"MMC" (space) message & send to 7575

حقِّ دفاع

بیرونی جارحیت کے مقابلے میں مَمالک‘ افراد اور قوموں کا حقِّ دفاع فطری‘ قانونی اور بنیادی حق ہے۔ اس کی اجازت دیتے ہوئے قرآنِ کریم نے اس کی حکمت کو بھی بیان کیا ہے: ''اور اگر اللہ بعض (فسادی) لوگوں (کے شر) کو بعض (مصلحین) کے ذریعے دفع نہ فرماتا تو زمین ضرور تباہ ہو جاتی‘ لیکن اللہ تمام جہانوں پر فضل فرمانے والا ہے‘‘ (البقرہ: 251)۔ اس لیے اُس نے دنیا میں اعتدال وتوازن قائم کرنے کیلئے بعض انسانوں کو پیدا فرمایا اور اُن کے ذریعے اپنی زمین کو فساد اور مفسدین سے پاک کیا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''اور اگر اللہ بعض لوگوں (کے شر کو) بعض دوسرے (اصلاح پسند) لوگوں کے ذریعے دفع نہ فرماتا تو (مسیحی راہبوں کی) خانقاہیں‘ (یہود ونصاریٰ کے) کلیسا اور (مسلمانوں کی) مسجدیں‘ جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے‘ سب ڈھائے جا چکے ہوتے‘‘ (الحج: 40)۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی حقِ دفاع کو بنیادی اور مقدس فریضہ قرار دیتے ہوئے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے (ظلماً) قتل کیا گیا ہو‘ وہ شہید ہے اور جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے (ظلماً) قتل کیا گیا ہو‘ وہ شہید ہے اور جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے (ظلماً) قتل کیا گیا ہو‘ وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل وعیال کی حفاظت کرتے ہوئے (ظلماً) قتل کیا گیا ہو‘ وہ شہید ہے‘‘ (سنن ترمذی: 1421)۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ نے حقوقِ انسانی کے حوالے سے بنیادی مقدسات میں جان‘ مال اور آبرو کی حرمت کو تحفظ عطا کیا ہے‘‘ (بخاری: 1739)۔
اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 میں بھی رکن ممالک کو اپنے دفاع کا حق دیا ہے۔ اس کا متن درج ذیل ہے:''اس منشور میں کوئی چیز کسی رکن ملک‘ جس پر کسی جارح ملک نے حملہ کیا ہو‘ کے انفرادی یا اجتماعی دفاع کے بنیادی حق کو متاثر نہیں کرے گی تاوقتیکہ سلامتی کونسل نے امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری اقدامات نہ کر لیے ہوں۔ اس حق کے استعمال کے بارے میں رکن ممالک کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو فوری طور پر سلامتی کونسل کو رپورٹ کیا جائے گا اور یہ اقدامات کسی بھی طرح سے سلامتی کونسل کی ذمہ داری اور اختیار کو متاثر نہیں کریں گے کہ وہ بین الاقوامی امن وسلامتی کو برقرار رکھنے یا بحال کرنے کیلئے کسی بھی وقت ضروری کارروائی کرے‘‘۔
الغرض افراد کی جان‘ مال‘ آبرو‘ اہل وعیال کا تحفظ اور ممالک کی خود مختاری اور آزادی کا تحفظ ہمیشہ سے انسانیت کی مسلّمہ‘ متفق علیہ اور مشترکہ اقدار میں شامل رہا ہے‘ بشرطیکہ معاشرے تہذیب وتمدّن اور باہمی حقوق کی پاسداری کے دائرے میں رہ رہے ہوں اور جنگل کا قانون رائج نہ ہو کہ جہاں صرف طاقتور کو تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں اور کمزور ومظلوم افراد اور اقوام کو کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔
موجودہ دور میں مسلّمہ اور متفق علیہ اَقدار کی تعبیر‘ تشریح اور معنویت کو طاقتور اقوام نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے 'جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ کا قانون رائج ہے‘ اَقدار پامال ہو چکی ہیں‘ مُسلَّمات کی تشریحات پر طاقتور اقوام کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے اور انسانیت بے بس ہے‘ اقوامِ متحدہ کا ادارہ عملاً مفلوج ہے‘ سلامتی کونسل پر حقِ تنسیخ رکھنے والی اقوام کا تسلّط ہے اور مظلوم انسانیت اور کمزور ممالک کیلئے عالمی سطح پر داد رسی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ امریکہ اور تمام مغربی ممالک یک زبان ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ دفاع کے معنی تو یہ ہیں کہ کوئی بیرونی جارح قوت حملہ کرے تو جارحیت کا شکار ملک اپنے دفاع کیلئے ہر حد تک جا سکتا ہے‘ مگر اسرائیل کیلئے جارحیت یعنی Offence & Aggression کو دفاع قرار دے دیا گیا ہے۔ کوئی بتائے کہ اسرائیل پر حملہ کس ملک نے کیا ہے‘ حملہ تو اسرائیل نے اپنی سرحد سے دو ہزار کلومیٹر دور جاکر ایران پر کیا ہے‘ یہ دفاع کی کون سی تعریف میں آتا ہے؟ بھگت کبیر نے کہا ہے:رنگی کو نارنگی کہیں‘ بنے دودھ کو کھویا؍ چلتی کو یہ گاڑی کہے‘ دیکھ کبیراؔ رویا۔مالٹے کو اردو میں ''نارنگی‘‘ کہتے ہیں‘ اس کے لفظی معنی ہیں: جس کا کوئی رنگ نہ ہو‘ حالانکہ مالٹے کا پھل رنگین ہوتا ہے‘ اسی طرح جب دودھ کو پکا کر جما لیا جائے تو اُسے اردو میں ''کھویا‘‘ کہتے ہیں اور کھونے کے معنی ہیں: ''ضائع ہونا‘‘۔ حالانکہ اس میں تو دودھ کے جوہر کو محفوظ کر لیا جاتا ہے‘ اسی طرح ہر قسم کی گاڑی چلتی رہتی ہے‘ لیکن اس کا نام ''گاڑی‘‘ رکھا ہوا ہے‘ حالانکہ گاڑنا کے معنی ہیں: ''کسی چیز کو کسی مقام پر نصب کر دینا‘‘۔ الغرض بھگت کبیر کہتا ہے: اس معنوی تضاد پر مجھے رونا آتا ہے۔ تحریکِ آزادی کے رہنما اور مشہور شاعر حسرت موہانی نے بھی یہی بات کہی ہے:خِرَد کا نام جُنوں پڑ گیا‘ جنوں کا خرد؍جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ خِرد کے معنی ہیں: ''عقل ودانش‘‘۔ انگریزوں کے زمانے میں جن لوگوں نے آزادیِ وطن کیلئے آواز بلند کی‘ تحریکِ آزادی میں حصہ لیا‘ آزادی کی جنگ لڑی‘ وہ غدار کہلائے اور جنگ آزادی کا نام انگریزوں نے'' غَدَر‘‘ یعنی بغاوت وسرکشی رکھا اور جو اُن کی غلامی میں خوش تھے‘ وہ آزاد منِش کہلائے۔ یہ بات آفتابِ نصف النّہار کی طرح روشن ہے کہ اسرائیل کا اِقدام جارحیت ہے اور جارحیت کے شکار ملک ایران کی جوابی کارروائی ہر اعتبار سے دفاع ہے۔ اسرائیل اگر این پی ٹی یعنی جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط نہ کرے تو اُسے اس کا حق حاصل ہے‘ لیکن اگر ایران یا کوئی اور ملک نہ کرے تو وہ جوہری پھیلائو کا مجرم قرار پاتا ہے۔ جب سے فساد فی الارض اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہوا ہے‘ یہی تضاد یہاں بھی جاری ہے۔ دہشت گرد آئے روز بے قصور انسانوں کو قتل کرتے ہیں‘ خود کش حملے کرکے درجنوں اور بعض صورتوں میں سینکڑوں افراد کی جان لے لیتے ہیں‘ بم دھماکے کرتے ہیں‘ اپنے اَہداف پر بم نصب کرکے دور بیٹھ کر برقی نظام سے اُسے دھماکے سے اڑا دیتے ہیں‘ اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں‘ بسوں سے اتار کر اور شناختی کارڈ چیک کرکے بے قصور لوگ قتل کر دیے جاتے ہیں تو ایسے دہشت گردوں‘ مفسدین‘ تخریب کاروں اور قاتلوں کے جنازے اس طرح پڑھے جاتے ہیں‘ جیسے کوئی بطلِ جلیل ہو اور اس نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔
ہم تو کہتے ہیں: اگر کوئی قاتل پکڑا بھی جائے اور تمام ثبوت وشواہد بھی مل جائیں اور عدالت سے سزائے موت صادر ہونے کی صورت میں اُسے سولی بھی چڑھا دیا جائے تو انصاف کا حق ادا نہیں ہوتا۔ کوئی مجرم کسی پارسا شخص‘ صاحبِ علم‘ صاحبِ تقویٰ یا زندگی کے کسی شعبے میں انسانیت کو فیض پہنچانے والے فرد کو قتل کر دے تو کیا دونوں کی حیثیت ایک ہے؟ اسی طرح اگر کوئی دہشت گرد بم دھماکا کر کے سو پچاس آدمیوں کی جان لے لے‘ تو اس کی ایک جان سو جانوں کا بدل ہو سکتی ہے؟ پس حقیقی انصاف تو آخرت میں ہو گا کہ جہنم میں ہر پل وہ جیے گا اور مرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''بے شک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا‘ ہم عنقریب انہیں جہنم میں جھونک دیں گے‘ جب اُن کی کھالیں (نارِ جہنم میں) خوب جل جائیں گی‘ تو ہم اُن کی کھالوں کو دوسری کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں‘ بے شک اللہ بہت غالب حکمت والا ہے‘‘ (النسآء: 56)۔ یہاں قرآنِ کریم نے جسم کے دوسرے حصوں کے بجائے خاص طور پر جلد کا ذکر کیا ہے‘ کیونکہ جِلد بہت حساس ہوتی ہے۔
الغرض قرآنِ کریم نے فساد فی الارض کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مکرمﷺ سے جنگ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: ''جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں‘ اُن کی سزا یہ ہے کہ انہیں چُن چُن کر قتل کیا جائے یا انہیں سولی پر چڑھایا جائے یا مخالف سَمت سے اُن کے ہاتھ اور پائوں کاٹ دیے جائیں یا انہیں زمین سے اٹھا دیا جائے‘ یہ اُن کی دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کیلئے بڑا عذاب ہے‘ ماسوا اُن لوگوں کے کہ جو تمہارے اُن پر قابو پانے سے پہلے وہ توبہ کر لیں (یعنی ہتھیار ڈال دیں)‘‘ (المائدہ: 33)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں