ستمبرکے آخری عشرے میں الھدیٰ اسلامک سنٹر نیویارک اور النور اسلامک سنٹر ہیوسٹن کی دعوت پر امریکہ میں میلاد النبیﷺ کی مناسبت سے مختلف کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ ہمارا مشاہدہ ہے: مغربی ممالک میں مقیم پاکستانی تارکینِ وطن وہاں کی مقامی سیاست کے بجائے پاکستانی سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ بھارتی تارکینِ وطن اپنی نسلوں کی اعلیٰ تعلیم پر توجہ دیتے ہیں‘ مقامی سیاست میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں اور امریکہ کے فیصلہ کُن اداروں میں نفوذ کرکے بھارت نواز پالیسیاں بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی والدہ بھارتی ہیں اور والد کا تعلق جزائرِ غرب الہند سے ہے۔ میں ہمیشہ وہاں کے پاکستانی تارکینِ وطن کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ لوگ مقامی سیاست میں مؤثر کردار ادا کریں تاکہ پاکستان نواز لابی وہاں مضبوط ہو۔
پانچ نومبر کو امریکہ میں صدارتی انتخابات ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار صدر بائیڈن کے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے اُن پر تنقید کی جاتی تھی‘ پھر جولائی میں ان کا اپنے حریف ریپبلکن امیدوار ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی ویژن مباحثہ ہوا اور کمزور کارکردگی کے باعث ان کی اپنی پارٹی میں ان کے خلاف شدید مزاحمت شروع ہو گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں آخر کار انہیں موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کے حق میں مقابلے سے دستبردار ہونا پڑا۔ صدارتی مقابلے سے بائیڈن کی اچانک دستبرداری نے امریکی سیاست کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ عوامی جائزوں کے مطابق بائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ کو سبقت حاصل تھی مگر کملا ہیرس نے ٹیلی ویژن مباحثے میں بہتر کارکردگی دکھائی اوراب عوامی جائزوں کے مطابق دونوں صدارتی امیدواروں میں مقبولیت کے اعتبار سے فرق کم رہ گیا ہے۔ امریکہ میں روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی ریاستوں کو بلیو سٹیٹس اور ریپبلکن پارٹی کی حامی ریاستوں کو ریڈ سٹیٹس کہا جاتا ہے جبکہ بعض ریاستیں سیاسی وابستگی کے اعتبار سے معلّق کہلاتی ہیں‘ یعنی وہ تسلسل کے ساتھ کسی ایک جماعت کے ساتھ وابستہ نہیں رہتیں‘ ان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ پس وہ جس پارٹی کی حمایت کر لیں‘ اس کی جیت کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ 2020ء کے انتخابات میں ایریزونا‘ فلوریڈا‘ جارجیا‘ مشی گن‘ نارتھ کیرولائنا‘ پینسلوینیا‘ وسکونسن اور نیواڈا معلق ریاستیں قرار دی گئی تھیں۔ ایک غیرمقبول گرین پارٹی بھی ہے‘ اس کا رہنما جِل اسٹین ہے۔
ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ وہ امریکہ کے 45ویں صدر رہ چکے ہیں‘ ان کا منفرد اور غیر روایتی طرزِ سیاست لوگوں کے علم میں ہے۔ یروشلم میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی‘ نیٹو کے رکن ممالک پر دفاعی بجٹ میں اضافے کیلئے دباؤ‘ روس اور شمالی کوریا کے ساتھ بہتر سفارتی تعلقات‘ امریکی سپریم کورٹ میں چار ججوں کی تقرری‘ اسقاطِ حمل کے قوانین میں اصلاحات اور میکسیکو کے ساتھ سرحدی دیوار بنانا ان کے نمایاں کارنامے ہیں۔ ٹرمپ اپنی اُفتادِ طبع کے اعتبار سے جنگوں کے خریدار نہیں ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں امریکہ کو افغانستان اور شام کی جنگوں سے نکالا۔ ''امریکہ سب سے پہلے‘‘ ان کا نعرہ تھا۔ ان کا فلسفہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے وسائل اپنے لوگوں پر خرچ کرنے اور امرا کو ٹیکسوں میں رعایت دینی چاہیے۔ روسی صدر پوتن کیلئے ان کا نرم گوشہ تھا اور چین ان کا ہدف تھا۔ چین کی درآمدات پر وہ ڈیوٹی بڑھاتے رہے لیکن چین کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکے‘ کیونکہ امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کی مارکیٹوں میں چینی مصنوعات کا غلبہ ہے۔ اوباما بھی دعویٰ کرتے رہے‘ ٹرمپ کی بھی خواہش رہی کہ بڑی بڑی صنعتوں کو واپس امریکہ لایا جائے لیکن کم از کم فی گھنٹہ اجرت اور دیگر قوانین کے سبب وہ صنعتیں چلانے میں چین کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اپنی تلوّن مزاجی کے اعتبار سے ٹرمپ ناقابلِ پیش گوئی رہے ہیں۔ وہ قومی سلامتی کے سربراہ جیسے عہدوں پر تقرر اور برطرفی ٹویٹر پر کرتے رہے ہیں۔ دراصل امریکہ اور مغرب میں سفید فام نسل پرست انتہا پسند سیاستدان سر اٹھا رہے ہیں‘ ٹرمپ بھی انہی میں سے ہیں۔ یہ سفید فام لوگوں کو ممکنہ خطرات سے ڈراتے رہتے ہیں کہ تارکینِ وطن آپ کی ملازمتوں اور مواقع پر قابض ہورہے ہیں۔ آپ کی آبادی کا تناسب آنے والے زمانوں میں بدل سکتا ہے۔ تارکینِ وطن آپ کی سیاست پر غالب آسکتے ہیں‘ وغیرہ۔
برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور ہالینڈ کی سیاست میں بھی ایسا ہی ارتعاش ہے۔ برطانیہ کے حالیہ انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کا سیاستدان ''نائیجل فراج‘‘ اسی فکر کا ترجمان تھا۔ ٹرمپ کی شخصیت کے منفی پہلو یہ ہیں: انہوں نے کووِڈ 19کی وبا سے نجات کیلئے مؤثر پالیسی اختیار نہیں کی‘ وہ قوم کی تقسیم کا باعث بنے‘ میڈیا سے شاکی رہے‘ دو بار اُن کا ناکام مواخذہ ہوا‘ بین الاقوامی تعلقات میں مستقل مزاج نہیں تھے‘ ماحولیاتی پالیسی کی بابت پیرس معاہدے سے الگ ہو گئے‘ ایران سے نیوکلیئر معاہدہ ختم کر دیا‘ گزشتہ انتخابات کو فراڈ قرار دیتے رہے۔ چھ جنوری2021ء کو کیپٹل ہِل میں‘ جہاں کانگریس کے ایوان اور دفاتر ہیں‘ ان کی شہ پر فسادات ہوئے۔ وہ اپنے عدالتی نظام پر بھی عدمِ اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ عوام میں مقبولیت ان کی ترجیح رہی۔ عالمی سیاست و معاہدات میں ناقابلِ اعتبار سمجھے گئے۔ پالیسی میں تسلسل نہیں تھا‘ جذباتی اور غیرحکیمانہ فیصلے ان کا شعار تھا۔ البتہ پاکستانی تارکینِ وطن کا کہنا ہے: ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیاں بہتر تھیں‘ کاروبار ترقی کر رہا تھا اور ملازمت کے مواقع پیدا ہو رہے تھے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس جنوبی ایشیائی پس منظر رکھتی ہیں۔ جیت کی صورت میں وہ ممکنہ طور پر پہلی خاتون صدر بن سکتی ہیں۔ لیکن امریکیوں نے آج تک کسی عورت کو منصبِ صدارت پر فائز نہیں کیا۔ وہ ترقی پسندانہ پالیسیوں کی حامی ہیں‘ عدمِ مساوات کو ناپسند کرتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں حساس ہیں‘ صحتِ عامّہ پر مبنی پالیسیوں‘ نظامِ انصاف میں انقلابی تبدیلیوں‘ خواتین کے حقوق‘ اسقاطِ حمل اور جرائم کی بیخ کنی پر مبنی پالیسیوں کی حامی ہیں۔ پبلک پراسیکیوٹر اور اٹارنی جنرل رہ چکی ہیں۔ شعبۂ قانون بالخصوص فوجداری قوانین کی ماہر ہیں‘ نائب صدر ہونے کے سبب بین الاقوامی سیاست کا تجربہ ہے‘ بائیڈن اور ٹرمپ کے مقابلے میں نسبتاً کم عمر ہیں۔ گمان ہے کہ وہ قدیم وجدید نسل میں پُل کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ تارکینِ وطن کیلئے ان کی پالیسیاں متوازن ہو سکتی ہیں۔ مباحثے میں ٹرمپ پر ذاتی حملے بھی کیے‘ ممکنہ طور پر نظامِ عدل میں بہتری لا سکتی ہیں‘ وغیرہ۔ ان کے ناقدین بھی موجود ہیں۔ خیال یہ ہے کہ وہ مضبوط پالیسیاں نہیں بنا پائیں گی‘ اسی طرح عدل کے شعبے میں ان کی خدمات کے حوالے سے منفی تبصرے بھی کیے جاتے ہیں۔
امریکہ کا انتخابی نظام پوری دنیا سے مختلف ہے۔ امریکہ میں کوئی مرکزی الیکشن کمیشن یا انتخابی ادارہ نہیں ہے۔ 50 ریاستوں کے اپنے اپنے انتخابی ادارے اور قوانین ہیں اور ہر ریاست میں صدارتی انتخابات مقامی قوانین اور انتظامیہ کے تحت ہوتے ہیں۔ صدارتی امیدوار کی جیت کا فیصلہ عوامی ووٹوں کی اکثریت پر نہیں ہوتا۔ امریکہ میں ممکن ہے کہ مجموعی ووٹوں کی زیادہ تعداد ایک امیدوارکو مل جائے لیکن ہو سکتا ہے کہ اسے انتخاب میں کامیابی نہ ملے۔ وہاں آبادی کی بنیاد پر ہر ریاست کیلئے نائبین کی تعداد مقرر ہے‘ ہرصدارتی امیدوار اپنے نائبین (Delegates) کی فہرست پہلے فراہم کردیتا ہے۔ یہ سب لوگ انتخابی کالج کے ارکان کہلاتے ہیں۔ ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے منگل کو صدارتی انتخاب ہوتا ہے۔ جنوری میں انتخابی کالج کے نائبین کا اجلاس بلایا جاتا ہے۔ یہ ووٹ دینے میں آزاد ہوتے ہیں‘ لیکن آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نامزد نائب نے اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دیا ہو۔(جاری)