شاعر نے کہا ہے:
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
شر سے بچنے کا حکیمانہ طریقہ یہ ہے: اگر آپ کسی برائی سے بچنا چاہتے ہیں تو اس میں مبتلا ہونے اور اس کے مہلک اثرات ظاہر ہونے کے بعد آہ و فُغاں کرنے سے بہتر ہے پیش بندی کرلی جائے۔ سو شاعر نے مشورہ دیا ہے کہ اگر آپ نے پروانے کی جان بچانی ہے تو شہد کی مکھی کو باغ میں گھسنے نہ دیں کیونکہ جب وہ باغ میں جائے گی تو پھلوں‘ پھولوں‘ کلیوں اور پتوں کا رس چوسے گی اور واپس اپنے چھتے پر آکر اسے اگل دے گی۔ اس سے شہد بھی بنتا ہے اور موم بھی۔ جب موم بنتا ہے تو اس سے شمع جلتی ہے اور جب شمع جلے گی تو لازم ہے کہ پروانہ بھی آئے گا اور اس طرح وہ شمع کی لو میں جل کر فنا ہو جائے گا۔ لہٰذا اگر پروانے کی زندگی چاہیے تو اس کی موت کے اسباب کا سدِباب کیجیے۔ شریعت نے بھی منکرات سے بچنے کی تدبیر یہی بتائی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''حلال و حرام واضح ہیں (ان میں کوئی ابہام نہیں ہے) لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ (غیر واضح) امور ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص مشتبہ امور سے بچا رہا‘ اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچا لیا اور جو مشتبہ امور میں مبتلا ہو گیا تو اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد اپنے مویشی چراتا ہے اور ہمیشہ اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ اس کے مویشی کھیت میں جا گھسیں گے‘ سنو! ہر بادشاہ کی کچھ ممنوعہ حدود ہوتی ہیں اور اللہ کی زمین پر اس کی ممنوعہ حدود اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں‘ سنو! بے شک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے‘ اگر وہ صحیح ہے تو پورا جسمانی نظام درست رہتا ہے اور اگر اس میں بگاڑ آجائے تو پورا جسمانی نظام بگڑ جاتا ہے‘ سنو! گوشت کا وہ لوتھڑا دل ہے۔ (بخاری:52)‘‘۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خطرات کے قریب جانا اُن میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے۔
آپ ایسے تمام لوگوں کا جائزہ لیں جو چوری‘ بدکاری‘ منشّیات اور فساد میں مبتلا ہیں‘ ابتدا میں ان کا ارادہ ارتکابِ جرم کا نہیں ہوتا‘ وہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس میں کیا کشش ہے لیکن یہ وہ بندگلی ہے جہاں داخل ہونے کا راستہ تو ہوتا ہے‘ واپسی کا راستہ نہیں ہوتا اور زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح جو لوگ سادگی میں کسی گینگ یا مافیا کے ہاتھ لگ جاتے ہیں تو اپنے آپ پر بھی ان کا اپنا اختیار باقی نہیں رہتا‘ ان کی لگام کسی اور کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ نفسیاتی خوف کے نتیجے میں یہ بات ان کے دل و دماغ میں پیوست ہو جاتی ہے کہ اب ان کی بقا کا راز انہی کے ساتھ جڑے رہنے میں مضمر ہے۔ وہ اسی کو اپنا آخری ٹھکانا بھی سمجھتے ہیں اور وہ اتنے بے رحم ہوتے ہیں کہ جو ان کے حصار کو توڑنا چاہے‘ اسے اس طرح نیست و نابود کرد یتے ہیں کہ نشان بھی نہیں ملتا۔
ابتدائے آفرینش سے رب تبارک و تعالیٰ نے ہماری اصلاح کیلئے یہی حکمت پسند فرمائی کیونکہ وہ انسان اور اس کی فطرت کا خالق ہے۔ وہ اس کی خوبیوں اور خامیوں‘ قوت و ضُعف اور استعداد کو بہتر جانتا ہے۔ پس اس کی حکمت نے چاہا کہ آدم و بنی آدم برائی سے دور رہیں۔ چنانچہ جب حضرت آدم و حوا کو جنت میں داخل کیا گیا تو انہیں یہ نہیں فرمایا: ''اس درخت کو نہ کھانا‘‘ بلکہ فرمایا ''تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا (البقرہ:35)‘‘۔ اسی حقیقت کو نبی کریمﷺ نے ''مشتَبہات‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ درخت کا پھل وہی کھائے گا جو اس کے قریب جائے گا‘ جو اُس سے کوسوں دور رہے اس کے دل میں کبھی اس کی طلب بھی پیدا نہیں ہو گی۔ انسان کے ازلی دشمن شیطان نے حضرت آدم و حوا کو بہکانے اور لغزش دینے کیلئے یہی حربہ استعمال کیا اور کہا: ''تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے صرف اس لیے روکا ہے کہ تم ( اس کا پھل کھا کر) فرشتے بن جاؤ گے یا تمہیں دائمی زندگی مل جائے گی (الاعراف:20)‘‘۔ کھلے دشمن کو پہچاننا تو آسان ہوتا ہے‘ انسان اس سے بچاؤ کیلئے کوئی تدبیر بھی اختیار کر لیتا ہے لیکن اس کا سب سے خطرناک دشمن وہ ہے جو خیرخواہ اور ہمدرد کے روپ میں آکر شکار کرتا ہے۔ ابلیس بھی حضرت آدم و حوا کے پاس اسی روپ میں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''اس نے قسم کھاکر ان دونوں کو یقین دلایا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں(الاعراف:21)‘‘۔ قرآنِ کریم نے اس کے سارے مکروفریب کا ہدف ان الفاظ میں بتا دیا: ''پھر شیطان نے دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کا سَتر‘ جو ان سے مخفی رکھا گیا تھا‘ اسے ان پر ظاہر کردے(الاعراف:20)‘‘۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ''سو جب ان دونوں نے اس (ممنوعہ) درخت کو چکھ لیا تو ان دونوں کی شرمگاہیں بے حجاب ہو گئیں‘ پھر وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے (الاعراف:22)‘‘۔آج یہی مظاہر ہم میڈیا کے مختلف شعبوں اور صنعتِ تشہیر میں ہر سو دیکھتے ہیں۔ ہم اپنی خواب گاہوں میں بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں ہیں۔ الغرض عریانی‘ فحاشی‘ اخلاق بافتگی‘ برہنگی‘ صنفی اور جنسی اشتہا کی اشتعال انگیزی شیطان کا ایسا حربہ ہے جو دلکشی‘ دلربائی اور فریبِ نظر کی مختلف صورتوں میں ہمارے سامنے اپنی تمام تر بربادیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہ تہذیبِ مغرب کی کوئی نئی ایجاد نہیں ہے‘ بس ہیئت بدلتی رہتی ہے‘ ورنہ روزِ اول سے شیطان کا منشور یہی رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ‘ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ(الانعام:151)‘‘۔ نیز بے حیائی کے آخری درجے کی بابت فرمایا: ''اور زنا کے قریب نہ جاؤ‘ بے شک یہ بے حیائی (کی انتہا )ہے اور برا راستہ ہے(بنی اسرائیل:32)‘‘۔ قرآن و سنت میں جرمِ زنا کیلئے عبرت ناک سزائیں مقرر کی گئی ہیں لیکن شریعت کی روح یہ ہے کہ زنا میں مبتلا ہونے کا تصور ہی ایمان کی نفی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: '' نبیﷺ نے فرمایا: ایمان کی حالت میں زانی زنا نہیں کرتا‘ شرابی شراب نہیں پیتا‘ چور چوری نہیں کرتا‘ ڈاکو ڈاکا نہیں ڈالتا کہ ڈاکا زنی کے وقت لوگ اس کی جانب نظریں اٹھاکر دیکھتے رہ جائیں ( بخاری: 2475)‘‘۔ محدثینِ کرام نے اس حدیث کی شرح میں تفصیلی کلام کیا ہے‘ اس کی روح یہ ہے کہ جب انسان ان خُرافات میں مبتلا ہوتا ہے تو اس سے ایمان کا نور اٹھ جاتا ہے کیونکہ ایمان اور یہ کالے کرتوت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
زنا میں مبتلا ہونا تو بہت دور کی بات ہے‘ اسلام نے اس کے محرکات اور اسباب سے بھی بچے رہنے کی تعلیم دی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ''اللہ نے ہر بنی آدم کیلئے زنا کا حصہ لکھ دیا ہے‘ وہ اسے لازماً پائے گا‘ پس آنکھ کا زنا (شہوت بھری) نظر سے دیکھنا‘ زبان کا زنا (جنسی لذت کی) باتیں کرنا اور (آخرِ کار) نفس (بدکاری کی) تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے(بخاری: 6243)‘‘۔ یعنی یا تو وہ آگ کے اس الاؤ میں کود جاتا ہے اور اگر توفیقِ الٰہی شاملِ حال ہو‘ خشیتِ الٰہی کی بیڑیاں اس کے قدموں میں پڑ جائیں تو بچ جاتا ہے لیکن بازاروں میں اور شاہراہوں پر چلتے پھرتے نگاہیں بچانا مشکل ہے۔خلاصۂ کلام یہ کہ سَمع‘ بصَر اور لَمس یہ تمام حسیات بدکاری کا دروازہ ہیں۔ ہمیں برائیوں کے ان دروازوں کو بند رکھنا ہو گا یا ان کی حفاظت کرنی ہو گی۔ ورنہ ان راستوں سے برائیاں انسان کے دل و دماغ تک پہنچتی ہیں اور جو لوگ ایمان و عقیدے میں کمزور ہوتے ہیں‘ وہ ان کے برے اثرات کو قبول کر لیتے ہیں اور ان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ہر برائی میں مبتلا ہونے سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان ان کے محرکات و اسباب سے دور رہے۔ آئے روز ہم میڈیا پر جو مظاہر سنتے اور دیکھتے ہیں تو قرآن کی حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ فسق و فجور کی راہوں کو کھلا رکھا گیا تو اس میں مبتلا ہونے سے بچنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حکمت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔