ذرائع ''ذریعہ‘‘ کی جمع ہے اور اس کے معنی ہیں: ''کسی بات یا کسی چیز سے حصول کا سبب۔ اسے انگریزی میں Source کہتے ہیں‘‘۔ آج کل نیوز چینل بہت زیادہ ہو گئے ہیں‘ اس کے علاوہ ڈیجیٹل چینلوں کی بھرمار ہے‘ یہ شعبۂ صحافت سے وابستہ اور شوقیہ حضرات کیلئے ذریعۂ معاش بھی ہے اور اپنے اپنے ذوق کی تسکین کا سبب بھی ہے۔ الغرض خبروں کی قلت ہے اور خبروں کو نشر کرنے والے اداروں اور افراد کی کثرت ہے۔ ٹی وی چینلوں کو اپنا پیٹ بھرنے کیلئے کم ازکم آٹھ گھنٹے کا مواد چاہیے‘ جبکہ پھر انہی پروگراموں کو چوبیس گھنٹے میں دوبار دہرایا جاتا ہے۔ ہر لمحے ٹی وی سکرین پر ٹِکر چلنے کے سبب اخباری سرخیوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے‘ اب اخبار ات کے قارئین زیادہ تر کالم پڑھنے کیلئے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس میں سہولت یہ ہوتی ہے کہ اسے اپنے پاس یادداشت کے طور پر محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں۔ شعبۂ صحافت سے وابستہ حضرات نے عام طور پر ایک پوزیشن اختیار کر رکھی ہوتی ہے‘ خواہ وہ ٹیلی ویژن چینل پر ہوں یا ڈیجیٹل چینل پر رونق افروز ہوں۔ ہر ایک اپنی اپنی پسند وناپسند اور ترجیحات کے اعتبار سے خبروں کو پیش کرتا ہے‘ اب صحافت معروضی (Objective) سے زیادہ موضوعی (Subjective) ہو گئی ہے‘ اس لیے بعض اوقات خبر کو مَن پسند رخ دیا جاتا ہے۔ موضوعی طرزِ فکر یہ ہے: نتیجہ پہلے طے کر لیا جائے اور پھر اس کے مطابق دلیل کے مقدمات ترتیب دیے جائیں تاکہ مطلوبہ نتیجہ حاصل ہو سکے‘ جبکہ معروضی طرزِ فکر یہ ہے: اپنے تعصبات وخواہشات سے بالاتر ہو کر حقائق کو جیسا کہ وہ ہیں‘ اُسی طرح پیش کیا جائے‘ من پسند رخ نہ دیا جائے۔
قرآنِ کریم نے شہادت کے بارے میں یہی ضابطہ بیان کیا ہے: (1) ''اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے اللہ کیلئے (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنے والے بن جائو اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی ناانصافی پر ہرگز نہ ابھارے‘ تم انصاف کرو‘ یہی (شِعار) تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو‘ بیشک اللہ تمہارے ہر کام سے باخبر ہے‘‘ (المائدہ: 5)۔ (2) ''اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے اللہ کیلئے گواہی دینے والے بن جائو‘ خواہ (یہ گواہی) خود تمہاری اپنی ذات یا تمہارے والدین یا تمہارے قرابت داروں کے خلاف ہو‘ (جس کے بارے میں گواہی دی جا رہی ہے) خواہ وہ مال دار ہو یا فقیر‘ اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے‘ پس تم خواہشات کی پیروی کرکے عدل سے روگردانی نہ کرو اور اگر تم گواہی میں ہیر پھیر یا اِعراض کرو گے‘ تو یقینا اللہ تمہارے سب کاموں سے اچھی طرح باخبر ہے‘‘ (النسآء: 135)۔ یعنی گواہی دینے میں نہ کسی بارسوخ و بااثر شخص کی رعایت کرو اور نہ کسی فقیر پر ترس کھا کر اس کے حق میں جھوٹی گواہی یا فیصلہ دو۔ گواہی صرف نفس الامر اور واقعہ کے مطابق اور اللہ کی رضا کیلئے ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور تم گواہی کو نہ چھپائو اور جو گواہی کو چھپاتا ہے تو اس کا دل گنہگار ہے‘‘ (البقرہ: 283)۔
اہلِ صحافت کے پاس ایک خفیہ ہتھیار ''ذرائع ‘‘ہے‘ وہ بارِ ثبوت سے یہ کہہ کر بچ نکلتے ہیں کہ ہم اپنے ذرائع کو ظاہر کرنے کے پابند نہیں ہیں‘ ورنہ خبروں کا حصول ہمارے لیے مشکل ہو جائے گا۔ بعض ''ذرائع‘‘ تو سب کو معلوم ہوتے ہیں‘ لیکن ان کا نام لیتے ہوئے زبان لرزتی اور قلم رک جاتا ہے۔ نیز بعض خبریں ردعمل معلوم کرنے کیلئے جستہ جستہ اِفشا کی جاتی ہیں‘ پھر ناموافق ردعمل آنے پر دبا دی جاتی ہیں‘ جبکہ مثبت ردعمل آنے پر انہیں بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ خواہشات کو خبر بناکر پیش کرتے ہیں‘ الغرض قیاسات ہیں‘ ظن وتخمین ہے‘ حقائق اپنی اصل شکل میں بہت کم سامنے آتے ہیں۔ ماضی کی بابت بعض صحافی اقرار کر چکے ہیں: ''ہمیں بلا کر فائلیں دکھائی جاتی تھیں‘‘: ظاہر ہے اپنا دماغ استعمال کیے اور حق وباطل کی تمیزکیے بغیر یہ حضرات طوطے کی طرح رٹا ہوا آموختہ دہرا دیتے تھے‘ حالانکہ اُن کا دعویٰ ہے: ''ہم خبر کو کئی زاویے سے دیکھتے ہیں‘ متبادل ذرائع سے جانچتے ہیں‘‘ لیکن جب صحافت کسی ایجنڈے کے تابع ہو تو ان کی ذمہ داری مرچ مسالا لگاکر خبر کو پُرکشش بنانا اور سنسنی پیدا کرنا ہوتا ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے: ''اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی خبر لے کر آئے‘ تو خوب تحقیق کر لیا کرو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ ردعمل میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچائو اور پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے پھرو‘‘ (الحجرات: 6)۔ الغرض جھوٹی اور غیر مصدقہ خبریں پھیلانا بھی فسق ہے۔ علم ِمعانی کے مطابق: ''خبر وہ ہے جو صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے‘‘ یعنی اگر وہ واقع کے مطابق ہے تو سچی ہے اور اگر واقع کے خلاف ہے تو جھوٹی ہے اور خبر دینے والا کاذب ہے۔ بعض اہلِ علم نے لکھا: ''کبھی خبر کی صداقت کو واقع پر پرکھا جاتا ہے اور کوئی خبر دینے والا اتنا ثقہ اور معتبر ہوتا ہے کہ اس کی ذات کا حوالہ صداقت کی دلیل بن جاتا ہے‘ ایسی شخصیت کو ''صدیق‘‘ کہتے ہیں‘‘۔
''صادق کے معنی ہیں: سچا اور صدیق کے معنی ہیں: نہایت سچا۔ بعض اہلِ علم نے صدیق اُسے قرار دیا ہے کہ اُس کی زبان سے کوئی لفظ نکلے اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اُسے ویسا ہی بنا دے۔ اس کی تائید اس حدیث مبارک سے ہوتی ہے: ''اللہ کے بندوں میں بعض ایسے بھی ہیں اگر وہ اللہ کی قسم کھا کر کہہ دیں (کہ یہ بات اس طرح ہے) تو اللہ تعالیٰ ان کو اس قسم میں سرخرو فرماتا ہے‘‘ (بخاری: 2703)۔ یہی وجہ ہے: اللہ تعالیٰ نے النسآء: 69 میں نبوت کے بعد دوسرا اعلیٰ ترین طبقہ ''صدّیقین‘‘ کو قرار دیا ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ''(واقعۂ معراج کے موقع پر) مشرک حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے اور کہا: آپ کا اپنے صاحب (رسول اکرمﷺ) کے اس دعوے کے بارے میں کیا خیال ہے کہ وہ آج رات بیت المقدس سے ہو کر واپس آ گئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: کیا واقعی انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ مشرکوں نے کہا: ہاں! تو آپؓ نے فرمایا: انہوں نے یقینا سچ فرمایا ہے‘ میں توصبح وشام اس سے بھی بڑی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں۔ اس لیے آپؓ کا لقب صدیق پڑ گیا‘‘ (تاریخ الخلفاء‘ ص: 28)۔
اس کا تقاضا یہ ہے: خبر دینے والا اتنا معتبر ہو کہ اس کی ذات صداقت کا حوالہ بن جائے۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا ''کسی شخص کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ثبوت ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (تحقیق کیے بغیر) بیان کرتا پھرے‘‘ (مسلم: 5)۔ نیز رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا: کیا مسلمان بزدل ہو سکتا ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! (ایسا ہو سکتا ہے)‘ پھر سوال ہوا: کیا مسلمان بخیل ہو سکتا ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: ہاں (ایسا ہو سکتا ہے)‘ پھر سوال ہوا: کیا مسلمان جھوٹا ہو سکتا ہے‘ آپ ﷺنے فرمایا: نہیں (مسلمان جھوٹا نہیں ہو سکتا)‘‘ (موطا امام مالک: 3630)۔ مدینۂ منورہ میں بدکار لوگوں‘ دشمنانِ دین اور منافقین کا ایک شِعار یہ بھی تھا کہ وہ جھوٹی خبریں پھیلاتے پھرتے تھے تاکہ مسلمانوں میں سنسنی پھیل جائے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے سنگین جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا: ''منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (فسق کی) بیماری ہے اور وہ جو مدینے میں جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں‘ اگر (اپنے کرتوتوں سے) باز نہ آئے تو (اے رسولِ مکرم!) ہم ضرور آپ کو اُن پر مسلط فرما دیں گے‘ پھر وہ مدینے میں آپ کے پاس زیادہ عرصہ ٹھہر نہیں سکیں گے‘ یہ لعنتی لوگ ہیں‘ یہ جہاں بھی پائے جائیں‘ پکڑے جائیں گے اور ان کو چن چن کر قتل کر دیا جائے‘ (اس طرح کے) جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں‘ ان کے بارے میں بھی اللہ کا دستور یہی تھا اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے‘‘ (الاحزاب: 60 تا 61)۔
جھوٹی افواہوں کو آج کل Disinformation کہتے ہیں اور قرآنِ کریم نے اسے ''اِرجاف‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ایسی خبریں پھیلانے کا مقصد معاشرے میں سنسنی پھیلانا‘ کسی کو بدنام کرنا یا ملک میں عدمِ استحکام پیدا کرنا ہوتا ہے۔ منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کواس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کا نقصان یا مابعد اثرات کتنے سنگین ہوں گے۔