"MMC" (space) message & send to 7575

ایک طالب علم کے دو سوالات

جامعہ خیر المعاد ملتان سے حافظ عبدالقدیر باروی نے پوچھا ہے: ''دورِ حاضر میں کفار اور بدمذہب عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں‘ حالانکہ وہ حق پر نہیں ہیں۔ اس کے برعکس مسلمان حق پر ہیں‘ مگر وہ آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں‘ حق تو یہ ہے: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مسلمان مستفید ہوں اور کفار محروم ہوں‘ لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ دوسرا سوال کفار ومشرکین کی اولاد کے بارے میں ہے کہ اگر وہ کسی کافر گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟
جواباً عرض ہے: اللہ تعالیٰ کے افعال واوامر دو طرح کے ہیں: تکوینی امور‘ جن میں بندے کا کوئی اختیار یا انتخاب نہیں ہے‘ جیسے: انسان کی جسامت‘ قامت‘ صورت‘ رنگت‘ جسمانی ودماغی سلامتی یا اعضا وعقل میں خلل ونَقص وغیرہ۔ تکوینی امور چونکہ بندے کے اختیار میں نہیں ہوتے‘ اس لیے آخرت میں نَجات کا مدار تکوینی عیوب یا خوبیوں کی بنیاد پر نہیں ہو گا‘ بلکہ تشریعی احکام کی بنیاد پر ہو گا۔ لہٰذا کسی کو اس کے تکوینی نقائص کی بنا پر ملامت نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اللہ کسی نفسِ (انسانی) کو اُسکی طاقت سے بڑھ کر احکام کا جوابدہ نہیں بناتا‘‘ (البقرہ: 286)۔ باقی رہا یہ سوال کہ کسی کو صاحبِ حسن وجمال اورکسی کو قبیح صورت کیوں بنایا‘ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت پر منحصر ہے‘ اس میں بندے کا کوئی اختیار ہے اور نہ اس پراعتراض کرنے کی کوئی گنجائش ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: (1) ''وہ جو کچھ کرتا ہے‘ اُس کیلئے وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے اور سب اُس کو جوابدہ ہیں‘‘ (الانبیاء: 23)۔ (2) ''عرشِ عظیم کا مالک ہے‘ جو چاہے‘ کرگزرنے والا ہے‘‘ (البروج: 15 تا 16)۔ یعنی اُس کے ارادے کے نافذ ہونے میں کائنات کی کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اگر اللہ کی حکمت کا تقاضا ہوتا تو سب کو اپنا مطیع وفرمانبردار بنا دیتا اور کوئی بھی نافرمان نہ ہوتا۔ قرآنِ کریم میں ہے: (1) ''اور اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک امت بنا دیتا‘ لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے اور ظالموں کیلئے کوئی کارساز اور مددگار نہیں ہو گا‘‘ (الشوریٰ: 8)۔ (2) ''اور اگر تمہارا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا (لیکن) وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے‘ سوائے اُنکے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے‘‘ (ہود: 118 تا 119)۔ اسی طرح کسی کے مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے یا کسی کافر ومشرک کے گھر انے میں پیدا ہونے پر اُخروی جزا وسزا کا مدار نہیں ہو گا‘ بلکہ جزا وسزا کا مدار انسان کے اختیاری عقائد واعمال پر ہو گا۔ غیر مسلموں کی نابالغ اولاد یا فاتر العقل لوگ اللہ تعالیٰ کے تشریعی احکام کے مکلّف نہیں ہیں‘ البتہ کفار کی نابالغ ذرّیت کے بارے میں چند اقوال ہیں: (1) اُن کا انجام اللہ کی مشیت پر موقوف ہے‘ وہ چاہے تو ان پر رحم فرمائے اور چاہے تو انہیں عذاب دے‘ یہ سب اُس کا عدل ہوگا۔ حدیث پاک میں ہے: ''اللہ بہتر جانتا ہے کہ (بالغ ہونے کی صورت میں) وہ کیا کرنے والے تھے‘ یعنی اللہ کے علم پر موقوف ہو گا‘‘۔ (2) وہ جنت وجہنم کے درمیانی مقام ''اَعراف‘‘ میں ہوں گے۔ الغرض یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں‘وہ مالک ومختار ہے‘ ہمیں ان امور کے بارے میں قطعی اور یقینی طور پر کچھ طے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
دنیا میں کفار ومشرکین کا ناز ونِعَم میں رہنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُن کی محبوبیت یا فضیلت کی دلیل نہیں ہے‘ یہ اُن کیلئے ابتلا وامتحان ہے۔ دنیا دارالعمل ہے‘ دارالجزا نہیں ہے‘ البتہ دنیاوی اعتبار سے انسانوں کے بعض ارادی واختیاری اعمال پر احکام مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (1) ''اور آخرت کا یہ گھر ہم اُن کیلئے مقدر فرمائیں گے جو زمین میں سرکشی کرتے ہیں اور نہ فساد برپا کرتے ہیں اور نیک انجام پرہیزگاروں کیلئے ہے‘‘ (القصص: 83)۔ (2) ''اور دنیا کی یہ زندگی توصرف کھیل تماشا ہے اور درحقیقت آخرت کا گھر ہی (حقیقی اور ابدی) زندگی ہے اگر وہ (اس حقیقت کو) جان لیتے‘‘ (العنکبوت:64)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اگر دنیا کی (حقیقی قدر وقیمت) مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی‘ تو اللہ تعالیٰ کسی کافرکو اس سے ایک گھونٹ جتنا بھی سیراب نہ فرماتا‘‘ (ترمذی: 2320)۔ قرآنِ کریم نے دُنیوی منافع‘ راحتوں اور عشرتوں کو ''نفعِ عاجِل‘‘ (فوری فائدے) سے تعبیر فرمایا ہے اور آخرت کی اَبدی اور دائمی نعمتوں کو ''نفعِ آجِل‘‘ (مؤخر) سے تعبیر فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''ہرگز نہیں! بلکہ تم جلدی حاصل ہونے والے (منافع) کو چاہتے ہو اور آخرت (کی دیرپا نعمتوں) کو چھوڑ دیتے ہو‘‘ (القیامہ: 22 تا 23)۔ پس اصل امتحان یہی ہے: سامنے کی چمک دمک پر انسان فریفتہ ہو جاتا ہے‘ آنکھیں چکاچوند ہو جاتی ہیں‘ عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں اور آخرت کی ابدی ودائمی نعمتیں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں‘ وہ فوری راحتوں کا حریص بن جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ اُن کیلئے دل ہوتے‘ جن سے وہ (اشیا کی حقیقتوں کو) سمجھتے یا اُن کیلئے کان ہوتے‘ جن سے وہ (حق کی آواز کو) سنتے‘ درحقیقت بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں‘ بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں (دھڑکتے) ہیں‘‘ (الحج: 46)۔
الغرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب صلاحیتیں ودیعت فرما رکھی ہیں‘ لیکن انسان ان کو مثبت اور دیرپا مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے بجائے منفی مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے اور سامنے کی حقیقتیں اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور ہم نے جہنم (کا ایندھن بننے) کیلئے بہت سے جِنّ اور انسان پیدا کیے ہیں۔ اُن کیلئے (سمجھنے کو) دل ہیں‘ مگر وہ اُن سے سمجھتے نہیں اور ان کیلئے آنکھیں ہیں‘ مگر وہ (نگاہِ عبرت سے) دیکھتے نہیں اور ان کیلئے کان ہیں‘ مگر وہ اُن سے (حق کی آواز کو) سنتے نہیں‘ وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بدتر‘ (درحقیقت) یہی لوگ غافل ہیں‘‘ (الاعراف: 179)۔ پس یہ دنیا دارالامتحان ہے اور امتحان سے گزرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (1) ''کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ انہیں محض یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لائے‘ چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا‘‘ (العنکبوت: 2)۔ (2) ''کیا تم نے یہ گمان کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جائو گے‘ اللہ سچا بادشاہ (اس سے) کہیں بلند ہے (کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی ہو)‘‘ (المومنون: 115 تا 116)۔ اگر کوئی کافر کے گھر پیدا ہوا یا لڑکپن گزارا اور اُسے فاسد عقائد کی تعلیم دی گئی ہے تو عاقل وبالغ ہونے کے بعد اگر وہ اپنے اختیارِ تمیزی سے ان عقائد پر قائم رہتا ہے تو یقینا جوابدہ ہو گا‘ لیکن اگر وہ حق پر مطلع ہونے کے بعد توبہ کر کے اسلام قبول کر لیتا ہے تو ماضی کی بدعقیدگی اور بدعملی کیلئے وہ جوابدہ نہیں ہو گا۔ ایسا ہی سوال حضرت عمرو بن عاصؓ نے اسلام قبول کرتے وقت رسول اللہﷺ سے کیا تھا: میری ماضی کی بداعمالیوں کا کیا ہو گا تو آپﷺ نے فرمایا: ''اسلام ماضی (کی بدعقیدگی وبداعمالی) کے اثرات کو مٹا دیتا ہے‘‘ (مسلم: 121)۔
اسلام میں آخرت کی نَجات کا مدار عقائد واعمالِ صحیحہ پر ہے‘ دنیا میں اقوامِ عالَم کے درمیان مقامِ افتخار پانے کیلئے الگ معیارات ہیں اور ان پر پورا اترے بغیر مسلمانوں کایہ توقع رکھنا کہ وہ دنیا پر برتری حاصل کر لیں گے‘ خام خیالی ہے۔ اللہ نے ایسا کوئی وعدہ نہیں فرمایا‘ ورنہ رسول ﷺ کو میدانِ جنگ میں نہ اترنا پڑتا‘ زخمی نہ ہونا پڑتا‘ آپﷺ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا محبوب اور کون ہو سکتا ہے۔ حضرت فاروق اعظمؓ کے عہدِ خلافت میں جب مسلمان معیار پر پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے اُس دور کی دو سپر پاورز کو اسلام کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے سعی کی‘‘ (النجم: 39)۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جب مسلمان اپنا فرض ادا کر لیں تو اللہ کی نصرت شاملِ حال ہو جاتی ہے۔ تاریخ نبوت ہمیں یہی بتاتی ہے۔ خود ساختہ دعوے یہود ونصاریٰ نے کیے تھے: ''ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں‘‘ (المائدہ: 18)۔ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں