تنازعات کے حل کیلئے حکومت کی طرف سے لینڈ کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے‘ لیکن اس کی کارکردگی اب تک واضح نہیں ہے۔ حکومتی غیر سنجیدگی کے ساتھ متحارب فریق بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ تاہم حکومتی اہلکار کہتے ہیں کہ وہ مسئلے کے حل تک پہنچ گئے ہیں اور وہ قبائلی روایات کے تناظر میں لینڈ ریکارڈ پر کام کرنے کے ساتھ مری معاہدے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ مقامی افراد کے پاس اسلحہ کی موجودگی بھی تنازعات کے حل میں رکاوٹ ہے۔ حکومت دونوں اطراف کے افراد کو غیر مسلح کرکے ان تنازعات کو حل کر سکتی ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حکومت متنازع اراضی خرید کر اس پر عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے بنائے۔ یہاں تک تو ہم نے آپ کے سامنے کسی تعصب یا ذاتی ترجیح کے بغیر بیتے ہوئے واقعات وحقائق بیان کیے ہیں اور حاشیہ آرائی سے گریز کیا ہے‘ ان سے اختلاف ناقابلِ تردید شواہد کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں بعض حضرات اپنے آپ کو پاک افغان تعلقات یا قبائلی مسائل کے ماہرین کے طور پر پیش کرتے تھے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ حضرات سیکولر عینک سے معاملات کو دیکھتے اور تجزیہ کرتے رہے ہیں‘ مذہبی ومسلکی نزاکتوں کی پاسداری ان کے نتیجۂ فکر میں شامل نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ مذہب کو مسئلے کا حل بنانے کے بجائے مسئلے کی جڑ سمجھ لیا جاتا ہے۔ مذہب کے بارے میں یہ ایک منفی سوچ ہے جو پاکستان کے سیکولر لبرل عناصر کے ذہنوں میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔
حالیہ فسادات میں حکومت کا مؤقف غیر واضح ہے اور اس امر کا تعین بھی نہیں کیا گیا کہ فسادات کا آغاز کس کی طرف سے ہوا اور آیا اس کا کوئی جواز تھا‘ نیز اُس فریق کے خلاف کیا کارروائی عمل میں آئی‘ یہ امر نامعلوم ہے۔ معروف شیعہ عالم علامہ جواد نقوی نے اپنے ایک وڈیو بیان میں کہا ہے کہ اس تنازع کی شروعات گاڑیوں سے اہلِ سنّت کے افراد کو اتار کر شہید کرنا تھا‘ وہ لوگ بے قصور تھے اور یہ اقدام ایک غیر ثقہ افواہ کی بنا پر کیا گیا جو بعد میں غلط ثابت ہوئی اس کے جواب میں پاڑاچنار کے راستے بند کر دیے گئے اور تاحال یہ قضیہ حل طلب ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے علامہ راجا ناصر عباس نے راستے بند کرنے کی تو مذمت کی جو درست ہے‘ لیکن اس کا سبب بننے والے واقعے کی مذمت نہیں کی‘ حالانکہ اس کی مذمت زیادہ شدت سے ہونی چاہیے۔ غیر اسلامی‘غیر قانونی اور غیر انسانی اقدام جس کی طرف سے بھی ہو‘ مذہب ومسلک کی تمیز کے بغیر اس کی مذمت اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے‘ اسی حکمتِ عملی سے ردِّعمل کو روکا جا سکتا ہے۔ مگر حکومتیں مصلحت کا شکار ہو جاتی ہیں اور افراد کی غلطی قبائلی اور مسلکی تنازع کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو خطرناک مضمرات کی حامل ہوتی ہے۔ دونوں طرف کے مقامی علما کو چاہیے کہ مل کر پورے واقعے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں اور ذمہ داروں کو قرارِ واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ جس طرح بے قصور لوگوں کا قتل شریعت‘ قانون اور انسانی اقدار کے حوالے سے قابلِ مذمت اور قابلِ گرفت ہے‘ اسی طرح جوابی اقدام کی بھی حمایت نہیں کی جا سکتی‘ مگر پہل کرنے والے کا جرم یقینا زیادہ ہوتا ہے‘ کیونکہ یہی اس سارے تنازع کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔ اب تک کوئی ایسے شواہد سامنے نہیں آئے کہ حکومت نے غیر جانبدارانہ اور شفاف انداز میں کارروائی کی ہو‘ صرف جرگے کے ذریعے لیپا پوتی اور دفع الوقتی کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جو مٹی پائو کے مترادف ہے۔ ماضی میں ایسے واقعات کو کنٹرول کرنا براہِ راست وفاق کی ذمہ داری تھی‘ لیکن قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اب یہ براہِ راست صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ البتہ وفاق کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ صوبے کو ہر قسم کی اعانت فراہم کرے۔ حیرت کا مقام ہے کہ جب کرم میں مقتولین کی لاشیں پڑی تھیں تو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اس مسئلے کو پسِ پشت ڈال کر اسلام آباد پر چڑھائی کر رہے تھے‘ یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل تھا۔ ایم ڈبلیو ایم نے کراچی میں احتجاجی دھرنے دیے‘ اس کا سبب بھی سمجھ سے بالاتر ہے‘ کیونکہ وقوعہ کرم میں ہوا اور ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کی حکومت کی اتحادی ہے‘ لیکن احتجاج اور دھرنے کراچی میں برپا کر دیے گئے اور پہلی مرتبہ سندھ حکومت کو طاقت استعمال کرنا پڑی۔ اچھا ہوا بعد میں ایم ڈبلیو ایم نے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
حکومتوں کا شعار ہمیشہ یہی رہا ہے کہ مسائل کی جڑ تک پہنچ کر ان کا دیرپا حل تلاش کرنے کے بجائے دفع الوقتی سے کام لیا جاتا ہے‘ کیونکہ حکومتیں کسی فریق کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔ ایم ڈبلیو ایم حکومت کی اتحادی ہے اور خیبر پختونخوا حکومت اس کی ناراضی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ مسئلہ گمبھیر اور پیچیدہ ہے‘ قبائلی تنازع مسلکی رنگ اختیار کر لیتا ہے اور مسلکی تنازع قبائلی تنازع میں بدل جاتا ہے‘ الغرض دونوں صورتوں میں تداخُل ہو جاتا ہے۔ اگر تنازع قبائلی حد تک رہے تو مقامی ہوتا ہے‘ لیکن اگر اسے مسلکی رنگ دے دیا جائے تو پھر اس کے اثرات قومی سطح پر مرتب ہوتے ہیں۔ پس لازم ہے کہ قبائل اور مقامی مسلکی نمائندوں کو بھی ایک جامع حل کا حصہ بنایا جائے‘ سب فریق اس کی ذمہ داری قبول کریں اور اس کے پھیلائو کو روکیں‘ کیونکہ ان تنازعات کا جاری رہنا دین اور ملک وملّت کے مفاد میں نہیں ہے۔
حالیہ تنازع میں اس امر کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ صوبائی حکومت نے جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کو زرِ تلافی یا زرِ اعانت یا دیت کا اعلان کیا ہو یا یقین دہانی کرائی ہو۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس حوالے سے وہاں کی مقامی قبائلی روایات کیا ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بھی اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دی اور نہ اس کا گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا‘ بس سرسری انداز میں خبریں دی جاتی رہیں۔ اس المیے کا ایک دوسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسئلے کے حل کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا اشتراک نظر نہیں آیا۔ ایک سبب یہ بھی ہے کہ دیرپا حل کیلئے وزیراعلیٰ کو وفاق‘ دفاع اور سلامتی کے اداروں کے ساتھ اشتراک کرنا پڑتا ہے‘ ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرنا ہوتا ہے‘ لیکن صوبائی وزیراعلیٰ اس حد تک آگے جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘ کیونکہ ان کی جماعت میں اُن کے مخالفین اُن پر اداروں کا نمائندہ ہونے کا الزام لگا سکتے ہیں اور وہ اس دبائو کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت صوبائی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر کسی سنجیدہ اور جہاں دیدہ رہنما کو فائز کرتی اور قبائلی‘ مسلکی‘ قومی‘ ملّی اور ملکی سطح پر اثر انداز ہونے والے مسائل کے حل کیلئے وفاق سے تعامل کی کھلی اجازت دیتی‘ اس کے کردار کو شبہے کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے قومی مفاد کے زاویے سے دیکھا جاتا اور سیاسی تحریک دوسرے فعال رہنمائوں کو تفویض کی جاتی‘ جن کا مزاج تحریکی ہوتا ہے۔ کوئی بھی قیادت بیک وقت تحریکی اور ملی وحدت کے فرائض انجام نہیں دے سکتی۔
ماضی میں خیبر پختونخوا کے سرحدی قبائلی علاقے وفاق کے زیرِ اہتمام ہوتے تھے‘ صدرِ پاکستان صوبائی گورنر کے ذریعے ان کے انتظامی معاملات پر نظر رکھتے تھے‘ ہر ایجنسی میں ایک پولیٹکل سیکرٹری تعینات ہوتا تھا‘ وہ قبائل کے مزاج کو بھی جانتے تھے‘ قبائلی مَلک ہوتے تھے اور ان کے ذریعے معاملات کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ مگر جب سے جہادِ افغانستان کے لازمی ضمنی پیداوار کے طور پر جہادی عناصر اور طالبان طاقتور اور منظم انداز میں وجود میں آئے تو سابق قبائلی رہنما اور ملک غیر مؤثر ہو گئے‘ اُن میں سے بعض ہجرت کر کے پشاور‘ ایبٹ آباد اور اسلام آباد وغیرہ میں آباد ہو گئے‘ اب اس طرح کی کوئی معاشرتی ساخت موجود نہیں ہے۔ جہادی عناصر یا طالبان کے پاس اپنی من پسند تعبیر کا حامل شریعت کا ایجنڈا موجود ہے۔ اس ایجنڈے نے پاکستان کے دیگر علاقوں سے بھی عسکریت پسندوں کو قبائل کے طالبان یا ٹی ٹی پی کے ساتھ منسلک کر دیا ہے‘ اندیشہ ہے کہ اگر حکمت ودانش سے اس مسئلے کا حل نہ تلاش کیا گیا تو یہ پورے ملک کی فضا کو متاثر کر سکتا ہے۔