ہمارا میڈیا کافی حد تک ''انگریزی زدہ‘‘ ہو چکا ہے‘ نشریات میں بیس سے تیس فیصد تک الفاظ انگریزی کے بولے جاتے ہیں۔ اچانک کوئی انتہائی اہم خبر آ جائے تو جاری پروگرام کو روک کر ''بریکنگ نیوز‘‘ کی جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں‘ اسے فلیش کرنا بھی کہتے ہیں۔ اس سے بتانا مقصود ہوتا ہے کہ خبر کی اہمیت کے پیشِ نظر پہلے سے جاری پروگرام کے تسلسل کو موقوف کیا جا رہا ہے یا توڑا جا رہا ہے۔ کبھی ٹِکر چلتے ہیں۔ خبر نامے کے شروع میں جو اہم خبروں کی جھلکیاں ہوتی ہیں‘ انہیں ہیڈ لائنز کہا جاتا ہے۔ یہ سب انگریزی الفاظ ہیں۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن کا عربی چینل بریکنگ نیوز کے بجائے ''عاجِل‘‘ کا کلمہ استعمال کرتا ہے‘ اس کے معنی ہیں: ''فوری توجہ کی حامل خبر‘‘ اور یہ درست ہے۔ وقت ٹی وی جب آیا تھا تو وہ بھی ''فوری خبر‘‘ کی جھلکی دکھاتا تھا۔ کاش کہ ہمارا میڈیا بھی اردوالفاظ استعمال کرے‘ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔
یہ سطور 19جون کی صبح لکھی جا رہی ہیں‘ کالم ہفتے کو چھپے گا۔ جب ممالک کے درمیان جنگ جاری ہو یا حالتِ جنگ ہو اور عالمی پالیسیوں کو طاقت کے بل پر کنٹرول کرنے والی حکومتیں کسی ایک فریق کی پشت پر ہوں تو پل پل میں حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ابھی کوئی قلمکار یا تجزیہ کار اپنا مؤقف بتاتا یا نشر کرتا ہے‘ تو اگلے ہی لمحے صورتِ حال بدل جاتی ہے اور یہ سب کچھ قصۂ پارینہ بن چکا ہوتا ہے۔ لیکن کارخانۂ قدرت تو چلتا رہتا ہے‘ وہ کُلّی طور پر اسباب کے تابع نہیں‘ بلکہ ذاتِ مُسَبِّبُ الْاَسباب کی مشیت کے تابع ہوتا ہے۔ 18جون سے پہلے ٹرمپ کے تاثرات ایران کے بارے میں انتہائی سخت تھے‘ وہ کہتے تھے: ''ایران نے ہمارے کہنے کے مطابق معاہدہ نہیں کیا‘ اس نے موقع کھو دیا ہے‘ اب وہ مذاکرات کیلئے تیار ہے‘ لیکن وقت نکل چکا ہے‘ ہمیں معلوم ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کہاں ہے‘ ہم جب چاہیں‘اسے نشانہ بنا سکتے ہیں‘ میں آخری اقدام کیا کروں گا اور کب کروں گا‘ یہ مجھے بھی نہیں معلوم‘‘۔ یعنی یہ ابھی سربستہ رازہے‘ حالانکہ یہ کھلا راز ہے۔ میرتقی میر نے کہا ہے:
پتا پتا‘ بوٹا بوٹا‘ حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے
ٹرمپ کہتے تھے: ''ہم ایران کو جوہری ہتھیار نہیں بنانے دیں گے‘ وہ جوہری ہتھیار بنانے سے چند ہفتوں کے فاصلے پر ہے‘‘۔ حالانکہ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر تلسی گبارڈ نے کہا تھا: ''ایران کے پاس جوہری بم ہیں‘ نہ وہ فی الوقت جوہری بم بنا رہا ہے اور نہ اُس کے پاس فوری طور پر جوہری بم بنانے کی صلاحیت ہے‘‘۔ ٹرمپ نے کہا تھا: ''ہم معاہدے کے قریب تھے کہ ایران کے پیچھے ہٹ جانے سے میری 60 دن کی ڈیڈلائن ختم ہو گئی‘‘۔ ایران پر اسرائیلی حملے کی بابت ٹرمپ نے کہا تھا: ''ہم اس جنگ میں شامل نہیں ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہمارے پاس ایران کی جوہری صلاحیت کو ختم کرنے کی طاقت موجود ہے‘ اور ظاہر ہے وہ ایم او پی نامی ہتھیار ہے‘ اسے بنکر بسٹر کہتے ہیں۔ یہ 30 ہزار پائونڈ تک کا بم ہے جو زیر زمیں کئی سو فٹ اندر جاکر سب کچھ برباد کر سکتا ہے‘ اسے بی ٹو سپرٹ سٹیلتھ بمبارطیارے کے ذریعے ہدف پر پھینکا جاتا ہے‘ تاحال دستیاب معلومات کے مطابق یہ صلاحیت صرف امریکہ کے پاس ہے‘ اس کے پاس ایم او پی نامی ہتھیار ہے‘ جو GBU-57A/B کہلاتا ہے‘ بعض بم کم طاقت کے حامل ہیں‘ جو اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئے۔
18 جون کو فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو باقاعدہ وائٹ ہائوس میں مدعو کیا گیا‘ کیبنٹ روم میں ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا‘ صدر ٹرمپ سے اُن کی ملاقات کم وبیش دو گھنٹے تک محیط رہی‘ یہ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے بلاشبہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ اگرچہ کوئی مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی اور نہ بظاہر کوئی فوٹو سیشن ہوا‘ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اجلاس اور لنچ کے بعد اپنے ہوٹل روانہ ہو گئے اور یہ بہترین حکمتِ عملی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اس ملاقات پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: ''یہ ملاقات اُن کیلئے ایک اعزاز تھی۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا شکریہ ادا کیا کہ وہ جنگ کی طرف نہیں گئے اور پاک بھارت جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا‘‘۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا: ''پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے پر بات چیت جاری ہے اور وہ پاکستان کو بہت پسند کرتے ہیں‘ پاکستانی بہت اچھے لوگ ہیں‘‘۔ انہوں نے ایران اسرائیل تنازع کے تناظر میں پاکستان کے بارے میں کہا: ''پاکستان شاید ایران کو بہتر سمجھتا ہے‘‘۔ الغرض ملاقات کو انتہائی خوشگوار قرار دیتے ہوئے ٹرمپ نے فیلڈ مارشل کی پاکستان کیلئے لگن اور عزم کی تعریف کی۔
بعض اطلاعات کے مطابق فیلڈ مارشل اور امریکی سلامتی کمیٹی سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ کے لب ولہجے میں قدرے تبدیلی آئی ہے‘ وہ کہتے ہیں: ایران سے اب بھی بات ہو سکتی ہے‘ حالانکہ ایک دو دن پہلے وہ اس امکان کو ردّ کر رہے تھے۔ میڈیا سے معلوم ہوا: 18جون کو ایران سے کم از کم دو سول جہاز عمان کے شہر مسقط گئے ہیں‘ اس سے یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ کے اشتراک سے کسی نہ کسی نوعیت کے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں۔ فرانس ایران کے رہبرِ اعظم علی خامنہ ای کو ہدف بنانے اور حکومتی تبدیلی کی مخالفت کر رہا ہے‘ اُن کے بقول اندیشہ ہے کہ اس سے ایران میں قیادت کا بحران پیدا ہو گا‘ ملک کو سیاسی طور پر کنٹرول کرنے کیلئے کوئی قیادت موجود نہیں ہوگی‘ ملک انارکی‘ فساد اور لاقانونیت کا شکار ہو جائے گا اور یہ صورتِ حال پورے خطے کیلئے تباہ کن ہو گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھی صدر ٹرمپ سے اپنی ملاقات میں کوئی دانش مندانہ مشورے دیے ہوں اور انہیں یہ باور کرایا ہو کہ محض طاقت کے استعمال سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ بھی ہو سکتا ہے‘ اس لیے بہتر ہے کہ مسئلے کے حل کیلئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے اور شاید ایران نے بعض عرب ممالک کے ذریعے بالواسطہ اس کی پیشکش بھی کی ہے۔ دوسری جانب بی بی سی ایسے شواہد کی نشاندہی کر رہا ہے کہ امریکہ ایران کے بڑے ایٹمی تحقیقاتی مرکز فردو کو بی ٹو بمبار طیاروں سے نشانہ بنا سکتا ہے۔
ہمارے نوجوان علما سوشل میڈیا سے تو کھیلتے رہتے ہیں‘ فیما بین المَسلک اور فیما بین المسالک خلافیات اُن کا پسندیدہ موضوع ہوتا ہے۔ لیکن جدید دور کے ایک عالم کو عالمی مسائل اور اپنے گرد وپیش خطے کے بدلتے ہوئے حالات اور اُن کے محرّکات وعوامل کو جاننے کا شوق ہوتا ہے نہ اس حوالے سے اپنی تشنگی بجھانے اور کم علمی پر قابو پانے کا جذبہ اُن کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اس لیے میں اپنی بساط کی حد تک معلومات جمع کر کے اُن کو حالاتِ حاضرہ سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہوں‘ اپنے تجزیات اور نتائج بھی کسی حد تک لکھتا رہتا ہوں۔ نوجوان علما کو مسلکی اور فیما بین المسالک خلافیات کی سطح سے بلند ہو کر امت وملّت کے مسائل کو جاننے اور سمجھنے کی خواہش نہیں ہوتی اور یہ میرے نزدیک اچھی بات نہیں ہے۔ ہمارے ہر نوجوان عالم کو حالاتِ حاضرہ کا ادراک ہونا چاہیے‘ اس کے بغیر ہم اسلام کے احکام کو نہ حالات پر صحیح طور پر منطبق کر سکتے ہیں اور نہ صحیح نتائج اَخذ کر سکتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا: ''لوگوں سے اُن کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرو‘‘۔ مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ میں یہ ملکہ ہو کہ اپنے مخاطَبین کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات کو نہ صرف سمجھ سکیں‘ بلکہ اُن کے تشفی بخش جوابات بھی دے سکیں۔ میں ان شاء اللہ تعالیٰ کوشش کروں گا کہ انقلابِ ایران کے بعد اُن کی حکمتِ عملی کے مثبت اور منفی پہلو قلمبند کروں اور یہ کہ اُن کی حکمتِ عملی ان کے ملک‘ عوام اور امتِ مسلمہ کے حق میں مفید رہی یا منفی نتائج کی حامل رہی‘ ان کے اہلِ نظر کو بھی جامع تجزیے کی ضرورت ہے۔