رسول اللہﷺ نے ایک لڑائی کے موقع پر سورج ڈھلنے کے بعد صحابۂ کرام کو خطبے میں ارشاد فرمایا: ''لوگو! دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو‘ بلکہ اللہ سے عافیت مانگتے رہو‘ لیکن اگر (قضائے الٰہی سے) دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو صبر کرو (اور ثابت قدم رہو) اور جان لو! جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپﷺ نے یہ دعا فرمائی: اے اللہ! کتاب نازل فرمانے والے‘ بادل چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے‘ (ہمارے دشمن کو) شکست سے دوچار فرما اور ان کے خلاف ہماری نصرت فرما‘‘ (بخاری: 3024)۔ الغرض تعلیماتِ مصطفیﷺ کی روشنی میں جنگ ہماری ترجیح نہیں ہے‘ جنگ میں انسانی جانوں‘ اَملاک اور خطے کی تباہی ہے۔ یہ کوئی شوقیہ مشغلہ نہیں ہے‘ لیکن جب دشمن جنگ مسلّط کر دے تو اپنے دین وملّت‘ وطن‘ جان ومال اور آبرو کی سلامتی کیلئے جنگ کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے اور مؤمن خطرات سے گریز کے بجائے جرأت واستقامت اور عزیمت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نے شرک اور قتلِ ناحق سمیت کبیرہ گناہوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''دشمن سے سامنا ہو جائے تو پھر مجاہد کیلئے پیٹھ پھیر کر دامن بچا لینا گناہِ کبیرہ ہے‘‘ (بخاری: 2766)۔
قرآنِ کریم میں ہے: ''یقینا اللہ تعالیٰ اُن لوگوں سے محبت فرماتا ہے جو (ثابت قدمی کے ساتھ) اُس کی راہ میں یوں صف بستہ جنگ کرتے ہیں کہ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘ (الصف: 4)۔ پس مومن کیلئے جنگ میں پیٹھ پھیرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو! جب کافروں کے لشکر سے تمہارا آمنا سامنا ہو جائے تو اُن سے پیٹھ نہ پھیرو اور جس نے اُس دن اُن کے سامنے پیٹھ پھیری تو وہ اللہ کے غضب کا مستحق بنا اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی برُا ٹھکانا ہے‘ ماسوا اس کے کہ جنگی حکمتِ عملی کے تحت ایسا کرنا پڑے یا (مجاہدین کے کمزور پڑنے والے) کسی گروہ کو کمک پہنچانی ہو‘‘ (الانفال: 16)۔ (2) : ''بیشک اللہ نے مومنوں سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے‘جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں‘ پس (کبھی دشمن کو) قتل کرتے ہیں اور (کبھی) شہید ہو جاتے ہیں‘ یہ تورات‘ انجیل اور قرآن میں اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا اور کون ہے‘ پس جو سودا تم نے اللہ سے کیا ہے‘ اُس پر خوشی منائو اور یہی بڑی کامیابی ہے‘‘ (التوبہ: 111)۔
جنگ کے ضمن میں اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کی متعدد توجیہات ہو سکتی ہیں۔ (الف): ذکرِ الٰہی کبھی زبانِ قال سے ہوتا ہے اور کبھی زبانِ حال سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بیشک زمین وآسمان کی پیدائش اور گردشِ لیل ونہار میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں‘ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اللہ کو اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں کے بل (لیٹے ہوئے ہر حال میں) یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (مستور حکمتوں پر) غور کرتے ہیں (اور بے اختیار پکار اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (کارخانۂ قدرت) بے مقصد نہیں بنایا‘ تو ہر عیب سے پاک ہے‘ پس ہمیں عذابِ جہنم سے بچا‘‘ (آل عمران: 190 تا 191)۔ (ب): یہ کہ بندۂ مومن اپنے تمام وسائل‘ صلاحیتوں اور توانائیوں کو جنگ میں جھونک کر نَخوت اور کِبر وغرور کا شکار نہ ہو‘ اپنی قوت وطاقت اور اپنی حکمت وتدبیر پر ناز نہ کرے‘ بلکہ اللہ پر توکل کرے‘ اُس کی نصرت پر بھروسا کرے اور ہرکامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کے بجائے اُسے اللہ کا فضل قرار دے‘ کیونکہ یہ تمام باتیں کفار کا شیوہ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور اُن لوگوں کی مانند نہ ہو جائو جو اپنے گھروں سے اِتراتے ہوئے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور وہ (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روکتے تھے اور اللہ اُن کے تمام کاموں کا احاطہ فرمانے والا ہے‘‘ (الانفال: 47)۔
پس ہماری مسلح افواج‘ حکومت اور پوری قوم کو بھارت کے مقابل جنگ کی بھرپور تیاری کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور جتنا تمہارے بس میں ہے‘ اُن کے لیے طاقت اور کمر بستہ گھوڑے تیار رکھو‘ جن کے ذریعے تم اللہ اور اپنے دشمنوں کو مرعوب کرو‘‘ (الانفال: 60)۔ اس کی تفسیر میں رسول اللہﷺ نے تین مرتبہ تاکیداً فرمایا: ''سنو! طاقت پھینکنے کی صلاحیت کا نام ہے‘‘ (مسلم: 1917)۔ قرونِ اولیٰ میں پھینکنے کی صلاحیت تیر اندازی میں تھی‘ پھر منجنیق بنی‘ پھر توپیں بنیں اور آج راکٹ اس طاقت کا نام ہے۔ علامہ حافظ خادم حسین رضویؒ نے ایک خطاب میں کہا: ''میں نے ایک ملاقات میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ہاتھ چومے‘ وہ مجھے کہنے لگے: ''یار مذہبی اور سیاسی بڑے بڑے رہنما آئے‘ سب نے مجھ سے ایک ہاتھ سے سلام کیا‘ آپ نے سفید ریش ہوتے ہوئے میرے ہاتھوں کو بوسا کیوں دیا‘‘ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! ''گل وچ ہور اے‘‘ پوچھا کیا بات ہے‘ میں نے کہا: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے تیر (آج کل راکٹ) بنایا‘ وہ بھی جنت میں جائے گا‘ جس نے تیر پکڑایا‘ وہ بھی جنت میں جائے گا‘ جس نے تیر چلایا‘ وہ بھی جنت میں جائے گا‘‘ میں نے کہا: ''جناب! سب سے مؤثر تیر‘ ایٹم بم بنانے والے جنتی آپ ہو‘‘۔ یہ سُن کر ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے: یہ بات تو مجھے کسی نے نہیں بتائی‘ میں نے کہا: یہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے‘اس لیے میں نے آپ کے ہاتھوں کو بوسا دیا۔ پھر انہوں نے میرے ہاتھ پکڑے اور ہاتھ چھوڑ نہیں رہے تھے‘ میں نے کہا: میں نے دل سے آپ کے ہاتھ چومے ہیں‘ آپ نے رسول اللہﷺ کے فرمان پر عمل کیا ہے‘پھر میں نے انہیں الانفال: 60 کا ترجمہ سنایا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العادیات میں قسم کے ساتھ فرمایا: ''اور (میدانِ جہاد میں) ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم‘ جن کے سموں کی رگڑ سے چنگاریاں اٹھتی ہیں‘ جو علی الصبح (دشمنوں پر) حملہ آور ہوتے ہیں‘ جن کی دوڑ سے گَرد اٹھتی ہے اور وہ دشمن کی صفوں میں جا گھستے ہیں‘‘ (العادیات: 1 تا 5)۔ آج کے حتف‘غوری‘ ابدالی‘ ابابیل‘ شاہین‘ الفتح اور طرح طرح کے میزائل‘ پھینکنے کی صلاحیت کی بہترین مثالیں ہیں۔ پس حکومتِ پاکستان‘ مسلّح افواج اور پوری قوم کو چاہیے کہ اپنے تمام وسائل کو بھارت کی جانب سے مسلّط کی جانے والی جنگ کی تیاری پر صَرف کریں۔ ذہنی‘ فکری اور عملی طور پر اپنے آپ کو جنگی حالات کا سامنا کرنے کیلئے ہر لمحے تیار رکھیں‘ اپنے داخلی سیاسی اور جماعتی اختلافات کو سرِ دست بالائے طاق رکھیں‘ کیونکہ ایک قوم کی حیثیت سے ہماری بقا وسلامتی کا مدار پاکستان کے قائم ودائم رہنے پر ہے۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کی بے بہا نعمت ہے‘ اس وقت مسلم ممالک میں پاکستان اور ترکیے دو ایسے ملک ہیں جو کسی بھی مسلّط کی جانے والی جنگ میں اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری تینوں مسلّح افواج فنی اعتبار سے پختہ‘ نیز دینی‘ملّی اور قومی جذبے سے معمور ہیں۔ یہ کسی کے لیے ترنوالہ نہیں ہیں‘ اس لیے تمام تر خواہش اور تیاری کے باوجود بھارت کو بار بار سوچنا پڑتا ہے‘ کیونکہ جنگ ایک ایسی آفت ہے کہ اسے شروع کرنا تو بس میں ہوتا ہے‘ مگر اس کا اختتام اور انجام اپنے بس میں نہیں ہوتا۔
بھارت پاکستان کو اقوامِ عالَم میں تنہا کرنا چاہتا ہے‘ کھیلوں میں بھی اُس کا رویہ یہی ہے‘ وہ پاکستانی معیشت کو جمود وتنزُّل کا شکار بنانا چاہتا ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد سفارتی لحاظ سے تاحال پاکستان کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ امریکہ سمیت تمام اقوام نے دہشت گردی کی مذمت کی ہے اور پاکستان بھی کر چکا ہے‘ لیکن بھارت کی خواہش کے برعکس اقوامِ عالَم نے پاکستان کو اس کا موردِ الزام نہیں ٹھہرایا‘ کیونکہ اپنے دعوے کے حق میں بھارت کوئی قابلِ اعتبار ثبوت وشواہد فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے‘ جبکہ اس کے برعکس پاکستان نے اُس کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بارے میں ثبوت وشواہد پیش کیے ہیں‘ اس لیے بھارت کا مقدمہ کمزور ہے۔
نوٹ: یہ کالم تقریباً ایک ہفتہ پہلے لکھا گیا ہے۔