قربانی کے ایام آ رہے ہیں‘ اس مناسبت سے قربانی کے فضائل اور ضروری مسائل پیشِ خدمت ہیں: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (1) ''پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے‘‘ (الکوثر:2)۔ (2) ''اللہ تعالیٰ کے حضور (تمہاری قربانیوں کا) گوشت اور خون نہیں پہنچتا‘ بلکہ (اس فعلِ قربانی سے حاصل ہونے والا) تمہارا تقویٰ اُس کی بارگاہ میں پہنچتا ہے‘‘ (الحج: 27)۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) قربانی کے دن آدمی کا کوئی بھی (نیک) عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قربانی کا یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں‘ بالوں اور کھروں کے ساتھ (اللہ تعالیٰ کے حضور) آئے گا اور (قربانی کے جانور کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کے درجے کو پا لیتا ہے‘ پس (اے مومنو!) تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘ (سنن ترمذی: 1493)۔ (2) ''جس شخص کو مالی استطاعت حاصل ہو اور وہ (ایامِ قربانی میں) قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 3123)۔ (3) ''حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ کے صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! یہ قربانیاں کیا ہیں‘ آپﷺ نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں (کیونکہ قریش آلِ ابراہیم میں سے تھے)‘ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! ہمارے لیے اس میں کیا ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: (قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے میں نیکی ہے‘ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اُون (والے جانور وں) کی بابت کیا اجر ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: اون کے ہر رُویں کے بدلے میں نیکی ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 3127)۔ ٭قربانی ہرصاحبِ نصاب بالغ مرد و عورت پر واجب ہے‘ زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے کم ازکم نصاب پر پورا قمری سال یا سال کا اکثر حصہ گزرنا شرط ہے‘ جبکہ قربانی اور فطرے کے وجوب کیلئے بالترتیب عیدالاضحی اور عیدالفطر کی صبح صادق کو محض کم از کم نصاب کا مالک ہونا کافی ہے‘ سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ قربانی کے جانوروں کی عمریں حسبِ ذیل ہیں: بکرا‘ بکری‘ دنبہ‘ بھیڑ ایک سال مکمل ہو جائے اور دوسرے سال میں داخل ہو جائیں ٭بیل‘ گائے‘ بھینس‘ بھینسے کی عمر دوسال پوری ہو جائے اور تیسرے سال میں داخل ہو جائیں ٭اونٹ‘ اونٹنی کی عمر پانچ سال پوری ہو جائے اور چھٹے سال میں داخل ہو جائیں۔ یہاں قمری سال مراد ہے‘ البتہ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنے فربہ ہوں کہ دیکھنے میں ایک سال کے نظر آئیں توان کی قربانی جائز ہے۔
٭اگر صاحبِ نصاب مال دار شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ گم ہو گیا یا قربانی سے پہلے مر گیا تو اس پر لازم ہے کہ دوسرا جانور خرید کر قربانی دے یا قربانی کے جانور میں حصہ ڈالے۔ اگر قربانی سے پہلے گم شدہ جانور مل جائے تو مالدار شخص کو اختیار ہے کہ جس جانور کی چاہے قربانی دے‘ دونوں کی قربانی لازمی نہیں ہے‘ بہتر یہ ہے کہ جس جانور کی قیمت زیادہ ہو‘ اُس کی قربانی کرے۔ ٭اگر نادار شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ قربانی سے پہلے گم ہو گیا یا مر گیا‘ تواس پر دوسرے جانور کی قربانی لازم نہیں ہے۔ اگر اس نے دوسرا جانور خرید لیا اور پہلا گم شدہ جانور بھی بعد میں مل گیا‘ تو اس پر دونوں کی قربانی لازم ہو گی‘کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو اُس پرقربانی واجب نہیں تھی‘ اُس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید کر خود اپنے اوپر واجب کی‘ اسی طرح دوسرے جانور کا حکم ہے۔ ٭قربانی کے جانوروں کی عمر پورا ہونے کی ظاہری علامت دو دانت کا ہونا ہے‘ لہٰذا جس جانور کے دو دانت پورے نہیں ہوئے‘ اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ البتہ جانور گھر کا پلا ہوا ہے یا کسی قابلِ اعتماد شخص کے پاس ہے اور اس کی مطلوبہ عمر پوری ہو گئی ہے‘ تو اس کی قربانی شرعاً جائز ہے‘ خواہ سامنے کے دو دانت ابھی پورے نہ ہوئے ہوں‘ عام کاروباری لوگوں پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔
٭قربانی کا جانور تمام ظاہری عیوب سے سلامت ہونا چاہیے‘ اس سلسلہ میں فقہائے کرام نے یہ ضابطہ مقرر کیا ہے کہ ہر وہ عیب جو جانور کی کسی منفعت یا جمال کو بالکل ضائع کر دے‘ اس کی وجہ سے قربانی جائز نہیں ہے اور جو عیب اس سے کم تر درجے کا ہو‘ اس کی قربانی ہوجاتی ہے۔ ٭جو جانور اندھا‘ کانا یا لنگڑا ہو‘ بہت بیمار اور لاغر‘ جس کاکوئی کان‘ دم یا چکتی تہائی سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں‘ پیدائشی کان نہ ہوں‘ ناک کٹی ہو‘ دانت نہ ہوں‘ بکری کا ایک تھن یا گائے بھینس کے دو تھن خشک ہوں‘ ان سب جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ''ھَتْمَاء یعنی وہ جانور جس کے دانت نہ ہوں‘ اگر وہ چَر سکتا ہے اور چارا کھا سکتا ہے تو اُس کی قربانی جائز ہے‘‘ (ج:5، ص: 298)۔ جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا سینگ اوپر سے ٹوٹا ہوا ہے‘ کان‘ چکتی یا دُم ایک تہائی یا اس سے کم کٹے ہوئے ہیں تو ایسے جانوروں کی قربانی جائز ہے۔ ٭جانور میں حسن پیدا کرنے کیلئے اُس کے سینگ سر کے اوپر سے رگڑ دیتے ہیں یا ایسا کیمیکل استعمال کرتے ہیں کہ سینگ کی نشو ونما رُک جاتی ہے‘ لیکن اس کا اثر دماغ پر مرتب نہیں ہوتا اور سینگ کی جڑ بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے‘ تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔ ٭صاحبِ نصاب نے عیب دار جانور خریدا یا خریدتے وقت بے عیب تھا‘ بعد میں عیب پیدا ہو گیا تو ان دونوں صورتوں میں اس کیلئے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے‘ اس کیلئے ضروری ہے کہ دوسرا بے عیب جانور خریدے اور قربانی کرے اور اگر خدانخوستہ ایسا شخص صاحبِ نصاب نہیں ہے‘ تو اُس کیلئے اُسی جانور کی قربانی جائز ہے۔ ٭خصی جانور کی قربانی آنڈو کے بہ نسبت افضل ہے‘ کیو نکہ اس کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہے‘ اگر گائے کے ساتویں حصے کی قیمت بکری سے زیادہ ہو تو وہ افضل ہے اور اگر قیمتیں برابر ہوں تو بکری کی قربانی افضل ہے‘ کیونکہ بکری کاگوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ ٭بکرا‘ بکری‘ بھیڑ‘ دنبے کی قربانی صرف ایک فرد کی طرف سے ہو سکتی ہے‘ اونٹ گائے وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ سات افراد شریک ہو سکتے ہیں‘ بشرطیکہ سب کی نیت عبادت کی ہو۔ سات سے کم (مثلاً: چھ‘ پانچ‘چار‘ تین‘ دو) افراد بھی ایک گائے کی قربانی میں برابرکے حصے دار ہو سکتے ہیں حتیٰ کہ ایک آدمی بھی پوری گائے کی قربانی کر سکتا ہے‘ سات حصے داروں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ٭سات افراد نے مل کر قربانی کا جانور خریدا‘ پھر قربانی سے پہلے ایک حصے دار کا انتقال ہو گیا اگر اُس کے ورثا باہمی رضامندی سے یا کوئی ایک وارث یاچند ورثا اپنے حصہ وراثت میں سے اجازت دے دیں تو استحساناً اس کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ اپنی واجب قربانی ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ توفیق دے تو رسول اکرمﷺ کے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کرنا افضل ہے اور کرنے والے کو نہ صرف پورا اجرو ثواب ملے گا‘ بلکہ حضورﷺ کی نسبت سے اس کی قبولیت کا بھی یقین ہے۔
٭شریعت کی رو سے ہر عاقل وبالغ مسلمان مرد وعورت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا جواب دہ ہے‘ لہٰذا اگر کسی مشترکہ خاندان میں ایک سے زیادہ بالغ افراد صاحبِ نصاب ہیں تو سب پر فرداً فرداً قربانی واجب ہے‘ محض ایک کی قربانی سب کیلئے کافی نہیں ہو گی‘ بلکہ تعین کے بغیر ادا ہی نہیں ہو گی۔ ٭گائے کی قربانی میں عقیقہ کاحصہ بھی ڈال سکتے ہیں‘ بہتر ہے کہ لڑکی کیلئے ایک اور لڑکے کے لیے دو حصے ہوں۔ اگر دو کی استطاعت نہ ہو تو لڑکے کے لیے ایک حصہ بھی ڈالا جا سکتا ہے‘ نیز عقیقے کا گوشت والدین اور قریبی رشتے دار بھی کھا سکتے ہیں۔ قربانی کے جانور نے ذبح سے پہلے بچہ دے دیا یا ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے زندہ بچہ نکلا تو دونوں صورتوں میں یا تو اسے بھی قربان کر دیں یا زندہ صدقہ کر دیں یا فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ کر دیں‘ اگر بچہ مردہ نکلے تو اسے پھینک دیں‘ قربانی ہر صورت میں صحیح ہے‘ البتہ قصداً حاملہ بکری‘ گائے‘ بھینس یا اونٹنی قربانی کی نیت سے نہ خریدنا بہتر ہے۔ (جاری)