کی جلدی بیماری کے وائرس اور مرغیوں میں ''برڈ فلو‘‘ کے سبب بڑی تعداد میں جانوروں کو ہلاک کیا جاتا رہا ہے‘ اسی طرح نیوزی لینڈ میں شہد کی مکھیوں میں خطرناک وائرس دریافت ہونے پر شہد کی مکھیوں کے فارم مالکان کو انہیں ہلاک کرنے کا حکم ملا۔ یہ تحریک بھی چل رہی ہے کہ لوگ خوراک کیلئے چینیوں کی طرح جھینگر اور کیڑے مکوڑوں کی طرف آئیں۔ دوسری طرف تضاد کا عالَم یہ ہے: ماحولیاتی تحفظ کیلئے جو لوگ عالمی اقتصادی فورم میں جمع ہوتے ہیں‘ وہ اپنے ذاتی جہازوں پر سفر کر کے آتے ہیں اور ان کے یہ ذاتی جیٹ ایک گھنٹے کی پرواز میں بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرتے ہیں۔ اسی طرح کووِڈ 19 کے بارے میں اب تک یہ شبہ موجود ہے کہ چین کے شہر ووہان میں یہ وائرس لیبارٹری میں پیدا ہوا‘ اس کی تیاری کیلئے فنڈنگ کثیر الممالک امریکی کمپنیاں کر رہی تھیں‘ چنانچہ اس کے بعد چین نے مختلف لیبارٹریوں کو بند کر کے غیر ملکی سائنسدانوں کو ملک سے نکال دیا تھا اور مقامی سائنسدانوں کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی لگا دی تھی۔ کورونا ویکسین بنانے والی امریکی فارماسیوٹیکل کمپنی ''فائزر‘‘ پر بھی شبہات ہیں کہ اس کے نتیجے میں کئی دوسری پیچیدہ بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں‘ چنانچہ حساسیت اور متعدی امراض کے امریکی ادارے ''نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزیز‘‘ کے ڈائریکٹر اَنتھونی سٹیفن فائوچی پر امریکن کانگریس میں شدید تنقید کی گئی ہے۔
یہ سوال بھی سامنے آ رہا ہے: جب روبوٹس انسانوں کی جگہ لے لیں گے‘ انسانی دماغ کی جگہ مصنوعی ذہانت کا چلن عام ہو جائے گا‘ تو انسان کا مصرف کیا رہ جائے گا۔ بیکار لوگوں کا ایک لشکرِ جرار ہوگا اور یہ سوال پیدا ہو گا: کیا انسانوں کی ضرورت اب بھی باقی ہے یا انہیں مصنوعی طریقے سے ختم کرنے کی تدبیر کی جائے گی۔ ماہرین نے لکھا ہے: فی الحال ہم یہی کہہ سکتے ہیں‘ انہیں گیمز اور منشیات کے ذریعے خوش رکھا جائے گا‘ البتہ ہم اُس دورکے مسلمانوں کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں: رہائش‘ لباس اور خوراک کے تمام غموں سے آزاد ہوکر اللہ کی عبادت میں محو ہو جائیں اور اپنی روح کو تسکین پہنچائیں۔ ماہرین کے مطابق: جب سب انسان بیکار ہو جائیں گے تو ایک فارمولا یہ ہو گا: عالمی معیار کا ایک بنیادی گزارہ الائونس سب کیلئے جاری ہو سکتا ہے۔ ماہرین یہ خواب بھی دیکھ رہے ہیں: آنے والے زمانے میں مصنوعی ذہانت اور اِحیائی ٹیکنالوجی کے اشتراک سے العیاذ باللہ! کیا انسان خدائی انداز میں حیات تخلیق کرنے یا زندگی کو نئی شکل دینے یا نئی حیات پر قادر ہو جائے گا۔ اِحیاء اور اِمَاتَت (حیات عطا کرنا اور سلب کرنا) اسلام کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے‘ وہی خالق‘ مُحِیی اور مُمِیْت ہے۔
ترنول اسلام آباد میں دینی‘ تعلیمی اورتربیتی مرکز ''جامعہ محمدیہ سیفیہ‘‘ کے سربراہ محترم ڈاکٹر کرنل (ر) محمد سرفراز سیفی ہیں‘ ان کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر محمد معظم فراز نے انگلینڈ سے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور نسٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں اس شعبے کے سربراہ ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: گوگل‘ شاملہ اور دیگر ایپس میں پہلے سے معلومات کا ذخیرہ موجود ہے‘ اس کے ہوتے ہوئے مصنوعی ذہانت کی ضرورت کیوں پیش آئی‘ انہوں نے بتایا: گوگل اور اس جیسی دیگر ایپس کی مثال ڈیپارٹمنٹل سٹور کی ہے جبکہ مصنوعی ذہانت کی مثال فارمسٹ (ماہرِ علم الادویہ) کی ہے‘ جو مسئلہ آپ کو درپیش ہے‘ وہ اس کے مختلف حل آپ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا: اس کا مطلب یہ ہے: آخرِکار جو حل اختیار کرنا ہے‘ اس کا فیصلہ تو انسانی دماغ ہی کرے گا‘ تو کیا انسانی دماغ کی مکمل نفی کی جا سکے گی۔ الغرض پہاڑ جیسے سوالات‘ اِشکالات‘ اِبہامات اور شبہات تو رہیں گے‘ مستقبل میں کیا مناظر سامنے آتے ہیں‘ اس کا حقیقی اور قطعی علم اللہ کے پاس ہے‘ پس آنے والے دور میں بہت سے دینی‘ فکری اور فقہی سوالات ہمارے جواں عمر علما کے منتظر ہیں۔
حال ہی میں ہمارے ایک بزرگ عالم دین نے دیوبندی بریلوی خلافیاتِ مسلک پرمجھے اپنے کئی رسائل بھیجے‘ حالانکہ ان موضوعات پر وافر علمی ذخیرہ پہلے سے موجود ہے۔ دعا ہے: اللہ تعالیٰ اُن کا سایہ تمام تر جسمانی‘روحانی‘ عملی اور علمی قویٰ کی سلامتی کے ساتھ تادیر قائم ودائم رکھے اور ہم ان سے فیض پاتے رہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے: ہم اپنے عہد کے لَمس سے کس قدر ناآشنا ہیں‘ اپنے عہد کے تقاضوں اور ممکنہ طور پر پیش آنے والے دینی اور فقہی اشکالات کے بارے میں ہماری آگاہی کی علمی سطح کیا ہے اور ان کیلئے ہماری تیاری کیا ہے۔ پس جواں عمر علما اور مفتیانِ کرام کو ہمارا عاجزانہ مشورہ ہے: اپنے عہد کے چیلنجوں کیلئے علمی‘ ذہنی اور فکری طور پر تیاری کریں‘ ایسا نہ ہو کہ ہم ان چیلنجوں کو سمجھنے سے بھی قاصرہوں‘ حل تو بعد کی بات ہے۔ سوشل میڈیا کے سیلاب کی وجہ سے جدید ذہن بہت زیادہ آزاد رو اور آزاد خیال ہو چکا ہے‘ ماسوا ان کے جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہو اور وہ اُنہیں علمی‘ فکری اور اخلاقی کجی اور لغزش سے محفوظ رکھے‘ الغرض حاملینِ دین کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ اس موضوع پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔