علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں: ''جس دن میں لوگوں کا اجتماع ہو‘ اس کو عید کہتے ہیں۔ عید کا لفظ 'عود‘ سے ماخوذ ہے۔ اس کا معنی ہے: لوٹنا‘ کیونکہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کر آتا ہے‘ اس لیے اس کو عید کہتے ہیں یا یہ 'عادت‘ سے ماخوذ ہے‘ کیونکہ اس دن اجتماعی طور پر خوشی منانا لوگوں کی عادت ہے۔ ازہری نے کہا: اہلِ عرب کے نزدیک عید اس دن کو کہتے ہیں‘ جس میں خوشی یا غم لوٹ کر آئے۔ ابن العربی نے کہا: عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ ہر سال نئی خوشی کے ساتھ لوٹ کر آتی ہے‘‘ (لسان العرب‘ ج: 5، ص: 319)۔
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ''عید کو اس لیے عید کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر سال اس دن اپنے بندوں پر انواع و اقسام کے احسانات لوٹاتا ہے اور اس دن فرح‘ سرور اور نشاط و انبساط منانا لوگوں کی عادت ہے‘‘۔ نیز لکھتے ہیں: ''نیگ شگون کے طور پر اس دن کو عید کہا جاتا ہے تاکہ ہماری زندگی میں یہ دن بار بار لوٹ کر آئے‘ جس طرح قافلہ نیک شگون کے لیے کہتے ہیں تاکہ یہ کاررواں سلامتی کے ساتھ واپس لوٹ کر آئے‘ کیونکہ قافلہ کا معنی ہے: لوٹ کر آنا، حالانکہ حقیقتاً وہ جا رہا ہوتا ہے‘‘ (ردّ المحتار، ج: 3، ص: 41)۔
ہر قوم کے لیے خوشی منانے کے کچھ ایام مقرر ہیں۔ اسلام سے پہلے عہدِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ بھی دو دن خوشی مناتے تھے۔ ایک کو 'نیروز‘ اور دوسرے کو 'مہرجان‘ کہتے تھے۔ شارح ابودائود لکھتے ہیں: نیروز دراصل نوروز کا تہوار ہے۔ یہ شمسی سال کا پہلا دن ہوتا ہے جیسے یکم محرم قمری سال کا پہلا دن ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اس دن سورج برج حمل میں منتقل ہوتا ہے اور مہرجان بھی نوروز سے ملتا جلتا تہوار ہے۔ اس کی نوروز سے مماثلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ میزان کا پہلا دن ہے اور ان دونوں ایام میں موسم معتدل ہوتا ہے‘ ہوا موافق ہوتی ہے‘ نہ گرمی ہوتی ہے نہ سردی ہوتی ہے اور ان دنوں میں دن رات برابر ہوتے ہیں۔ پس علم ہیئت کے ماہرین نے ان دنوں کو عید کے طور پر اختیار کیا۔ اس عہد کے لوگوں نے ان کی دانش پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی اقتدا کی اور اس طرح یہ دن عید کے طور پر منائے جانے لگے‘‘ (عون المعبود و شرح ابن القیم: ج: 3، ص: 341)۔ حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ کے دو تہوار کے دن تھے۔ ان سے دریافت کیا گیا: یہ دو دن کیا ہیں‘ انہوں نے کہا: زمانۂ جاہلیت میں ہم ان دنوں میں کھیل تماشے کرتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ نے تمہیں ان دنوں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیے ہیں: عید الاضحی اور عید الفطر کا دن‘‘ (ابودائود: 1134)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم میں بھی عید کا تصور موجود تھا۔ جس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کے بتوں کو توڑا تھا‘ وہ ان کی عید ہی کا دن تھا۔ اس دن وہ ایک جگہ جمع ہوتے‘ مرد و زن کا مخلوط اجتماع ہوتا اور بتوں کی عبادت ہوتی تھی۔ اسی طرح اہلِ مصربھی عہدِ قدیم سے عیدیں مناتے چلے آ رہے تھے۔ ان کی عید کے دن کو قرآن نے ''یَوْمُ الزِّیْنَۃ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے جادوگروں سے مقابلے کا جو دن مقرر ہوا تھا‘ وہ بھی یہی ''یَوْمُ الزِّیْنَۃ‘‘ تھا۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا: یَوْمُ الزِّیْنَۃ سے مراد ان کی عید کا دن تھا۔ (زاد المسیر: ج: 5، ص: 295)۔ اس موقع پر بہت بڑا میلہ لگتا‘ دور دور سے لوگ رقص و تماشا میں حصہ لینے کے لیے آتے‘ عورتیں بن سنور کر خوشبوئیں لگا کر اور بھڑکیلے لباس زیب تن کر کے میلے میں شریک ہوتیں اور مردوں کواپنی طرف مائل کرنے کے لیے اپنے جسم کے بعض حصوں کو عریاں رکھتیں‘ جادوگروں کے کرتب ہوتے تھے۔ فرعون اور اس کی قوم نے بنی اسرائیل پر بہت مظالم ڈھائے‘ اس لیے جس دن فرعون اور اس کے لشکر سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو نجات دی‘ اس دن کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہدایت پر انہوں نے عید کا دن قراردیا۔ وہ اس دن روزہ رکھتے‘ عبادت میں مصروف ہوتے‘ رات کو کھاتے پیتے اور عید کی خوشیاں مناتے۔ یہ دس محرم کا دن تھا۔ اس دن عرب بھی خوشی مناتے تھے اور کعبۃ اللہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔ اس دن کی عزت کی اور بھی وجوہات ہیں۔
یہودیوں کی پانچ عیدیں ہیں‘ جن کا ذکر تورات میں آیا ہے اور مسیحیوں کے ہاں چھوٹی بڑی چودہ عیدیں منائی جاتی ہیں‘ ان میں کرسمس اور ایسٹر بہت مشہور ہیں۔ کرسمس وہ دن ہے جس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ مسیحی اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں عید مناتے ہیں۔ ایسٹر یا عید قیامت یا جی اٹھنے کا تہوار مسیحیوں کا سب سے بڑا تہوار ہے جو ان کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ کے زندہ ہونے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے: ''عیسٰی ابن مریم نے دعا کی: اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ طعام نازل فرما تاکہ (وہ دن) ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید کا دن ہو جائے اور تیری طرف سے نشانی ہو جائے‘‘ (المائدہ: 114)۔
عہدِ جاہلیت میں مشرکینِ عرب میں کئی عیدوں کا تصوّر موجود تھا‘ بعض اُن کی مکانی عیدیں تھیں اور بعض زمانی۔ یہ موسمی تہواروں کے طور پر منائی جاتی تھیں۔ وہ اپنے تین مشہور بُتوں لات‘ منات اور عُزّیٰ کے ناموں پر عید مناتے اور دُور دراز کا سفر کر کے اُن کے سامنے نذرانے پیش کرتے۔ ان تینوں بُتوں کے پاس جمع ہونے اور تہوار منانے کے لیے عربوں نے سال میں مخصوص ایّام اور موسم مقرّر کر رکھے تھے جبکہ عربوں کی زمانی عیدیں کسی خاص تاریخی واقعے‘ جنگ میں فتح یابی‘ دشمن پر غلبہ پانے کے حوالے سے خوشی‘ تفریح اور میلوں وغیرہ کے لیے مخصوص ہوتی تھیں۔ یہ عید ایک خاص قوم کی ہوتی تھی اور دوسری کسی قوم کو اس میں شرکت کی اجازت نہ تھی۔ چنانچہ ایسا بھی ہوتا کہ ایک ہی دن ایک قوم کے لیے خوشی اور اظہارِ مسرت کا ہوتا اور دوسری کے لیے رنج و الم کا۔ (الارب فی احوال العرب)
نبی کریمﷺ کی بعثت مبارکہ کے وقت آسمانی مذاہب میں تحریفات ہو چکی تھیں‘ ان کی غمی اور خوشی کی تقریبات بھی افراط و تفریط کا شکار ہو گئی تھیں۔ خوشی ہو یا غمی‘ ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات ان کی زندگی سے نکل چکے تھے۔ عید وں کا معاملہ بھی ایسا تھا۔ عیدوں کے اجتماعات شہوات اور نفسانی خواہشات کا ذریعہ بن گئے تھے۔ میلے ٹھیلے‘ مرد و زن کے مخلوط اجتماعات‘ فحاشی عریانی‘ بداخلاقی‘ لَہو و لَعِب، عیش و طرَب اور اَکل و شُرب میں مشغول ہو جانا ان اجتماعات کا حصہ تھے۔ اسلام ایک پاکیزہ روحانی برکات سے معمور معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے‘ اس لیے اسلام نے عیدین کا جو تصور دیا وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی سے شروع ہوکر اللہ تعالیٰ کی بندگی پر ختم ہوتا ہے۔عید الفطر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک مہینے روزے رکھنے کے تشکر کے طور پر خوشی کا اظہار ہے اور اس دن کا آغاز اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر کیا جاتا ہے، عید الاضحی کے دن نماز کی ادائی کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی جاتی ہے اور رشتہ داروں‘ پڑوسیوں اور غربا و مساکین کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے: (1) جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات فرماتا ہے اور جس پر اس کی نظرِ رحمت پڑ جائے‘ اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ (2) شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ (3) فرشتے ہر دن اور ہر رات ان کیلئے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ (4) اللہ تعالیٰ اپنی جنت کو حکم دیتا ہے: میرے بندوں کیلئے تیاری کر لے اور مزین ہو جا تاکہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔ (5) جب (رمضان کی)آخری رات ہوتی ہے‘ ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کی: کیا یہ شبِ قدر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: نہیں! کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں پوری پوری مزدوری دی جاتی ہے‘‘ (شُعَب الایمان: 3603)