علم منطق میں قطب الدین رازی کی کتاب قطبی‘ قاضی محب اللہ بہاری کی کتاب سُلَّم العلوم‘ سید شریف جرجانی کی کتاب کبریٰ‘ اثیر الدین اَبہری (متوفی 1344ء) کی کتاب ایساغوجی‘ سعد الدین تفتازانی کی کتاب تہذیب اور عبداللہ یزدی (متوفی 1575ء) کی کتاب شرح تہذیب شامل تھیں۔ علم فلسفہ و حکمت میں میر حسین میبذی (متوفی 1652ء) کی کتاب شرح ہدایۃ الحکمۃ‘ میبذی‘ صدر الدین محمد بن ابراہیم (متوفی 1640ء) کی کتاب صدرا‘ ملا محمود بن شیخ شاہ محمد فاروق جونپوری (متوفی 1652ء) کی کتاب شمس بازغہ شامل تھیں۔ علم ریاضی میں بہاء الدین عاملی (متوفی 1622ء) کی کتاب خلاصۃ الحساب‘ خواجہ نصیر الدین طوسی (متوفی 1275ء) کی کتاب تحریر اقلیدس‘ بہاء الدین عاملی کی کتاب تشریح الافلاک‘ علاء الدین قوشنجی (متوفی 1474ء) کی کتاب رسالہ قوشنجیہ اور علامہ موسیٰ پاشا رومی (متوفی 1437ء) کی کتاب شرح چغمینی شامل تھیں۔ یہ گیارہ علوم درسِ نظامی میں پڑھائے جاتے تھے‘ اب بھی کچھ اضافہ و ترمیم کے ساتھ یہی علوم پڑھائے جاتے ہیں۔
اس نصاب پر نظرِ ثانی ہوتی رہی ہے‘ قدیم منطق و فلسفہ یونان سے عالَمِ عرب میں آیا تھا‘ اُس عہد کے علماء نے اسے پڑھا‘ سمجھا اور عربی میں منتقل کیا اور اسی کے اصولوں کی روشنی میں اس کا ردّ کیا۔ ایک وقت تھا کہ اس پر بڑا زور دیا جاتا تھا‘ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت کم ہو گئی‘ کافی حد تک وہ ازکار رفتہ ہوگیا‘لیکن کسی حد تک اُسے اب بھی باقی رکھا گیا ہے‘ کیونکہ ہمارا قدیم دینی لٹریچر اُن مباحث اور مصطلحات سے معمور ہے‘ پس لازم ہے کہ عالِم کا رشتہ اپنے ماضی سے جڑا رہے‘ اس لیے اُسے بالکل ختم نہیں کیا گیا۔ اب بھی ایسے حضرات موجود ہیں جو ان علوم و فنون میں یدِ طُولیٰ رکھتے ہیں اور ان میں تخصُّصات بھی کیے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس حالات کے تقاضوں کے پیشِ نظر تفسیر و حدیث اور ان سے متعلقہ علوم اصولِ تفسیر و اصولِ حدیث‘ فقہ و اصول فقہ بنیادی اہمیت اختیار کر گئے ہیں اور چونکہ یہ اصلِ دین ہیں‘ اس لیے انہیں علومِ عالیہ کہا جاتا ہے‘ جبکہ صرف و نحو‘ لغت‘ معانی و بلاغت اور ادبیات پر مشتمل علوم‘ علومِ آلیہ کہلاتے ہیں‘ کیونکہ قرآن و حدیث کو سمجھنے اور اُن سے مسائل کے استنباط کیلئے ان علوم پر عبور ضروری ہے۔ فقہ اور اصولِ فقہ قرآن و حدیث ہی سے مستفاد ہیں اور عملی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے‘ کیونکہ جدید سائنسی اور فنّی تحقیقات اور ارتقا کے نتیجے میں نئے نئے حوادث و مسائل جنم لیتے ہیں اور فقیہ اور مفتی کا کام اُن مسائل کا شرعی حل پیش کرنا ہوتا ہے‘ مثلاً: ٹیسٹ ٹیوب بے بی‘ کلوننگ حتیٰ کہ معیشت اورعالمی تجارت سے متعلق نئے نئے امکانات اور نظریات سامنے آ رہے ہیں۔ سونے اور چاندی کی کرنسی دینار و درہم سے معاملہ آگے بڑھتے بڑھتے کاغذی کرنسی تک پہنچا‘ پھر ادائیگیوں کیلئے پلاسٹک کرنسی یعنی ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ رائج ہوئے‘ کرنسی کو ہر وقت پاس رکھنے کی ضرورت سے لوگ بے نیاز ہو گئے۔ اب کرپٹو کرنسی اور اس طرح کی چیزیں آ رہی ہیں‘ اسی طرح ٹیکس سسٹم اور معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنے کی بات کی جا رہی ہے‘ یہ سب جدید طریقے سرعتِ رفتار کیلئے وجود میں آ رہے ہیں۔ پہلے صرف شریعت کے اتباع میں حلال و حرام کے معاملات تھے‘ اب زرِ سفید (White Money) اور زرِ سیاہ (Black Money) یعنی قانونی اور خلافِ قانون کاروباری معاملات کا دور ہے‘ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے: ایک چیز اپنی اصل کے اعتبار سے حلال ہے‘ لیکن رائج الوقت قانون کے خلاف ہے تو وہ قانون کی نظر میں جرم متصور ہو گی اور شریعت بھی اس امر کی تعلیم دیتی ہے کہ مسلمان عزتِ نفس کے تحفظ کیلئے خلافِ قانون کاروباری معاملات اور شہری قوانین کی خلاف ورزی سے اجتناب کرے۔ حدیث پاک میں ہے: ''مومن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلّت سے دوچار کرے۔ صحابۂ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کوئی اپنے آپ کو کیسے ذلّت سے دوچار کرے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: (اس طرح کہ) وہ اپنے آپ کو ایسی آزمائش سے دوچار کرتا ہے کہ آبرومندانہ طریقے سے اس سے نجات کا راستہ نہیں پاتا‘‘ (سنن ترمذی: 2254)۔
تمام تر سائنسی‘ علمی اور فنی ترقیوں کے باوجود حکومتیں سمگلنگ‘ بلیک مارکیٹنگ اور اس جیسی چیزوں کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ جب بھی کوئی نئی ایجاد یا ارتقا کا مرحلہ آتا ہے‘ اُس کے ساتھ شرعی سوال بھی پیدا ہوتے ہیں مثلاً: سائنسدان اس تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ آیا دوسرے سیاروں پر حیات اور بقائے حیات کے اسباب موجود ہیں اور یہ کہ کیا ایسا دور آ سکتا ہے کہ انسانی آبادی دوسرے سیاروں پر بھی منتقل ہو‘ ایسے میں مزید شرعی مسائل یقینا پیدا ہوں گے۔ اس لیے آج کے عالمِ دین پر لازم ہے کہ اپنے عہد کی علمی اور فنی ترقی سے آگاہ ہو‘ جدید علوم اور اُن کی مصطلحات جانتا ہو‘ کیونکہ اس کے بغیر وہ شرعی رہنمائی کی کامل اہلیت کا حامل نہیں ہو سکتا‘ اس لیے بقدرِ ضرورت جدید علوم سے آگہی ضروری ہے۔
ایک سوال یہ کیا جاتا ہے: درسِ نظامی یعنی دینی علوم پڑھنے والے عصری علوم میں مہارت کیوں نہیں رکھتے‘ ایسے لوگوں کی عقل و دانش پر حیرت ہوتی ہے۔ یہ Specializationکا دور ہے۔ ہمارے ہاں تو میٹرک اور انٹرمیڈیٹ سے ہی علوم کے شعبہ جات جدا ہو جاتے ہیں‘ مثلاً: آرٹس یا ہیومینٹیز‘ انہیں آج کل سوشل سائنسز بھی کہا جاتا ہے‘ کامرس‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور پھر سائنس و ٹیکنالوجی کے درجنوں الگ الگ شعبے ہیں‘ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے: ایک شعبے کا متخصص دوسرے شعبے کے مبادیات سے بھی آگاہ نہیں ہوتا۔ کیا ڈاکٹری پڑھنے والا انجینئرنگ پر اور انجینئرنگ پڑھنے والا میڈیکل پر عبور رکھتا ہے‘ بلکہ اب تو ایک نوعِ علم‘ مثلاً: طب میں اتنے ذیلی شعبے ایجاد ہو چکے ہیں کہ ہر عضو کا سپیشلسٹ الگ ہے اور ایک سپیشلسٹ دوسرے کے دائرۂ کار میں دخل نہیں دیتا‘ بلکہ مریض کو اُس کی طرف متوجہ کر دیتا ہے‘ پس اتنے تنوع کے ہوتے ہوئے کوئی بھی ''شیخ الکُلّ فی الکُلّ‘‘ یعنی Master of All نہیں ہو سکتا۔
الغرض دینی مدارس و جامعات میں بھی ارتقا کا سلسلہ جاری ہے‘ اگرچہ سست رفتاری سے ہے‘ کیونکہ یہ مدارس و جامعات ریاست کی سرپرستی سے محروم ہیں اور محدود وسائل میں رہ کر انہیں کام کرنا ہوتا ہے‘ پھر یہ معاشرے کے نظر انداز کیے ہوئے طبقات کیلئے سہارا ہیں‘ یقینا انہیں کچھ نہ کچھ آگہی تو عطا کرتے ہیں‘ شرحِ خواندگی میں اضافے کا باعث ہیں۔ ہمیں اُن لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ جس ملک میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تین کروڑ بچے بچیاں سکول سے دور ہوں‘ انہیں ان کی فکر لاحق نہیں ہوتی‘ بلکہ وہ دینی مدارس کے غم میں گھل رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کیسے بند کیا جائے۔ حالانکہ یہ مدارس و جامعات تعلیم سے محروم بچوں میں سے بعض کو مدارس میں قیام وطعام‘ علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولتیں مفت فراہم کرتے ہیں‘ تو معاشرے اور نظام کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے‘ نہ کہ ان کی خدمات کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جائے۔ کیا ایسے لوگ یہ چاہتے کہ یہ ایک یا دو ملین طلبہ و طالبات بھی منفی سرگرمیوں میں مشغول ہو جائیں اور معاشرے کیلئے مسائل پیدا کریں۔
دینی مدارس وجامعات کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی نظام ہے‘ ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ دینی مدارس و جامعات میں پڑھنے اور پڑھانے والے فرشتے ہوتے ہیں یا بشری کمزوریوں سے کُلّی طور پر مبرّا ہوتے ہیں‘ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا‘ لیکن یہ آپ سب کو ماننا پڑے گا کہ ان اداروں میں اخلاقیات اور خیر کا پہلو دوسرے عصری اداروں کے مقابلے میں کئی درجے زائد ہے‘ وہاں تو آئے دن منشیات کے چرچے ہوتے ہیں‘ لسانی اور دیگر حوالوں سے تشدد آمیز تصادم ہوتا ہے‘ استاذ اور شاگرد کے درمیان احترام کا رشتہ باقی نہیں رہتا‘ اُن کی بہت سی کمزوریوں کو دبا دیا جاتا ہے‘ کیونکہ بااثر طبقات کی اولاد اُن اداروں میں جاتی ہے۔