ایک اخبار میں وفاقی وزارتِ تعلیم کے ڈائریکٹر جنرل برائے مذہبی تعلیم میجر جنرل (ر) ڈاکٹر غلام قمر کا ایک مضمون ''مدارس کی رجسٹریشن: حقیقت اور افسانہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ ''افسانہ‘‘ تو آپ پڑھ چکے ہوں گے‘ اب ''حقیقت‘‘ پیشِ خدمت ہے:
(1) پرویز مشرف کے زمانے میں اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے ساتھ باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت سوسائٹیز ایکٹ 1860 میں مدارس کی رجسٹریشن کیلئے دفعہ21 کا اضافہ کیا گیا تھا‘ بعد کو 2005ء میں اسے پارلیمنٹ‘ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور آزاد کشمیر اسمبلی سے ایکٹ کی صورت میں پاس کیا گیا اور پھر اس کے تحت تمام مدارس کی رجسٹریشن ہوئی۔ اس کیلئے اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے قائدین کا چار گھنٹے پر محیط طویل اجلاس ہوا اور اُسکے بعد اتفاقِ رائے سے فیصلہ ہوا۔ اجلاس میں اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی‘ صدر کے چیف آف سٹاف‘ وفاقی وزیرِ مذہبی امور اور سیکرٹری مذہبی امور بھی موجود تھے۔ تنظیماتِ مدارس کی پانچوں تنظیموں نے ہر ضلع میں اپنے رابطۂ کار مقرر کیے اور ایک مہم کے تحت تمام مدارس کی رجسٹریشن ہوئی۔ بعد کو ایک مرحلے پر آکر حکومت نے خود اس سلسلے کو موقوف کر دیا‘ اس کی ذمہ داری تنظیماتِ مدارس اور مدارس پر عائد نہیں ہوتی۔
(2) وفاقی وزارتِ تعلیم کا تنظیماتِ مدارس کے ساتھ جو معاہدہ ہوا‘ اُس کی بابت طے ہوا تھا: اتفاقِ رائے سے قواعد وضوابط مرتب کیے جائیں گے‘ دائرۂ کار کا تعین ہو گا‘ قانون سازی کی جائے گی‘ لیکن اس سارے کام کو ادھورا چھوڑا‘ تنظیماتِ مدارس کو بائی پاس کیا‘ ایک ڈیسک قائم کرکے ایک فوجی افسر کو ڈائریکٹر جنرل بنایا اور رجسٹریشن شروع کردی گئی۔ حالانکہ نہ اس کی کوئی قانونی اساس ہے‘ نہ یہ معلوم ہے کہ اس ڈائریکٹوریٹ کا مدارس کے ساتھ تعامل کا طریقۂ کار کیا ہے۔کوئی بتائے! اس ڈائریکٹوریٹ نے مدارس کے نظم کو بہتر بنانے کے لیے کیا کارنامہ انجام دیا اور کون سا ہمالیہ سر کیا ہے۔
(3) ہمیں پہلے ہی وارننگ دے دی گئی تھی: اگر آپ اچھے بچے بن کر اور آنکھیں بند کر کے ہماری ہر بات کو تسلیم نہیں کریں گے‘ تو ہم آپ کے مقابل نئے بورڈ بناکر آپ کی تنظیمات کو شکست وریخت سے دوچار کریں گے۔ یہ تنبیہ ادارے سے وابستہ ایک صاحب نے دی تھی‘ جو بعد کو ترقی پا گئے اور اب ان کی پوسٹنگ تبدیل ہو گئی ہے۔ اُن صاحب نے ایک ایک ادارے میں جاکر پیشکش کی: آپ اپنی اپنی تنظیم سے تعلق ختم کریں‘ ہم آپ کو بورڈ بنا دیں گے‘ الغرض بورڈ ''ریوڑیوں‘‘ کی طرح بٹنے لگے۔ کرائے نامے کی طرح ادارے کا نام ڈالا‘ بٹن دبایا اور بورڈ وجود میں آگیا۔ اس کیلئے کوئی طریقۂ کار‘ معیار اور استعداد الغرض کچھ بھی نہیں دیکھا گیا۔
جامعہ منہاج القرآن لاہور کی اسناد پہلے سے تسلیم شدہ تھیں‘ اُن کی اپنی یونیورسٹی بھی ہے‘ لیکن انہیں ایک اور بورڈ نظام المدارس کے نام سے عطا کر دیا گیا۔ جامعہ نعیمیہ لاہور تنظیم المدارس کے ساتھ ملحق ہے‘ اُس کے مہتمم ڈاکٹر راغب حسین نعیمی ہماری عاملہ‘ امتحانی بورڈ اور مالیاتی کمیٹی کے رکن ہیں اور اُن کے طلبہ اب بھی تنظیم المدارس کے تحت امتحانات دیتے ہیں‘ حالانکہ اُن کے ادارے کو بورڈ کا درجہ حاصل ہے۔ محکمۂ تعلیم کے قائم کیے ہوئے ان بورڈوں کے پیچھے نہ کوئی قانون سازی ہے اورنہ کوئی قانونی حیثیت ہے‘ بس ایک سرکلر کی پیداوار ہیں۔ کئی ادارے جو پانچوں تنظیمات کے ساتھ ملحق ہیں‘ اُن میں سے بعض خوف سے اور بعض چمک دیکھ کر نئے بورڈوں کی طرف لپکے‘ لیکن واپس اپنی اصل کی طرف آ گئے۔ وزارتِ تعلیم کے پاس کوئی حقیقی اعداد وشمار نہیں ہیں‘ بعض نام تنظیمات اور اُن کے درمیان مشترک ملیں گے‘ لیکن اُن کا نظامِ امتحان ہمارے ساتھ منسلک ہے۔ کئی مکاتبِ تعلیم القرآن کو مدارس کے طور پر رجسٹرڈ کر دیا گیا‘ حالانکہ 2005ء کے ایکٹ میں لکھ دیا گیا تھا: ''مدرسہ صرف وہی کہلائے گا‘ جس میں طلبہ وطالبات کیلئے قیام وطعام کی سہولتیں موجود ہوں‘‘ جہاں طلبہ روزانہ آتے ہیں اور پڑھ کر چلے جاتے ہیں‘ ان پر مدرسے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ ہم نے تجویز دی تھی: عصری تعلیم کو رضاکارانہ رکھیں‘ جن مدارس میں گنجائش ہے‘ ہم خود ان کو ترغیب دیں گے‘ لیکن محض دینی تعلیم دینے کو جرم قرار نہ دیں‘ ہمارے ملک میں تو تعلیم سے مکمل محرومی بھی جرم نہیں ہے۔
(4) وزارتِ تعلیم جس مدرسے کا الحاق کرتی ہے‘ اس کی شرائط میں لکھا ہوتا ہے: ''انٹرمیڈیٹ تک عصری تعلیم بھی دی جائے گی‘‘ ہمیں برسرِ زمین بتایا جائے کہ اُن کے دعوے کے مطابق اُن کے پاس رجسٹرڈ 17552 مدارس میں سکول کی باقاعدہ تعلیم کہاں کہاں ہو رہی ہے تاکہ ہم بھی زیارت کر سکیں۔ ہمارا مطالبہ ہے: ان مدارس کو جو 1196 اساتذہ مہیا کیے گئے ہیں‘ ان کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے۔ میڈیا کے لوگوں کو مدارس وجامعات کی بڑی فکر لاحق رہتی ہے اور انہیں جاسوسی صحافت کا بڑا دعویٰ ہوتا ہے‘ اُن سے گزارش ہے: ازراہِ کرم سراغ لگا کر ہمیں بھی بتائیں کہ وفاقی وزارتِ تعلیم سے ملحق ان 17552 مدارس میں انٹرمیڈیٹ کی سطح تک تعلیم کہاں کہاں دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر غلام قمر صاحب کے دعوے کے مطابق 598 مدارس میں 1196 اساتذہ فراہم کیے گئے ہیں‘ اس کی بابت ہمارے چند سوالات ہیں:
(الف) 17552 مدارس میں سے 598 منہا کرلیں تو باقی 16954 مدارس کا کیا بنا‘ نیز جامعہ محمدیہ غوچیہ بھیرہ‘ منہاج القرآن اور جامعۃ الرشید کے نیٹ ورک کو نکال کر ہمیں وہ 598 مدارس بتائے جائیں‘ جہاں انٹرمیڈیٹ کی سطح تک تعلیم دی جا رہی ہے‘ کیونکہ محکمۂ تعلیم مدرسے کی رجسٹریشن کرتے وقت پابند بناتی ہے کہ اس مدرسے میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم دی جائے گی۔ (ب): 102600 طلبہ کو جو کتابوں کے سیٹ مہیا کیے گئے ہیں‘ اُن کو تعلیم کہاں دی جا رہی ہے‘ ہم انکے نظامِ تعلیم کو دیکھنے کے بے حد مشتاق ہیں۔ ڈاکٹر غلام قمر سے گزارش ہے: ہمیں مذکورہ بالا تینوں اداروں کو چھوڑ کر دیگر اداروں کی فہرست فراہم کر دیں تاکہ ہم ان کا نظام دیکھ سکیں‘ (ج): نیز ہمیں روئے زمین پر کوئی ایسا ایک مدرسہ یا سکول بتایا جائے‘ جہاں دو اساتذہ پہلی سے بارہویں جماعت تک تعلیم دیتے ہوں‘ شاید ڈاکٹر غلام قمر صاحب کسی کرامت سے یہ کارنامہ انجام دے دیتے ہوں‘ عملی دنیا میں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔
دینی مدارس طلبہ کی کفالت کرتے ہیں‘ ان کے علاج کا بھی انتظام کرتے ہیں‘ مفت کتب فراہم کرتے ہیں اور تعلیم دیتے ہیں۔ امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی تعریف کے مطابق خواندگی آپکی سکولوں اور کالجوں کی اسناد اور ڈگریوں کا نام نہیں ہے‘ بلکہ اُن کے نزدیک خواندگی کی تعریف یہ ہے: ''جو لکھ سکے‘ لکھے ہوئے کو پڑھ سکے‘ اپنا مُدّعا اور مافی الضمیرتحریراً وتقریراً بیان کر سکے اور دوسرے کا مؤقف سننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو‘‘۔ الحمدللہ! مدارس یہی خواندگی اپنے طلبہ کو دیتے ہیں‘ کسی بھی معیار پر پرکھ لیا جائے۔ لیکن مدارس سے عصری تعلیم کا مطالبہ وہ حکومت کر رہی ہے‘ جن کے اپنے اعداد وشمارکے مطابق ملک کے لگ بھگ تین کروڑ بچے سکول کی چار دیواری کے قریب بھی نہیں پھٹکتے‘ وہ کسی ورکشاپ میں ''چھوٹو‘‘ بن کر‘ کسی چائے خانے پر ''کاکا‘‘ بن کر یا گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ بعض وہ بھی ہیں جو کوڑے کے ڈھیر پر روزی تلاش کرتے ہیں۔ انکا درد بشمول ڈاکٹر صاحب حکمرانوں کو بے چین نہیں کرتا۔ دینی مدارس کے طلبہ تو باعزت ماحول میں رہتے ہیں۔ میرے ادارے سے متصل حکومت کا ایک سیکنڈری سکول اورایم ایڈ کی سطح تک ایک کالج آف ایجوکیشن ہے۔ میرے پاس جب ملکی یا غیر ملکی میڈیا کے لوگ آتے ہیں تو میں اُن سے کہتا ہوں: پہلے ان سرکاری اداروں کا صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ماحول دیکھیں‘ پھر ہمارے ہاں آئیں‘ رہائشی کمرے دیکھیں‘ کلاس روم دیکھیں‘ واش روم دیکھیں اور کچن اور کھانے کا کمرہ دیکھیں‘ فرق معلوم ہو جائے گا۔(جاری)