علامہ اقبال نے اپنے فارسی دیوان ''رموزِ بے خودی‘‘ میں ''درمعنی حریتِ اسلامیہ وسرِّ حادثۂ کربلا‘‘ کے عنوان سے امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔ ہم اس نظم کے منتخب اشعار کا مفہوم اپنی ترتیب سے بیان کر رہے ہیں ۔ علامہ اقبال امام عالی مقامؓ کو فہمِ قرآن‘ اِحیائے اَقدارِ دین‘ تسلیم و رضا‘ صبر و قناعت اور عزیمت واستقامت کے لیے معیار و مدار سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک امام عالی مقامؓ بے مثال ایثار واستقامت کا ایک ابدی استعارہ ہیں؛ چنانچہ وہ کہتے ہیں:
رمز قرآن از حسینؓ آموختیم؍ ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم
یعنی میں نے قرآن کا راز حضرت حسینؓ سے سیکھا اور اُن کی آتشِ عشق سے کئی شمعیں روشن کی ہیں اور کئی چراغ جلائے ہیں۔
اقبال کے بقول امت کے درمیان امام عالی مقامؓ کی مثال کتابِ الٰہی میں ''قُل ھُوَ اللّٰہ اَحَد‘‘ کے کلمات جیسی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
درمیاں اُمت آں کیواں جناب؍ ہمچو حرفِ قُل ھو اللّٰہ در کتاب
امام عالی مقامؓ نے عزیمت واستقامت کی راہ پر گامزن ہوکر بے مثال قربانیاں دیں‘ اپنی موجِ خون سے اَقدارِ حق کے اِحیا کا ایک نیاگلستان آباد کیا اور تاقیام قیامت ظلم و استبداد کی راہوں کو مسدود کرنے والوں کیلئے مثالی کردار بنے۔ اقبال کہتے ہیں:
تا قیامت قطعِ استبداد کرد
؍موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد
بہر حق در خاک و خون غلطیدہ است؍ پس بنای لا الٰہ گردیدہ است
علامہ اقبال حق کو چراغِ مصطفوی اور باطل کو شَرار بولہبی سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز؍ چَراغِ مُصطفوی سے‘ شَرارِ بُولہبی
یعنی ازل سے آج تک حق وباطل کے مابین معرکہ بپا ہے‘ چراغِ مصطفوی سے شَرارِ بولہبی کی جنگ جاری ہے‘ اقبال نے ابولہب کی حقارت واضح کرنے کیلئے اُسے ایک معمولی سا شرارہ قرار دیا ہے اور عظمتِ مصطفیﷺ کے اظہار کیلئے اس شرارے کے مقابلے میں لفظِ ''چراغ‘‘ استعمال کیا ہے۔ چراغ دیرپا روشنی کا ایک استعارہ ہے‘ جبکہ شرارہ ایک لمحاتی اور عارضی چمک دکھا کر بجھ جاتا ہے‘ لیکن افسوس ہمارے دور میں تو بولہبی نے بھی چراغِ مصطفوی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ جمیل مظہری نے خوب کہا ہے:
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی ؍جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
علامہ اقبال امام عالی مقام کو حق وباطل کی اسی جنگ کا استعارہ کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید؍ این دو قوتِ از حیات آید پدید
زندہ حق از قوتِ شبیری است؍ باطل آخر داغِ حسرتِ مِیری است
یعنی حق وباطل کی معرکہ آرائی کبھی موسیٰ وفرعون کی صورت میں جاری رہی‘ پھر ختم المرسلین خاتم النبیینﷺ کے عہدِ مبارک میں چراغِ مصطفوی اور شرار بولہبی کی صورت میں نظر آئی اور آپﷺ کے بعد یہی معرکہ شبیر و یزید کی صورت میں بپا ہوا‘ یہی دو قوتیں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوئیں‘ حق قوتِ شبیری سے زندہ ہے اورشاہی (باطل اقتدار) ظاہری فتح کے باوجود آخر کار داغِ حسرت بن کر رہ جاتا ہے۔اقبال کہتے ہیں: امام عالی مقامؓ کی شہادت اسی داستانِ حرم کی انتہا ہے‘ جس کا آغازحضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے ہوا تھا‘ وہ کہتے ہیں:
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ‘ ابتدا ہے اسماعیلؑ
نیز انہوں نے بجا کہا:
حقیقت ابدی ہے مقامِ شبیری ؍بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
علامہ اقبال اپنے عہد سے شکوہ کناں ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں آج بھی یزیدی اَقدار کا چَلن ہے‘ یہی سکّۂ رائج الوقت ہے‘ حسینؓ سے محبت کے دعویدار تو بہت ہیں‘ لیکن حسینی اقدار کا علَم بردار کوئی نہیں‘ کربلا کا نوحہ پڑھنے والے تو بے شمار ہیں‘ لیکن اپنے حصے کی کربلا سجانے والا کوئی نہیں:
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
علامہ اقبال کے نزدیک عشق نفع ونقصان سے بے نیاز ہوکر اللہ تعالیٰ کی اَحدیت مطلقہ کی شہادت رقم کرنے کے لیے آتشِ نمرود میں بے خوف وخطر کود جانے کا نام ہے‘ عشق کی کتاب میں نفع نقصان کا کوئی میزانیہ نہیں ہوتا‘ مقصدِ حقیقی کے لیے سب کچھ وار کردینے کا نام عشق ہے‘ جبکہ عقل نفع نقصان کا تخمینہ لگاتی ہے‘ وہ سوچ میں غلطاں وپیچاں رہتی ہے‘ وہ کہتے ہیں:
عقل عیّار ہے‘ سَو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلّا ہے‘ نہ زاہد‘ نہ حکیم
علامہ اقبال کے فکری نظام میں متعدد موضوعات ہیں‘ اُن کا ایک پسندیدہ موضوع ''عشق و عقل‘‘ ہے‘ اُن کے نزدیک نتائج سے بے نیاز ہوکر اعلیٰ ترین مقصد کے لیے اپنی متاع حیات و زیست کو قربان کردینے کا نام عشق ہے‘ عشق ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے‘ ایمان وایقان کی روح عشق ہے۔ اس کے مقابل اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ دوسری نعمت عقل ہے‘ عقل ہی انسان کو حیوانات سے ممتاز کرتی ہے‘ عقل ہی انسان کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مکرّمﷺ کے احکام کا مکلَّف اور جواب دہ بناتی ہے۔ عقلِ خداداد کی نعمت سے ہی انسان نے کائنات کو مسخر کیا ہے۔ عقل ہی کی بدولت انسان نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور کائنات میں اُس کے سربستہ رازوں کو جانا ہے‘ انسان سمندروں کی گہرائیوں میں اترا‘ پہاڑوں کی بلندیوں کو سَر کیا‘ فضائوں اور خلائوں میں سیر کی‘ ایجادات کیں‘ تسخیرِ کائنات کا یہ سفر تاقیامت جاری رہے گا۔ لیکن جب علامہ اقبال عقل کا مقابلہ عشق سے کرتے ہیں‘ تو اُن کے نزدیک عشق یقینِ راسخ ہے‘ عقل ظنّ‘ ریب و تردُّد اور کسی بھی اقدام سے پہلے نفع نقصان کا تخمینہ لگانے کا نام ہے۔ علامہ اقبال عشق کو دین کا جوہر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
صدقِ خلیل بھی ہے عشق‘ صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حُنین بھی ہے عشق
علامہ اقبال امام عالی مقامؓ کو اسی عشق کا استعارہ سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں (جگہ کی قلت کے سبب اشعار کے ترجمے پر اکتفا کرتے ہیں):
''جس نے اللہ کی ذات سے پیمانِ وفا باندھ لیا‘ اُس کی گردن ہر معبودِ باطل کی قید سے آزاد ہو گئی‘ مومن کی پہچان عشق سے ہے اور عشق کی پہچان مومن سے ہے۔ عشق بظاہر ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے‘ عقل اگر سفاک ہے تو باطل کے مقابلے میں عشق سفاک تر ہے‘ لیکن عشق پاک ہے‘ ہوشیار ہے اور باطل کے خوف سے بے نیاز ہے‘ عقل سبب اور مُسَبَّب کی پیچیدگیوں میں کھوئی رہتی ہے‘ عشق میدانِ عمل میں مشقِ ناز کرتا ہے‘ عشق زورِ بازو سے شکار کرتا ہے۔ عقل مکار ہے اور دامِ ہمرنگِ زمیں بچھا کر شکار کو پھنساتی ہے۔ عقل کا سارا سرمایہ خوف اور شک ہے‘ جبکہ عشق کے لیے عزم ویقیں اٹوٹ انگ ہیں۔ عقل ہوا کی طرح دنیا میں ارزاں ہے‘ جبکہ عشق کمیاب ہے‘ انمول نعمت ہے۔ عقل کہتی ہے: مفادات سمیٹنے کے لیے خود کو آگے رکھو‘ عشق کہتا ہے: خود کو آزمائش کے لیے پیش کرو۔ عقل کہتی ہے: غم پالنا چھوڑو‘ خوش رہو آباد رہو‘ عشق کہتا ہے: رب کے بندے بن جائو اور مخلوق کی غلامی سے آزاد ہو جائو۔ امام عالی مقامؓ امام العاشقین ہیں‘ سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے لختِ جگر ہیں‘ چمنِ رسالت میں حرّیت کا مَنار ہیں‘‘۔ سانحۂ کربلا کی بابت کہتے ہیں: ''نور و رحمت کی برسات بھی کربلا کی زمین پر برس کر چلی گئی‘ کربلا کے ویرانے میں باطل معبودوں کی نفی کا بیج بویا اور (عالَم بالا) کی طرف چلے گئے‘وہ ابراہیم واسماعیل علیہم السلام کی قربانیوں کا راز تھے‘ پس ذبحِ اسماعیل اجمال تھااور کربلا اُس کی تفصیل تھی۔