مسلمانوں کی تاریخ میں علومِ دینیہ کے حوالے سے دو شخصیات کا زیادہ تذکرہ ملتا ہے۔ ایک نظام الملک طوسی ہیں‘ ان کا اصل نام حسن بن علی اور لقب نظام الملک تھا اور یہ طوس کے ایک زمیندار علی کے بیٹے تھے۔ ان کا سنِ پیدائش 408ھ ہے۔ یہ بچپن ہی سے بہت ذہین اور کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ اپنی ذہانت سے انتہائی کم عمری میں کئی علوم پر عبور حاصل کیا۔ سلجوقی عہد میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس عہد کے تمام کارنامے نظام الملک کے30سالہ دورِ وزارت کے مرہونِ منت ہیں۔ یہ عہد سلجوقیوں کا درخشاں عہد کہلاتا ہے۔ انہوں نے سلطان الپ ارسلان کے عہد میں ایسے جوہر دکھائے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ہزاروں شمعیں روشن ہوئیں۔ انہوں نے ملک کے گوشے گوشے میں مدارس کا جال بچھا دیا اور سب سے بڑا اور اہم مدرسہ بغداد کا ''مدرسہ نظامیہ‘‘ تھا۔
دوسری شخصیت ملا نظام الدین سہالوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ان کا سنِ ولادت 1088ھ مطابق 27 مارچ 1677ء ہے۔ یہ سہالی میں پیدا ہوئے جو صوبہ اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی کا ایک قصبہ ہے۔ آپ کے والد گرامی ملا قطب الدین سہالوی اپنے وقت کے متبحر عالم تھے۔ 19 رجب 1104ھ مطابق مارچ 1692ء کو ملا قطب الدین کی شہادت ہوئی۔ آپ کے گھر بار کو جلایا گیا چونکہ آپ کا تعلق اورنگزیب عالمگیر سے تھا‘ اس لیے عالمگیر نے ان کے خاندان کو سہالی سے لکھنؤ منتقل کیا اور فرنگی محل نامی ایک بڑی حویلی ان کے نام کر دی۔ وہاں پر انہوں نے ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی۔ ملا نظام الدین نے اس مدرسے کیلئے ایک نصاب ترتیب دیا جو اپنی افادیت کی وجہ سے ملک کے تمام مدارس کا نصاب بن گیا۔ انہی کی نسبت سے اس تعلیمی نصاب کو ''درسِ نظامی‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ اکثر لوگوں کو دونوں بزرگوں کے ناموں میں نظام کا لفظ مشترک ہونے کی وجہ سے غلط فہمی ہو جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ درسِ نظامی مدرسہ نظامیہ بغداد کے بانی نظام الملک طوسی کا بنایا ہوا نصاب ہے۔ ایسا نہیں ہے‘ بلکہ درسِ نظامی کا نصاب ملا نظام الدین سہالوی اور ان کے والد ماجد ملا قطب الدین سہالوی کا بنایا ہوا نصاب ہے۔ حضرت ملا قطب الدین شہید نے اپنے درس کیلئے ایک خاص طریقہ اختیار کیا‘ وہ یہ کہ اُن کی نظر میں ہر فن پر جو کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے بہترین ہوتی تھی‘ اُسے پڑھاتے تھے‘ اس سے ان کے تلامذہ صاحبِ تحقیق ہو جاتے تھے۔ جبکہ ان کے فرزند حضرت ملا نظام الدین نے ہر علم و فن پر ایک ایک کتاب کا مزید اضافہ کر دیا۔ یوں بالعموم یہ ہر فن کی دو دو کتابیں پڑھاتے اور بعض ذہین طلبہ کو ایک ہی کتاب پڑھاتے تھے۔
کسی بھی نصاب کو بنانے میں اس دور کی دینی و قومی ضروریات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ملا نظام الدین سہالوی نے اس دور میں دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھ کر تمام ضروری دینی و عصری علوم کو نصاب میں شامل کیا تھا۔ قرآن و حدیث‘ عربی ادب‘ بلاغت‘ صرف و نحو‘ فارسی زبان‘ فقہ‘ اصولِ فقہ‘ کلام‘ منطق‘ ریاضی‘ فلسفہ و حکمت کے علاوہ فلکیات‘ طب‘ انجینئرنگ و ٹیکنالوجی اور دیگر فنون بھی اس نصاب کا حصہ تھے اور یہ اس وقت کی دینی و قومی ضروریات پر مشتمل جامع نصاب تھا۔ یہ نصاب 1857ء تک ہندوستان میں رائج رہا۔ 1857ء کی جنگ نے مسلمانوں کے عروج کو زوال سے بدل دیا اور مسلمانوں کے تمام امتیازات کا خاتمہ ہو گیا‘ اس لیے یہ نصاب بھی سرکاری سرپرستی سے محروم ہو گیا۔
1857ء کے بعد انگریزی عدالتی نظام نے اسلامی عدالتی نظام اور انگریزی علوم نے اسلامی علوم کی جگہ لی تو نئے تعلیمی نظام میں ضرورت نہ ہونے کی بنا پر قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف لوگوں کا رجحان کم ہو گیا۔ سرکاری سرپرستی کے بغیر علماء نے قرآن و حدیث اور فقہ اور عربی و فارسی کی تعلیم نجی مدارس میں دینا شروع کی تاکہ دین اور دینی علوم سے مسلمانوں کا رشتہ برقرار رہے۔ آج بھی مدارس سرکاری سرپرستی کے بغیر اکابر کی لِلّٰہیت کی برکت سے چل رہے ہیں۔ 1857ء سے پہلے اور بعد کے نصاب میں ایک بنیادی فرق یہ آیا کہ پہلے نصاب دینی اور دنیاوی علوم کا مجموعہ تھا اور ہندو مسلم عیسائی سب ایک ہی مدرسے میں اس نصاب سے مذہب و مسلک کے امتیاز کے بغیر مستفید ہوتے تھے‘ جبکہ بعد میں یہ نصاب دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ دینی مدارس کے نصاب کو دینی علوم سے تعبیر کیا گیا جبکہ سکول و کالج کے نصاب کو عصری علوم کا نام دیا گیا اور یہ تفریق آج بھی جاری ہے۔ مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب بعض اضافات و ترامیم یعنی حذف و اضافہ کے ساتھ آج بھی ''درسِ نظامی‘‘ ہی کہلاتا ہے۔
درسِ نظامی سے پہلے بھی برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ مدارس کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ غزنوی سلطنت ہو یا لودھی سلطنت یا عالمگیر سے پہلے کی مغل سلطنت‘ یہاں تعلیم و تعلّم کیلئے ادارے موجود تھے جن میں اس وقت کے رائج نصاب پڑھائے جاتے تھے۔ اس میں تفسیر و اصولِ تفسیر‘ حدیث و اصولِ حدیث‘ فقہ و اصولِ فقہ‘ تصوف‘ علم الکلام‘ عربی لغت و ادب‘ صرف و نحو اور منطق و فلسفہ کے مضامین شامل تھے۔ بعد میں اس نصاب میں بڑی وسعت پیدا کی گئی تھی؛ چنانچہ شہریت‘ معاشیات‘ فلکیات‘ طبعیات‘ ریاضی اور طب بلکہ موسیقی تک کو نصاب کا حصہ بنا دیا اور اس نظام تعلیم نے ہر فن میں یدِطولیٰ رکھنے والے افراد تیار کیے۔ حضرت مجدّد الف ثانی اور نواب سعد اللہ خان ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں۔ ایک روحانی دنیا کے متفقہ پیشوا ہیں جبکہ دوسرے 48سال تک متحدہ ہندوستان کے وزیر اعظم رہے۔ ان کی قلم رو میں موجودہ افغانستان‘ پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور نیپال شامل تھے۔ یعنی اس نظام تعلیم سے دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں عبقری افراد نے جنم لیا۔ دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تاج محل کو بنانے والا انجینئر بھی اسی نظامِ تعلیم کا پڑھا ہوا تھا۔
ملا نظام الدین سہالوی کے مرتب کردہ نصاب درسِ نظامی کی ترتیب کچھ اس طرح تھی: علم تفسیر میں علامہ جلا ل الدین سیوطی (متوفی 1505ء) علامہ جلال الدین محلی (متوفی1459ء) کی تفسیر جلالین اور علامہ ناصرالدین بیضاوی (متوفی1286ء) کی تفسیر بیضاوی شامل تھی۔ علمِ حدیث میں ابو عبداللہ ولی الدین تبریزی (متوفی741ھ) کی کتاب 'مشکوٰۃ المصابیح ‘شامل تھی۔ علم فقہ میں علامہ برہان الدین مرغینانی (متوفی 1197ھ) کی کتاب ''ہدایۃ‘‘ اور عبیداللہ بن مسعود صدرالشریعۃ (متوفی 1346ھ) کی کتاب شرح الوقایۃ شامل تھیں۔ علم اصولِ فقہ میں سعد الدین تفتازانی (متوفی 1389ء) کی کتاب توضیح تلویح‘ شیخ احمد بن ابی سعید ملا جیون (متوفی 1718ء) کی کتاب نور الانوار اور قاضی محب اللہ بہاری (متوفی 1707ء) کی کتاب ''مُسَلَّمُ الثُّبُوت‘‘ شامل تھیں۔ علمِ نحو میں سید شریف جرجانی (متوفی 1413ء) کی کتاب نحو میر‘ عبدالقاھر جرجانی کی کتاب شرح مائۃ عامل‘ ابوحیان محمد بن یوسف بن علی (متوفی 1344ء) کی کتاب ہدایۃ النحو‘ ابن حاجب (متوفی 1249ء) کی کتاب کافیہ اور عبدالرحمن جامی (متوفی 1492ء) کی کتاب شرح جامی شامل تھیں۔ علم الصرف میں ملاحمزہ بدایونی کی کتاب میزان‘ ملا حمیدالدین کاکوری کی کتاب منشعب‘ سید شریف جرجانی (متوفی1413ء) کی کتاب صرف میر‘ سراج الدین اودھی کی کتاب پنج گنج‘ ظہیر بن محمود بن مسعود علوی کی کتاب زُبدہ‘ قاضی علی اکبر حسینی الہ آبادی (متوفی 1678ء) کی کتاب فصول اکبری اور ابن حاجب (متوفی 1249ء) کی کتاب شافیہ شامل تھیں۔ علم بلاغت میں علامہ سعد الدین تفتازانی (متوفی 1390ء) کی کتابیں مختصر المعانی اور مطول شامل تھیں۔ علم الکلام میں علامہ سعد الدین تفتازانی کی کتاب شرح عقائد نسفی‘ جلال الدین دوانی (متوفی 1502ء) کی کتاب شرح عقائد جلالی‘ سید شریف جرجانی کی کتاب شرح مواقف اور میر محمد زاہد ہروی (متوفی 1690ء) کی کتاب رسالہ میر زاہد شامل تھیں۔