"MMC" (space) message & send to 7575

علمی مباحثہ …( دوم)

ہمارے اور ڈاکٹر محمد امین صاحب کے زاویۂ نظر میں فرق یہ ہے کہ وہ مثالی پوزیشن میں مغربی تہذیب اور مغرب کی سائنس و ٹیکنالوجی کے تسلّط اور تفوّق کا تجزیہ کرتے ہیں‘ اُن کی فکر کے حامل دیگر اہلِ علم بھی اسی زاویۂ نظر سے علمی ابحاث کرتے ہیں‘ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ دستیاب صورتحال میں ہم مغرب کو زیر کرکے آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔ صرف تخیّلات وتصورات کی دنیا میں جی کر حقیقی اور معروضی حالات کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جدید سائنسی وفنی تحقیق کا مسئلہ یہ ہے کہ جس پس منظر کے حامل لوگ اُس میں پیشرفت کرتے ہیں‘ اُن علوم کی اصطلاحات بھی اُسی پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں‘ اُن کی فکر بھی غالب رہتی ہے‘ وہ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور دیگر عصری علوم میں تفوّق کو اپنی برتری کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہم مغرب کی معروضی اور عملی صورتحال کا مقابلہ اسلام کی تصوراتی اور مثالی پوزیشن سے کرنا چاہتے ہیں‘ ہم امریکہ کی قیادت اور نظام کا مقابلہ عہدِ رسالت مآبﷺ یا عہدِ فاروقی سے کرنا چاہتے ہیں۔ پس گزارش ہے: اگر آئیڈیل کا مقابلہ آئیڈیل سے ہوگا تو یقینا ہم فائق ہوں گے‘ لیکن اگر آئیڈیل کا مقابلہ دوسروں کی عملیت سے ہوگا تو ہم پیچھے رہ جائیں گے‘ اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر ہم اس خلا کو پُر نہیں کر سکتے۔ اگر ایک گاڑی کسی گہری کھائی میں گر گئی ہے‘ ٹوٹ پھوٹ گئی ہے‘ تو جب تک کھائی سے نکال کر اور مرمت کرکے شاہراہ پر نہیں ڈالا جائے گا وہ دوڑکے مقابلے میں شامل نہ ہو سکے گی‘ یہ سامنے کی حقیقت اور نوشتۂ دیوار ہے۔ ہاں! جب آپ جدید علوم کی امامت کے منصب پر فائز ہو جائیں گے تو پھر باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں ہو گی‘ دوسروں کے رحم وکرم پر نہیں ہوں گے‘ بلکہ ان کے مقدر کا فیصلہ کر رہے ہوں گے‘ لیکن سرِدست صورتحال یہ نہیں ہے۔
جدید سائنس وٹیکنالوجی‘ بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی اور 'مصنوعی ذہانت‘ کا جن سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ چند دن پہلے امریکی صدر بائیڈن نے اپنی چار سالہ مدتِ صدارت کے اختتام پر قوم سے الوداعی خطاب میں دنیا اور امریکہ کو درپیش مستقبل کے خطرات کا احاطہ کرتے ہوئے کہا: امیر ترین افراد کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی آزاد صحافت اور جمہوریت کیلئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے امیر ترین افرادکو اشارتاً نشانہ بنایا کہ یہ جدید ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دیو ہیں اور سپر پاور امریکہ کے اقتصادی اور سیاسی نظام کوقابو کرکے اپنے ڈھب پر چلانے کی پوزیشن میں ہیں۔ سوشل میڈیا سے آزاد صحافت تباہ اورایڈیٹر کا کردار ختم ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے خبروں کی صداقت کے نظام کو تباہ کر دیا ہے‘ اس کے ذریعے طاقت اور منافع کیلئے بولے جانے والے جھوٹ سے سچائی کو کچل دیا جاتا ہے۔ چھ دہائی قبل اُس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے اپنے الوداعی خطاب میں 'ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ کو خطرہ قرار دیا تھا‘ اب میں 'ٹیکنالوجیکل انڈسٹریل کمپلیکس‘ کے مُہیب خطرات سے خبردار کر رہا ہوں۔ انہوں نے مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات سے خبردار کیا‘ اُسے عہدِ حاضرکی سب سے زیادہ نتیجہ خیز ٹیکنالوجی قرار دیتے ہوئے کہا: ہماری معیشت‘ سلامتی اور معاشرت یعنی تہذیب کیلئے اس سے زیادہ گہرے خطرات کسی اور سے نہیں ہیں۔ حفاظتی اقدامات کے بغیر مصنوعی ذہانت ہمارے حقوق‘ ہمارے طرزِ زندگی‘ ہماری رازداری کیلئے خطرات پیدا کر سکتی ہے‘ ہم کیسے کام کرتے ہیں اور کیسے اپنی قوم کی حفاظت کر سکتے ہیں‘ اب قومی اور ملّی امور کی رازداری بھی ممکن نہیں رہی‘‘۔ پس معلوم ہوا کہ نظامِ سرمایہ داری کا غلبہ ہے‘ حکومتوں پر بھی چوٹی کے سرمایہ داروں کا غیر مرئی کنٹرول ہے۔ ہمارے معاصر نقاد ہمیں بتاتے ہیں کہ جدید سائنس وٹیکنالوجی سے ہماری اقدار کو خطرہ ہے‘ ہمیں تسلیم ہے‘ لیکن اُن میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں اُس ٹیکنالوجی کو استعمال بھی کر رہا ہے۔ پس حل کیا ہے‘ کیا ہم جدید سائنس وٹیکنالوجی سے دستبردار ہوکر ماضی میں چلے جائیں یا اس کے ساتھ جینا سیکھیں‘ اس پر تحدید وتوازن کے حوالے سے امریکہ بھی فریادی ہے۔ ''اچھی چیز کو لے لو اور بری چیز کو چھوڑ دو‘‘ کا اختیار بھی ہمارے پاس نہیں ہے‘ کیا ہم کوئی ایسی تحدید عائد کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘ جبکہ ان علوم کی کنجی اہلِ مغرب کے پاس ہے‘ پس میری گزارش یہ ہے کہ حل بتائیں‘ ہم آپ کے ہمنوا ہوں گے۔
ڈاکٹر محمد امین لکھتے ہیں: ''ہم سائنس وٹیکنالوجی کے مخالف نہیں‘ ہرگز نہیں‘ ہم یہ نہیں کہتے اور نہ کبھی کہا ہے کہ سیکولرازم اور ٹیکنالوجی لازم وملزوم ہیں‘ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو سائنس وٹیکنالوجی میں خودکفیل ہونا چاہیے‘ ایسی ٹیکنالوجی جو مخرِّب اخلاق نہ ہو‘ بلکہ مقاصدِ شریعت کو پورا کرنے والی ہو‘ جیسا کہ مسلمانوں کے عہدِ زرّیں میں ہوا‘ نیز ہمیں مغربی ٹیکنالوجی کی پیروی نہیں کرنی چاہیے‘ جو مخرِّب اخلاق ہے اور جو مغربی تہذیب کے کافرانہ نظام کی پیداوار ہے‘‘۔ اس میں جزوی طور پر ہماری فکر سے ہم آہنگی ہے‘ لیکن آپ ٹیکنالوجی کو مخرِّب اخلاق یا مخرِّب عقائد مفاسد سے تب پاک کر سکیں گے‘ جب اس کی امامت آپ کے ہاتھ میں ہو۔ لیکن اس کیلئے آپ کو زیرو میٹر سے شروع نہیں کرنا ہوگا‘ بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی جہاں تک پہنچ چکی ہے‘ اسے حاصل کرکے اس میں ملکہ اور مہارت پیدا کرنا ہوگی‘ پھر آپ اس کی تطہیر کر سکیں گے۔ انقلاب یقینا خواہشات اور حسین خوابوں کی پیداوار ہوتے ہیں‘ لیکن محض خواہشات سے انقلاب برپا نہیں ہوتے‘ اس کیلئے عملی میدان میں قدم اٹھانا پڑتا ہے‘ آپ پہلا قدم ہی نہیں اٹھائیں گے تو مقابلہ کیسے کریں گے۔ ایک سوال بار بار کیا جاتا ہے کہ قرونِ اُولیٰ اور قُرونِ وُسطیٰ میں ایک ہی نظام کے تحت دینی اور عصری علوم پڑھائے جاتے تھے‘ اب بھی ایسا ہونا چاہیے۔ یہ سوال کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ تخصُصات کا زمانہ ہے۔ تمام شعبوں کا یکجا ہونا تو درکنار‘ ایک طب کے شعبے میں بے شمار تخصُصات ہیں اور ان کا سلسلہ ابھی جاری ہے‘ اُن کا احاطہ ایک فرد یا ایک ادارہ نہیں کر سکتا۔ عصری‘ سائنسی اور ٹیکنالوجیکل علوم کی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ دینی ادارے تو دینی علوم کے تحفظ‘ تحقیق اور ارتقا کیلئے ہیں‘ ان کو وسائل بھی اسی مقصد کیلئے دیے جاتے ہیں۔ یہ اگر اپنے مقاصد اور اپنے ایجنڈے سے انحراف کریں یا اس کا حق نہ ادا کریں تو یقینا آپ کا حق ہے کہ ان کی گرفت کریں۔ لیکن سائنسی اور ٹیکنالوجیکل علوم کے بارے میں ان سے جواب طلبی کا قطعاً کوئی جواز نہیں ہے‘ یہ محض ایک ذہنی مشق ہے۔ نیز دینی شعبے میں کام کرنے والوں کی بھی آپ گرفت ضرور کریں‘ لیکن درپیش حالات میں جو کچھ وہ کر رہے ہیں‘ اس کی تحسین بھی کریں۔ یہ ان دینی مدارس اور علما کی خدمات کا مثبت پہلو ہے کہ دینی مزاج کی حامل دینی صورتیں جتنی ہمارے ہاں نظر آتی ہیں‘ اتنی دوسرے مسلم ممالک میں نہیں ہیں۔
نیز یہ غنیمت ہے کہ پاکستان میں دین بحیثیتِ مجموعی ریاست کی غلامی میں نہیں ہے‘ اس لیے کسی نہ کسی درجے میں باطل کی مزاحمت جاری رہتی ہے‘ جبکہ سعودی عرب سمیت دیگر مسلم ممالک میں دینی اقدار کے اعتبار سے اس درجے کی مزاحمت نہیں ہے۔ عہدِ نبوت کے علاوہ پورے تاریخی ادوار میں خیرِ کُل تو شاید وباید کہیں حاصل ہوئی ہو‘ خیرِ غالب حاصل ہو جائے تو یہ بھی بہت بڑی کامیابی اور قابلِ تحسین ہے ۔ مجھے دینی سوچ کے حامل ان اہلِ علم کی نیّتوں اور اخلاص کے بارے میں کبھی شبہ یا بدگمانی نہیں رہی‘ ان سے میری گزارش یہ ہے کہ ذہنی انتشار پیدا نہ کریں۔ مثالی صورتحال سے نکل کر عمل کی دنیا میں آئیں اور یہ بتائیں کہ دستیاب حالات اور وسائل میں رہتے ہوئے اس عہد کے باطل اور سائنس وٹیکنالوجی کے بے لگام جن کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ریاستوں اور حکومتوں کی باگ ڈور تو ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اور جو نظام مسلّط ہے‘ اس میں مستقبلِ قریب میں بھی اس کے آثار نظر نہیں آتے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ معمولی تناسب کے ساتھ صرف ایک مذہبی جماعت کے سوا دینی قوتیں نظامِ حکومت سے بالکل باہر ہیں‘ فیصلہ سازی میں ان کا کوئی دخل نہیں‘ زیادہ سے زیادہ مزاحمتی کردار ہے اور بس!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں