''خوفِ فسادِ خَلق‘‘ سے موجودہ دور میں پورا سچ بولنا انتہائی دشوار ہے۔ پروفیسر حفیظ تائب نے کہا تھا: سچ مرے دور میں‘ جرم ہے‘ عیب ہے؍ جھوٹ فنِّ عظیم آج لاریب ہے؍ ایک اعزاز ہے‘جہل وبے رہ روی؍ ایک آزار ہے‘ آگہی یا نبی!
لیکن جھوٹ کی زندگی مختصر ہوتی ہے اور انجامِ کار قرار ودوام سچ ہی کو ملتا ہے۔ ہمارے ہاں کئی طرح کے لوگ ہیں: ایک بزعمِ خویش انتہائی جری‘ بہادر‘ مجاہد‘ جذبۂ اخوتِ اسلامی اور قوتِ اظہار سے معمور ہیں۔ غزہ‘ فلسطین اور ایران کے حق میں ایکس اور وَٹس ایپ پر بلاناغہ دوچار پیغام جاری کرتے ہیں‘ کچھ تصویریں اور پوسٹیں ڈالتے ہیں اور وقت کے حکمرانوں‘ علماء و مشایخ‘ سیاسی رہنمائوں اور عام مسلمانوں کو اپنی ملامت اور طَعن وتَشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان پوسٹوں سے کتنے اسرائیلی ہلاک ہوتے ہیں‘ اس کے اعداد وشمار ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ہاں! اگر کسی متمول فرد یا فلاحی تنظیم نے غزہ کے مظلوموں کیلئے برسرِ زمین اشیائے خوراک‘ طبی امداد اور فلاح کے کوئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں‘ تو بلاشبہ وہ حد درجہ قابلِ تحسین ہیں۔
مگر سچ یہ ہے کہ امت بے بس ہے اور عملاً کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسرائیل کے اردگرد اور قرب وجوار میں جو عرب ممالک ہیں‘ انہیں اپنی بقا کی فکر لاحق ہے۔امریکہ کے فوجی اڈے اُن کی سرزمین پر ہیں اور اُن کی فضائیں اسرائیلی اور امریکی جنگی جہازوں کیلئے کھلی ہیں۔ لیکن وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ امریکہ اور یورپ کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں۔ ٹرمپ نے تو اپنے گزشتہ دور میں عَلانیہ طور پر کہا تھا: ''اگر ہم اپنا دستِ شفقت اٹھا لیں تو سعودی سلطنت ایک ہفتے بھی قائم نہیں رہ سکتی‘‘۔ ہم نے سکول کے زمانے میں انگریزی کی ایک نظم پڑھی تھی: ایک شخص اس امر کی تلاش میں تھا کہ آیا دنیا میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو ہر غم سے آزاد ہو‘ طویل جستجو اور بڑی تگ ودوکے بعد اُسے دریا کے کنارے سبزے پر لیٹا ایک شخص ملا‘ اُس نے اُس سے پوچھا: تمہیں دنیا کا کوئی غم لاحق ہے‘ اس نے کہا: مجھے کوئی غم لاحق نہیں ہے‘ لیکن پھر اُس نے دیکھا کہ وہ تو غمِ لباس سے بھی آزاد ہے۔ الغرض روٹی‘ کپڑا اور مکان تو سب کو چاہیے‘ مگر جنکی عشرتوں کی کوئی انتہا نہ ہو‘ اُن کے چھن جانے کی فکر انہیں کس قدر لاحق ہو گی‘ ہمارے سوشل میڈیا مجاہدین کو شاید اس کا اندازہ نہیں ہے‘ جبکہ وہ خود بھی ان عشرتوں میں اپنا حصہ پا رہے ہیں‘ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے اپنا سب کچھ تَج کر غزہ کے مظلوموں کی نذر کر دیا ہو اور خود فٹ پاتھ پہ آبیٹھے ہوں۔جہاں تک پاکستان‘ ترکیہ یا ایران کا تعلق ہے‘ وہ بھی اگر چاہیں تومشکل وقت میں ایک دوسرے کی سیاسی اور سفارتی حمایت کر سکتے ہیں‘ اخلاقی تائید کر سکتے ہیں‘ جارح دشمن کی مذمت کر سکتے ہیں‘ اس سے آگے کی سوچنا دیوانے کا خواب ہے۔ فانی بدایونی نے کہا تھا: ''اک مُعَمّہ ہے سمجھنے کا‘ نہ سمجھانے کا؍ زندگی کاہے کو ہے‘ خواب ہے دیوانے کا‘‘۔
پاکستان ہی کو لے لیجیے! ہمیں آبادی‘ رقبے‘ مالی استعداد‘ فوجی قوت اور حربی سازو سامان کے اعتبار سے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کا سامنا ہے۔ چار روزہ جنگ کے بعد جنگ بندی تو ہو گئی ہے‘ لیکن بھارتی وزیراعظم کا کہنا ہے: ''یہ جنگ بندی محض وقفہ ہے‘ ہمارا آپریشن سندور ابھی جاری ہے اور اُسے منطقی انجام تک پہنچانا ہے‘‘۔ ذرا سوچیے! ایسے میں ہم ایک لمحے کیلئے بھی اپنی توجہات کو اپنے حقیقی دشمن سے ہٹاکر کسی اور جانب مبذول کر سکتے ہیں‘ کیا ہم اپنے عہد کی '' قوتِ عُظمیٰ‘‘ ہیں؟ اسی پر ترکیہ کو قیاس کر لیجیے کہ مسلم ممالک میں اُس کے پاس بھی مُعتَد بہ فوجی اور دفاعی قوت موجود ہے۔ لیکن کیا اُس کی بھی پہلی ترجیح صرف اپنا وطن نہیں ہوگا؟
میں کبھی سوچتا رہتا ہوں: اگر تھوڑی دیر کیلئے ہم آنکھیں بند کر کے کھولیں اور اچانک سامنے منظر یہ نظر آئے کہ ملک کا کوئی سیاسی مذہبی رہنما تختِ اقتدار پر متمکن ہے اور ذمہ داری اُن کے کندھوں پر آ پڑی ہے۔ پس جب موجودہ حالات میں قومی وملکی وسائل‘ معاشی مشکلات اور تحدیدات اُن کے سامنے آئیں گی تو اُن کی اولین ترجیح کیا ہو گی۔ بعض جذباتی مجاہدین عوامی خطابات میں بلاترد کہہ دیتے ہیں: ''یہ ایٹم بم ہم نے کس لیے بنایا ہے‘ کیا یہ کھلونا ہے‘ اسے ہم کب استعمال کریں گے‘‘ گویا بٹن دبائیے اور چاروں طرف آگ اور خون کا طوفان برپا کیجیے۔ ذرا سوچیے! کیا وہ ملک ایٹم بم چلا سکتا ہے‘ جو اپنے وسائل سے سال چھ ماہ بھی اپنے نظام کو نہ چلا سکتا ہو۔ اگر کسی میں سمجھنے کی صلاحیت ہے تو رواں سال اور آئندہ سال کی آمد وخرچ کا گوشوارہ دیکھ لیجیے۔ کیا مزید قرض لیے بغیر ہم اپنے ملک کو چلانے کی پوزیشن میں ہیں۔ کیا یہ حقیقت آپ کے علم میں نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جب چاہتے ہیں کسی ملک پر پابندیاں عائد کر دیتے ہیں‘ اُس ملک کی درآمدات وبرآمدات رک جاتی ہیں‘ اس کے اثاثے ضبط ہو جاتے ہیں‘ کیا ان کو ناراض کر کے ہمارے برادر مسلم ممالک ہمیں تیل اور گیس کی ترسیل جاری رکھ سکیں گے۔ ہماری مالی حالت یہ ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں سہارے (Back up) کیلئے سعودی عرب کے تین ارب‘ متحدہ عرب امارات کے ایک ارب اور چین کے چار ارب ڈالر یعنی مجموعی طور پر آٹھ ارب ڈالر جمع ہیں اور یہ استعمال کیلئے نہیں ہیں‘ بلکہ ہنگامی صورتِ حال میں زرِ مبادلہ کی تقویت کیلئے ہیں۔ جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں اس اعانتی رقم سمیت حکومتِ پاکستان کا مجموعی زرِ مبادلہ گیارہ ارب ڈالر ہے اور تقریباً چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ پرائیویٹ بینکوں میں عوام کے جمع ہیں‘ پس آپ کی مالی استعداد کی پوزیشن اور حقیقت پسندانہ جائزہ یہی ہے۔ باقی ہمارے بہادر‘ جری‘ سورما اور قوتِ ایمانی سے معمور سوشل میڈیا مجاہدین کا حق ہے‘ وہ جسے چاہیں منافق کہیں‘ غدار کہیں‘ بزدل کہیں‘ کسی کا غلام کہیں۔ آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں‘ کیونکہ آپ آزاد ہیں۔
اگر ہم تخیّلات کی دنیا میں جینا چاہیں تو یہ خواہش کر سکتے ہیں کہ سعودی عرب‘ کویت‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور عمان وغیرہ ہمارے 75ہزار ارب روپے پر مشتمل تمام داخلی اور بیرونی قرضے ادا کر دیں اور سو‘ دو سو ارب ڈالر ہمارے سٹیٹ بینک میں تبرّع کے طور پر جمع کر دیں تو یہ اُن کیلئے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں‘ لیکن کیا آپ یہ توقع رکھ سکتے ہیں۔
سطورِ بالا ہم نے آپ کو ڈرانے کیلئے نہیں‘ بلکہ آنکھیں کھولنے کیلئے لکھی ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا: ''کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ‘‘۔ آپ علامہ اقبال کے اِن اشعار کا مصداق نہیں ہیں:
''سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے؍ دیکھیں گے تجھے دُور سے گردُوں کے ستارے؍ ناپید ترے بحرِ تخیُّل کے کنارے ٭خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں؍ آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہُنر میں؍ جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں؍ جنّت تری پنہاں ہے ترے خُونِ جگر میں؍ اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ‘‘ بلکہ ہم اُن کے اِن اشعار کا مصداق ہیں: ''تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی؍ کہ تو گفتار‘ وہ کردار‘ تو ثابت‘ وہ سیارہ؍ حکومت کا تو کیا روناکہ وہ اک عارضی شئے تھی؍ نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارہ؍ مگر وہ عِلم کے موتی‘ کتابیں اپنے آبا کی؍ جو دیکھیں اُن کو یورپ میں‘ تو دل ہوتا ہے سِیپارہ‘‘۔
الغرض دنیا کے ''آئینِ مُسلَّم‘‘ پر اپنے آپ کو ثابت کرنا ہوگا‘ خود ساختہ خواہشیں‘ مفروضے اور بلند بانگ دعوے کسی کام نہیں آتے۔ ایسے میں پاکستان کا برتر پوزیشن میں بھارت کے مقابلے میں استقامت کے ساتھ کھڑے رہنا مقامِ افتخار ہے اور ایران کا امریکہ اسرائیل کے آگے سِپر انداز نہ ہونا بھی بڑی کامیابی ہے۔ امریکہ واسرائیل کی کامیابی کی مقدار اور نوعیت تاحال پردۂ غیب میں ہے‘ دستیاب معلومات میں تضاد ہے‘ ایسے میں ایرانی قیادت کا اپنے عوام کے سامنے فتح کا اعلان سمجھ میں آتا ہے‘ کیونکہ عوام کا اپنی قیادت اور وطن پر اعتماد قائم رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے۔