"MMC" (space) message & send to 7575

بجٹ

بجٹ سے مراد ایک محدود دورانیے کیلئے‘ جو ہمارے ہاں ہر سال یکم جولائی سے آئندہ سال 30 جون تک محیط ہوتا ہے‘ آمد وخرچ کا تخمینہ لگانا اور گوشوارہ بنانا ہے۔ ہمارے ملک کی حد تک یہ کبھی حقائق پر مشتمل نہیں ہوتا‘ بلکہ اعداد وشمار کا گورکھ دھندا اور بھول بھلیاں ہوتا ہے۔ بجٹ کے سارے تخمینوں میں صرف ایک مَدّ درست ہوتی ہے اور وہ ہے: ملک کے داخلی اور خارجی قرضوں کا مجموعہ‘ جو اس وقت 75 ہزار ارب روپے کے قریب بتایا جاتا ہے۔ بجٹ کے اعداد وشمار کے مفروضوں‘ خواہشات اور اندازوں پر مشتمل ہونے کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ ہر سال آمدن وخرچ کے اعتبار سے بجٹ اپنی حدود کے اندر نہیں رہتا‘ لہٰذا آنے والے سال کا بجٹ منظور کراتے وقت گزشتہ سال کا ضمنی بجٹ بھی منظور کرایا جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آمدنی مقررہ تخمینوں سے کم ہوتی ہے اور اخراجات مقررہ حدود سے بدرجہا زائد ہوتے ہیں اور اگر کوئی ناگہانی صورتِ حال پیش آ جائے‘ جیسے موسمی تبدیلیاں اور حالیہ جنگ‘ تو پھر سارے اعداد وشمار کا تانا بانا بکھر جاتا ہے۔
ایک ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا: ''ہمیں تسلیم ہے کہ ہم اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق نقصان میں جانے والے اداروں کی نجکاری میں ناکام رہے ہیں‘ نیز ہم اپنی حد تک مطمئن ہیں کہ ہمارے تخمینے یعنی اعداد وشمار درست ہیں‘ لیکن اگر کسی فرق کی نشاندہی کرا دی گئی تو ہم اس پر نظرِ ثانی کریں گے‘‘۔ وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کی ایک کامیاب حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ سیاسی اور گروہی خلافیات میں نہیں پڑے اور یکسو ہوکر اپنا کام کر رہے ہیں‘ اس لیے براہِ راست ملامت کا ہدف نہیں بنے‘ یہ ملامت دوسروں کے حصے میں آتی ہے‘ اُن میں سول حکمران اور مقتدرہ دونوں شامل ہیں۔
ملکی معیشت کی حقیقی استعداد کو سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت نے خود اپنے بجٹ تخمینوں میں 6501 ارب روپے کا خسارہ ظاہر کیا ہے‘ لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی‘ ظاہر ہے: اس کیلئے مزید اندرونی اور بیرونی قرضے لیے جائیں گے اور یوں قرضوں کا بوجھ مزید بڑھتا چلا جائے گا‘ جبکہ گزشتہ واجب الادا قرضوں کی اقساط مع سود کی مجموعی ادائیگی 8207 ارب روپے ہو گی۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے تناظر اور مودی کی برپا کی ہوئی جنگی فضا میں دفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اس کا تخمینہ 2550 ارب روپے بتایا گیا ہے۔
ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے: ''میثاقِ معیشت‘‘۔ یعنی ایسے سخت گیر اقدامات جن کی ذمہ داری پارلیمنٹ میں شامل حزبِ اقتدار واختلاف دونوں قبول کریں‘ سب مل کر ان کا دفاع کریں اور قوم کو حقیقتِ حال سے آگاہ کریں۔ قرضوں کے بوجھ کے حوالے سے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک مقروض ہیں‘ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ اُن کی معیشت میں استحکام ہے‘ سالانہ ترقی کی شرح اطمینان بخش ہے‘ درآمدات برآمدات سے کم ہیں‘ یعنی کرنٹ اکائونٹ خسارے کے بجائے مثبت ہے۔ ہمارے ہاں 2024-25ء کیلئے سالانہ ترقی کا جو ہدف رکھا گیا تھا‘ وہ ہم حاصل نہیں کر پائے اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت یا مثبت علامات نہیں کہ ہم آئندہ سال کا ہدف بآسانی حاصل کر لیں گے۔ موجودہ حکومت بجا طور پر اس کا کریڈٹ لے رہی ہے کہ معاشی زوال رک گیا ہے‘ ٹھیرائو آ گیا ہے‘ لیکن ارتقا کے آثار ابھی نہیں ہیں۔
ہمارے وزیراعظم نے بیرونی ممالک کے ریکارڈ دورے کیے ہیں‘ ہر دورے کے اختتام پر اُن ممالک کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی نوید سنائی جاتی ہے‘ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخطوں کی تقاریب کی جھلکیاں بھی دکھائی جاتی ہیں۔ لیکن تصویر کا حقیقی رخ یہ ہے کہ سٹاک ایکسچینج میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔ حکومت اپنے مستقبل کے ٹریژری بل نیلام کر کے اور جامد اثاثوں پر صکوک جاری کر کے جو رقم حاصل کرتی ہے‘ وہ بھی قرض ہی کی صورت ہے۔ نئی صنعتیں اور کارخانے لگنے کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے‘ چونکہ دبئی میں تعمیراتی صنعت عروج پر ہے‘ روس اور یوکرین سے بڑی تعداد میں اہلِ ثروت وہاں منتقل ہو کر جائدادیں خرید رہے ہیں‘ اس لیے ہمارا سرمایہ بھی وہاں منتقل ہو رہا ہے۔سعودی عرب‘ ترکیہ اور آذربائیجان وغیرہ کی سرمایہ کاری کی بشارتیں سنائی جاتی ہیں‘ لیکن برسرِ زمین اس کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ حکومت کے پاس ٹیکس وصول کرنے کا آسان طریقہ بالواسطہ ٹیکس ہیں‘ جن کی زد عام آدمی پر پڑتی ہے‘ مثلاً: پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس وغیرہ‘ کیونکہ اس کی ادائیگی عام صارف کرتا ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ آئی ٹی یعنی موبائل کمپنیوں والے‘ ڈیپارٹمنٹل اور سپر سٹور والے‘ نیز ہوٹل والے اور اس طرح کے دیگر ادارے اپنے صارفین سے جو ٹیکس وصول کرتے ہیں‘ وہ پورا سرکاری خزانے میں جاتا بھی ہے یا نہیں‘ اس کے بارے میں کافی شبہات ہیں‘ نیز بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے براہِ راست ٹیکس کی وصولی نہیں ہو پا رہی‘ بلکہ یہ طبقات مختلف طریقوں سے مزید مراعات بھی لے رہے ہیں۔ حالیہ بجٹ تقریر میں کہا گیا ہے کہ وفاق کے زیرِ اہتمام قبائلی ایجنسیاں جو اب صوبۂ خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکی ہیں اور اضلاع قرار پائے ہیں‘ نیز صوبوں کے زیرِ اہتمام قبائلی علاقے جو اب صوبے میں ضم ہو چکے ہیں‘ اُن کی صنعتوں کو دی گئی ٹیکس کی رعایتیں بتدریج ختم کی جائیں گی۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ٹیکس کی رعایت علاقائی بنیاد پر ہونی ہی نہیں چاہیے‘ کیونکہ ٹیکس امرا پر عائد ہوتے ہیں اور امرا ہرعلاقے میں موجود ہوتے ہیں‘ اس لیے ہر صاحبِ ثروت کو اپنا ٹیکس ادا کرنا چاہیے تاکہ یہ ملک اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور اس کو بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کی پشت پناہی‘ تربیت اور سرمایہ حاصل ہے۔ پوری قوم اور تمام سیاسی جماعتوں کو یکسو ہوکر ملک کو اس وبا سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں جو لوگ ریاست کے خلاف آمادۂ پیکار ہیں‘ انہیں ایک محدود عرصے کیلئے ٹھوس ضمانتیں دے کر آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ریاست وحکومت کے تابع ہونے کا موقع دیا جائے اور جو لوگ اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیار نہ ہوں‘ ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے۔ صوبوں کے معدنی وسائل کیلئے ایک متفقہ پالیسی بنائی جائے اور اسے قانونی تحفظ دیا جائے تاکہ وفاق اور صوبوں کے درمیان بے اعتمادی کی فضا ختم ہو۔
معیشت کیلئے مزید المیہ یہ ہے کہ زرعی پیداوار میں افزائش کے بجائے کمی واقع ہوئی ہے اور یہ ملک کیلئے ایک انتباہی صورتحال ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنی بنیادی ساخت کے اعتبار سے زرعی کہلاتا ہے‘ وہ اشیائے خوراک کیلئے بھی دوسرے ملکوں سے درآمدات کا محتاج ہو تو معاشی استحکام کیسے حاصل ہو گا۔ ہم زرِ مبادلہ کے ایک ایک ڈالر کو ترس رہے ہیں اور بڑی مشکل سے حاصل شدہ زرِ مبادلہ اگر اشیائے خوراک کی درآمد پر خرچ ہو جائے تو صنعتی مشینری کی درآمدات کیلئے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ اس لیے زراعت کیلئے بھی ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سوچ میں نمایاں فرق ہے۔ پیپلز پارٹی چونکہ بنیادی طور پر جاگیرداروں کی جماعت ہے‘ اس لیے اس کا دیہی پس منظر بالکل واضح ہے‘ جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنی قیادت کے اعتبار سے شہری تاجروں اور صنعتکاروں کی جماعت ہے‘ اس لیے اُن کا زاویۂ نظر ذرا مختلف ہے۔ مگر ملک کے بہترین مفاد میں یکسوئی کی ضرورت ہے‘ ملک کو صنعتی اور تجارتی ترقی کے ساتھ ساتھ زرعی ترقی کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اگر کبھی مشکل حالات آ جائیں تو ہم کم ازکم اس قابل تو ہوں کہ اپنی بقائے حیات کیلئے اشیائے خوراک میں کسی بیرونی طاقت کے محتاج نہ ہوں۔ ہم خشک سالی کے دور سے بھی گزر رہے ہیں‘ اس لیے بارانی علاقوں کے کسانوں کی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں