کہا جاتا ہے: ''دنیا ایک عالمی گائوں میں تبدیل ہو چکی ہے‘‘۔ حکومتوں کا بہت سی چیزوں میں ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے‘ اسی لیے درآمدی اور برآمدی تجارت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کئی ملک تو اس سے بھی آگے نکل چکے ہیں‘ مثلاً: یورپی یونین میں ستائیس ممالک ہیں‘ یہ ممالک اپنی ریاستی اور حکومتی وحدت کو قائم رکھتے ہوئے ایک مشترکہ منڈی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان کے درمیان تجارت اور سفر کیلئے ویزے کی پابندی نہیں ہے‘ کسٹم ڈیوٹی یعنی درآمدی اور برآمدی مال پر محصولات بھی نہیں ہیں۔ 29یورپی ممالک نے ویزے کے اجرا میں اشتراک کر لیا ہے‘ ان ممالک کے ویزے کے درخواست کنندگان کیلئے جانچ پڑتال کا ایک مرکزی نظام قائم کر دیا ہے۔ لہٰذا جب ان 29ممالک میں سے کوئی ایک ملک کسی غیر ملکی کوویزہ جاری کر دے تو اُن 29ممالک میں مزید کسی ویزے کے بغیر وہ آزادانہ سفر کر سکتا ہے‘ ان ممالک کو شنگن ممالک کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے ممالک نے مشترکہ مفادات کیلئے اپنے گروپ بنا رکھے ہیں‘ جیسے عرب لیگ‘ خلیج تعاون کونسل‘ افریقن یونین‘ برکس (ابتدا میں یہ گروپ برازیل‘ روس‘ بھارت‘ چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل تھا‘ بعد میں اس میں مصر‘ ایتھوپیا‘ ایران‘ انڈونیشیا اور عرب امارات بھی شامل ہو گئے)‘ جی سیون (کینیڈا‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ جاپان‘ یو کے اور امریکہ)‘ جی ٹونٹی (ارجنٹائن‘ آسٹریلیا‘ برازیل‘ کینیڈا‘ چین‘ فرانس‘ جرمنی‘ بھارت‘ انڈونیشیا‘ اٹلی‘ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ میکسیکو‘ روس‘ سعودی عرب‘ جنوبی افریقہ‘ ترکیے‘ یو کے اور امریکہ) اور کواڈ گروپ (امریکہ‘ بھارت‘ آسٹریلیا اور جاپان) اوراو آئی سی‘ جس میں تمام مسلم ممالک شامل ہیں‘ اگرچہ یہ اتحاد سفارتی‘ تجارتی اور معاشی میدان میں کوئی مثبت نتائج نہیں دے سکا۔
ایشیا‘ خاص طور پر جنوبی ایشیا کے وسیع تر اتحاد کے فعال ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے۔ آسیان ممالک (برونائی‘ کمبوڈیا‘ انڈونیشیا‘ لوئس‘ ملائیشیا‘ میانمار‘ فلپائن‘ سنگاپور‘ تھائی لینڈ اور ویتنام) پر مشتمل ایک اتحاد بھی موجود ہے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک (افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ انڈیا‘ مالدیپ‘ نیپال‘ پاکستان اور سری لنکا) کا مشترکہ فورم سارک ہے‘ لیکن بھارت نے اپنی نخوت‘ گھمنڈ اور بالاتر علاقائی طاقت ہونے کے زعم میں اسے کبھی فعال نہیں ہونے دیا۔ گردشی نظام کے مطابق اگر اجلاس کی باری پاکستان میں آئی تو بھارت نے بائیکاٹ کی دھمکی دے کر اُسے ناکام بنا دیا۔ اسی طرح پاکستان کو کرکٹ‘ ہاکی اور دیگر کھیلوں سے نکالنے کی کوشش کی‘ ایشیا کرکٹ کونسل کو بھی بے اثر کر دیا ہے۔ پاکستان کی میزبانی میں حالیہ کرکٹ چیمپئن ٹرافی منعقد ہوئی‘ مگر بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا‘ حالانکہ مل جل کر چلنے‘ اپنی کامیابی پر خوشی منانے اور فریقِ مخالف کی کامیابی کو کھلے دل سے تسلیم کرنے اور اُسے نفرت میں نہ بدلنے کا نام ہی تو ''سپورٹس مین سپرٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ مگر بھارت نے سپورٹس مین سپرٹ کے تمام اصولوں کو پامال کر دیا ہے۔ چونکہ کرکٹ ایک کاروبار اور صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی دنیا میں سب سے بڑی مارکیٹ بھارت ہے‘ اس لیے اس نے بلیک میلنگ کے ذریعے ایشین کرکٹ کونسل اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو بھی مفلوج کر رکھا ہے۔
مودی کی سرشت میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ وہ اپنے آپ کو علاقائی ڈان سمجھتا ہے اور اپنے اردگرد دوسری ریاستوں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی دیکھا جائے تو بھارت کا رویہ عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ موجودہ عالمی قوتیں تمام تر اخلاقی معیارات اور اقدار کو پامال کر کے ایک بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے بھارت کی ناز برداری کر رہی ہیں یا بعض صورتوں میں اُس کے آگے بلیک میل ہو رہی ہیں۔ البتہ حالیہ جنگ بندی میں امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے حوالے سے قدرے متوازن رویہ اختیار کیا ہے‘ اگر اُن کا یہ رویہ مستقل ہو تو یہ ایک اچھی علامت ہے۔
پاکستان نے جنگ میں حقائق دنیا کے سامنے رکھے ہیں‘ اپنے نقصانات پر بھی پردہ نہیں ڈالا اور فتوحات کو بھی عیاں کیا ہے‘ جبکہ بھارت میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ چار روزہ جنگ کے حقائق کو تسلیم کرے‘ فضائی جنگ میں اپنے نقصانات اور ہزیمت کا اعتراف کرے۔ اسی لیے بھارت نے میدانِ جنگ میں جیتنے کے بجائے اپنے رسوائے زمانہ ''گودی میڈیا‘‘ کے ذریعے فتح کا تاثر دینے کی کوشش کی‘ لیکن اس میں پہلی بار اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا‘ کیونکہ موجودہ دور میں حقائق کو زیادہ دیر تک چھپانا ممکن نہیں رہا۔ زمین پر رونما ہونے والی کسی بھی جنگ یا وقوعے کو جدید دنیا سیٹلائٹ کیمروں کی آنکھ سے دیکھ لیتی ہے اور جھوٹ کا غبار چھَٹ جاتا ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے حال ہی میں قوم کے نام جو خطاب کیا ہے‘ اُس میں حقائق سے مکمل گریز کیا ہے اور اپنی قوم کو مصنوعی فتح کا تاثر دینے کی کوشش کی ہے‘ لیکن اس کا یہ حربہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ وہ حقیقت کو پوری طرح چھپانے میں ناکام رہا اور اس کے چہرے کے تاثرات اس کے دعووں کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ مودی نے پاکستان پر ''ریاستی دہشت گردی‘‘ کا الزام لگایا ہے‘ حالانکہ اس کا ارتکاب وہ خود کر رہا ہے اور اس پر عالمی شہادتیں موجود ہیں۔ امریکہ‘ کینیڈا اور یورپی ممالک میں بھارتی سکھ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اُن ممالک کی وطنیت اختیار کر چکے ہیں۔ وہ بھارتی پنجاب کو ''خالصتان‘‘ کے نام سے ایک آزاد ریاست بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں‘ اس مقصد کیلئے خالصتان ریاست کے قیام کے حق میں ریفرنڈم کراتے رہتے ہیں۔ اس تحریک کے ایک رہنما کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نِجّرتھے۔ اُن کو 18 ستمبر 2023ء کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں گرونانک گوردوارہ کے پارکنگ لاٹ میں قتل کیا گیا اور اُس وقت کے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بین الاقوامی پریس کے سامنے اس کا الزام بھارتی انٹیلی جنس ''را‘‘ پر لگایا۔ گُرپتوَنت سنگھ پَنّوں امریکہ میں خالصتان اور ''سکھ فار جسٹس‘‘ تحریک کے فعال رہنما ہیں‘ اُسے بھارت نے 2020ء میں دہشت گرد قرار دیا اور فنانشل ٹائمز نے لکھا: نومبر 2023ء میں امریکی اداروں نے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے ایک ناکام منصوبے کا پتا لگایا‘ جس میں گرپتوَنت سنگھ پَنّوں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ وفاقی پراسیکیوٹر نے نیو یارک کی عدالت میں ایک مُہر بند فردِ جرم جمع کر رکھی ہے۔ اخبار نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ امریکہ نے بھارتی حکومت کو اس کے بارے میں باقاعدہ وارننگ دی کہ اس میں وہ ملوث ہے۔ برطانیہ میں 2022ء کی ایک پرانی رپورٹ میں بھارتی چیف آف آرمی سٹاف اور بھارتی وزیر داخلہ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔
بھارتی نیوی کا ایک افسر کلبھوشن یادو جعلی پاسپورٹ کے ساتھ پکڑا گیا‘ وہ ایران کو بیس کیمپ بنا کر پاکستان کے صوبۂ بلوچستان میں جاسوسی نیٹ ورک چلا رہا تھا اور وہ اس کا اعتراف بھی کر چکا ہے۔ یہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ 11 مارچ 2025ء کو بلوچستان میں دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ جعفر ایکسپریس پر حملے کی صورت میں رونما ہوا۔اس میں 26 بے قصور لوگوں کو ہدف بناکر قتل کیا گیا اور کالعدم بی ایل اے نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ بی ایل اے اور بی ایل ایف کو جدید ترین اسلحہ اور دہشت گردی کی تربیت‘ نیز مالی وسائل بھارت فراہم کر رہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جہاں یہ واقعہ رونما ہوا‘ وہاں مقامی موبائل کمپنیوں کے سگنل نہیں تھے‘ لیکن اس کے باوجود چند منٹ میں وہ دہشت گرد بھارتی ٹی وی چینلوں کے ساتھ سیٹلائٹ موبائل کے ذریعے رابطے میں آ گئے اور اُن کے انٹرویوز اور تاثرات نشر کیے جا رہے تھے۔یہ بھارت کی ایجنسی ''را‘‘ کی ریاستی دہشت گردی کا ایک واضح ثبوت ہے‘ اسی طرح ٹی ٹی پی کے روابط بھی بھارت کے ساتھ قائم ہیں۔