"MMC" (space) message & send to 7575

چیف جسٹس کا صائب مشورہ

نوٹ: سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی اور جج وغیرہ انگریزی الفاظ ہیں۔ یہ اب مُوَرَّد ہیں‘ انہیں اردو میں قبول کر لیا گیا ہے۔ پس اب اردو میں ان کلمات کی جمع کو اردو کی طرز پر سکولوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور ججوں یا جج صاحبان لکھنا اور بولنا چاہیے۔ 'بیٹسمین‘ انگریزی کا لفظ ہے‘ جب تک صرف مرد کرکٹ کھیلتے تھے تو ' بیٹس مین ‘ بولا جاتا تھا‘ اب چونکہ خواتین بھی کرکٹ کھیلتی ہیں‘ تو اس کیلئے حالیہ برسوں میں 'بیٹر‘ کی اصطلاح رائج کی گئی ہے۔ اس کا اطلاق لفظِ مشترک کے طور پر مردانہ اور زنانہ دونوں طرح کے کھلاڑیوں پر یکساں ہوتا ہے۔ پہلے بیٹس مین کو اردو میں 'بلے باز ‘ بولتے تھے‘ مگر اب انگلش کے غلبے کی وجہ سے یہ لفظ متروک ہو گیا ہے۔
چیف جسٹس نے عدالتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے کہا: ''میں نے برادر ججوں کو مشورہ دیا تھا: سسٹم کو چلنے دیں‘ سسٹم کو نہ روکیں‘ مجھے جج لانے دیں‘ ہمیں چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا بلکہ حل کرنا ہے‘ ہمیں جاری نظام پر اعتبار کرنا ہو گا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ''جج صاحبان کے خطوط لکھنے کی عادت پرانی چل رہی ہے‘ اسے ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا‘ پرانی چیزیں ہیں‘ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میرے نام لکھا جانے والا خط مجھے بعد میں پہنچتا ہے‘ میڈیا پر پہلے نشر ہو جاتا ہے‘ جج صاحبان 'پینک‘ کر جاتے ہیں‘ شاید انہیں اعتبار نہیں رہا‘‘۔ پینِک کے لفظی معنی ہیں: 'گھبرا ہٹ‘ شاید یہاں جھنجھلاہٹ مراد ہے۔ انہوں نے کہا: 'مجھے جج لانے دیں‘ اچھے جج آ رہے ہیں‘ جج صاحبان کے اٹھ کر چلے جانے کے سبب ایک اہل جج سپریم کورٹ کا حصہ بننے سے رہ گیا‘۔ انہوں نے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو بھی سپریم کورٹ میں لانے کا دفاع کیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے: چیف جسٹس پاکستان جناب یحییٰ آفریدی متوازن مزاج کے حامل ہیں‘ اپنے مزاج میں تحمل اور بردباری رکھتے ہیں‘ جبکہ چند دوسرے جج صاحبان اس صفت سے عاری ہیں۔ موجودہ اور سابق جج صاحبان افتخار محمد چودھری‘ آصف سعید کھوسہ‘ گلزار احمد‘ ثاقب نثار‘ عمر عطا بندیال‘ اعجاز الاحسن‘ قاضی فائز عیسیٰ وغیرہ اسی عدمِ تحمل کا مظہر ثابت ہوئے۔ انہوں نے پورے سسٹم کو جوتے کی نوک پہ رکھنا چاہا‘ حدود سے تجاوز کیا‘ لیکن انجامِ کار حاصل کچھ بھی نہ ہوا۔ یہی کیفیت اسلام آباد ہائیکورٹ کے بعض جج صاحبان کی رہی۔ ایسی ہی بے اعتدالی کا مظاہرہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اُس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری کے ساتھ مل کر کیا تھا اور اُس کے نتیجے میں 'بصد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم‘ کا مصداق بنے۔ نہ تاریخ میں عزت ملی‘ کیونکہ یہ اُصول پسندی کا نہیں‘ عُجبِ نفس اور جوڑ توڑ کا مسئلہ تھا۔ آج پاکستان کے نامور ترین ججوں کی فہرست میں اُن کا نام کہیں نہیں ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا تاثر بہت اچھا تھا‘ لیکن وہ اتنے مغلوب الغضب ہوئے کہ توازن کھو بیٹھے اور اپنے 'چیمبرکے ساتھی‘ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی بھی رعایت نہ کی۔
دانا لوگوں کا کام دیوار سے ٹکریں مارکر دیوار کو گرانا یا خود کو لہولہان کرنا نہیں ہوتا‘ بلکہ مشکل حالات میں راستہ نکالنا ہوتا ہے۔ نظام کو بھی لے کر چلنا ہوتا ہے اور نظام کی خامیوں کوبھی آہستہ آہستہ دور کرنا ہوتا ہے۔ ضدی مُعانِد کا کردار ادا کرنے کے بجائے مُصلح کا کردار ادا کرنا اعلیٰ عدلیہ کے منصِب کو زیادہ زیب دیتا ہے۔ کیا ٹکریں مار کر نوے دن میں انتخابات کا ہدف حاصل کر لیا تھا‘ کیا تاریخ میں عدلیہ کے اس پورے دور کو سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ کیا بین الاقوامی معاہدات کو عالمی قوانین سے ناواقفیت کی بنیاد پر ردّ کرنے کے نتائج ملک کیلئے مثبت نکلے۔ امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰؓ کی طرف یہ قولِ زرّیں منسوب ہے: ترجمہ: ''اتنے نرم نہ بنو کہ تمہیں نچوڑ دیا جائے اور اتنے خشک بھی نہ بنو کہ تمہیں توڑ دیا جائے‘‘۔ یعنی ایک سلیم الفطرت اور متوازن انسان کے مزاج میں اعتدال ہوتا ہے‘ لچک ہوتی ہے‘ وہ ایک حد تک دبائو بھی قبول کرتا ہے اور ایک حد تک مزاحمت بھی کرتا ہے‘ لیکن معاملے کو بند گلی میں جانے نہیں دیتا۔
رسول اللہﷺ کو نماز میں خشوع وخضوع بے انتہا پسند تھا‘ نماز کی معراج اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی درجے کی حضوری ہے کہ کسی اور طرف ذہن متوجہ ہی نہ ہو۔ مگر آپﷺ اپنے ربّ کی حضوری میں بھی لوگوں کے بشری احوال کی رعایت فرماتے تھے۔ حدیث پاک میں ہے: ''نبیﷺ نے فرمایا: (کبھی) میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لمبی نماز پڑھوں‘ اس دوران میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں‘ تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کہ بچے کا رونا اس کی ماں کو پریشان کر دے گا (اور نماز میں اس کی توجہ بٹ جائے گی)‘‘ (مسند احمد: 12067)۔ الغرض ایک ماں کی قلبی کیفیت کی رعایت فرماتے ہوئے رسول اللہﷺ اپنی شدید خواہش کے باوجودنماز کو مختصر فرمادیتے تھے۔ ''حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میں فجر کی جماعت چھوڑ دیتا ہوں‘ کیونکہ (فلاں) امام ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے‘ پس رسول اللہﷺ اتنے غضبناک ہوئے کہ میں نے کسی اور موقع پر آپ کو اس کیفیت میں نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے فرمایا: لوگو! تم میں سے بعض (لوگوں کودین سے) متنفر کرنے والے ہیں‘ پس جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے‘ وہ اعتدال سے کام لے‘ کیونکہ اس کی اقتدا میں کمزور‘ بوڑھے اور کام کاج پر جانے والے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں‘‘ (بخاری: 704)۔ اس سے پہلی حدیث میں ان کلمات کا اضافہ ہے: ''اور جب تم میں سے کوئی شخص تنہا اپنی نماز پڑھ رہا ہو تو جس قدر چاہے لمبی نماز پڑھے‘‘۔
ایک این جی او کی بیگم کے اُکسانے پر اور اپنی اَناکے سبب اُس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد اتنے مغلوب الغضب ہوئے کہ کراچی میں 'نسلا ٹاور‘ کے مکینوں کو پُرتعیّش فلیٹوں سے اتار کر فٹ پاتھ پر لا کھڑا کیا۔ اُن کے بحیثیتِ مجموعی اربوں روپے ایک انا پرست شخص کی وجہ سے تباہ وبرباد ہو گئے۔ اُن کو اپنے فیصلے میں کوئی تحفظ بھی نہ دیا‘ حالانکہ ایک معقول حل موجود تھا کہ جرمانہ لگا کر ان فلیٹوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت دی جائے۔ اسلام آباد میں ثاقب نثار ایسا کر چکے تھے۔ حکومت کو رقم بھی مل جاتی اور لوگوں کی جمع پونجی بھی تباہ وبرباد نہ ہوتی۔ لیکن اس سنگدل انسان کے دل میں ذرا ترس نہ آیا‘ لوگوں کو رُلا دیا اور وہ رُل گئے۔ وہ آج بھی اُس شخص کو بددعائیں دے رہے ہوں گے اور تین کروڑ کی آبادی والے شہر میں چند ہزار انسان بھی نہیں ہوں گے جو اُن کا نام عزت اور احترام سے لے رہے ہوں۔ آج وہ تاریخ کے ملبے تلے دفن ہو چکے ہیں۔ فرعونی مزاج کا انجام ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔
ہم بحیثیتِ ملک وقوم کبھی بھی مثالی صورتِ حال میں نہیں رہے اور حالاتِ حاضرہ میں تو قطعاً نہیں ہیں۔ چند صاحبِ منصب شخصیات کی ناپسندیدگی کی سزا پورے ملک اور قوم کو دینا ہرگز دانشمندی نہیں ہے۔ دو صوبوں میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں‘ روزانہ کے حساب سے ہمارے فوجی اور عام شہری جان سے ہاتھ دھو رہے‘ شہید ہو رہے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا بھی مُدّعا یہی معلوم ہوتا ہے کہ نظام کتنا ہی برا ہو‘ اُس کی سزا پورے ملک اور قوم کو دینا دانشمندی نہیں۔ ہم من حیث القوم انقلابی ہیں‘ نہ یہاں کوئی انقلابی تحریک چل رہی ہے‘ نہ قوم کا مزاج انقلابی ہے اور نہ انقلابی قیادت یہاں میسر ہے۔ جو کچھ بھی ہمیں حاصل کرنا ہے‘ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے حاصل کرنا ہو گا۔ شاہد خاقان عباسی کے بقول 2018ء کے انتخابات چوری ہوئے اور 2024ء کے انتخابات میں ڈکیتی ہوئی۔ پس کوثر وتسنیم میں دھلا کوئی بھی نہیں ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کبھی بھی آئین میں دی گئی خود مختاری کی حامل نہیں رہی‘ یہی صورتِ حال عدلیہ کی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم پابندیوں میں انتہائی تابع فرمان بن جاتے ہیں اور آزادی کی ہوا چلے تو ساری حدیں عبور کر جاتے ہیں‘ توازن کھو بیٹھتے ہیں اور جمع شدہ پونجی بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ ہم نے 1960ء کے عشرے سے پاکستان کی تاریخ کو دیکھا اور برتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں