"MMC" (space) message & send to 7575

چند سبق آموز احادیث …(حصہ ہشتم)

نوٹ: سبق آموز احادیث کی سات قسطیں شائع ہو چکی ہیں‘ یہ آٹھویں ہے اور وقتاً فوقتاً یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ایسا وقت آنے والا ہے کہ دوسری امتیں باہم مل کر تم پر یلغار کریں گی‘ جیسے (بھوکے) کھانے کے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘ سائل نے پوچھا: (یا رسول اللہﷺ!)کیا اُس وقت مسلمان تعداد میں کم ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ( نہیں!) بلکہ اُس وقت تم تعداد میں زیادہ ہو گے‘ لیکن سیلاب کے جھاگ کی طرح بے اثر ہو جائو گے اور اللہ تعالیٰ دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب ودبدبہ نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ''وَھْن‘‘ ڈال دے گا۔ سائل نے پوچھا: (یا رسول اللہﷺ!) یہ ''وَھن‘‘ کیا چیز ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا خوف‘‘ (ابودائود: 4297)۔ اس حدیث میں دو اخلاقی اور نفسیاتی بیماریوں کا ذکر ہے: ''ایک دنیا کی محبت اور دوسری موت کا خوف‘‘۔ انہی بیماریوں نے پچھلی امتوں کو تباہ وبرباد کیا اور آج ہم بھی ان میں مبتلا ہیں۔ پس قرآنِ کریم نے بتایا کہ ایک طرف یہود ونصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں‘ اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ موت کی آرزو کرتے تاکہ جلد جنت میں اپنی منزل کو پا لیں‘ لیکن موت سے اُن کے خوف کو قرآنِ کریم نے جابجا نہایت وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ رسول اللہﷺ نے یہ بھی بتایا کہ اس امت میں بھی آہستہ آہستہ پچھلی امتوں کی اعتقادی‘ اخلاقی اور نفسیاتی کمزوریاں سرایت کر جائیں گی۔ حدیث مبارک میں ہے: ''حضرت ابوسعیدؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: تم ضرور اپنے سے پہلی امتوں کی پوری طرح پیروی کرو گے‘ بالشت برابر اور ہاتھ برابر حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ضروراُس میں داخل ہو گے‘ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! (کیا آپ کی مراد) یہود ونصاریٰ ہیں‘ آپﷺ نے فرمایا: اور کون‘‘ (بخاری: 3456)۔ اہلِ فلسطین کو مسلمانوں نے جس طرح اسرائیل اور ان کے پشتیبان امریکہ اور اہلِ مغرب کے رحم وکرم پر چھوڑا ہے‘ اُس سے فرمانِ رسالت مآبﷺ کی حقانیت واضح ہو جاتی ہے۔
قرآنِ کریم نے یہود کا بھی یہی تضاد بتایا ہے‘ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے یہود کی خوش فہمی کو بیان کیا: ''اور یہود ونصاریٰ نے کہا: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں (اے رسولِ مکرم!) کہہ دیجیے: (اگر تمہارا دعویٰ درست ہے تو) پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دے گا‘ بلکہ تم اللہ کی مخلوق میں سے بشر ہو‘ جنہیں اللہ نے پیدا کیا ہے‘ وہ جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا‘‘ (المائدہ: 18)۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہود ونصاریٰ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں‘ بلکہ یہ علیٰ سبیل البدلیّت (Alternatively) ہے‘ یعنی یہودیوں کی یہ خوش فہمی تھی کہ جنت صرف اُن کیلئے ہے اور نصاریٰ کی خوش فہمی یہ تھی کہ صرف اُن کیلئے ہے۔ ان دونوں کی اسی خوش فہمی کو دوسرے مقام پر بھی قرآنِ کریم نے بیان کیا ہے: ''اور اہلِ کتاب نے کہا: جنت میں صرف یہودی یا نصرانی جائیں گے‘ یہ اُن کی من پسند آرزوئیں ہیں‘ آپ کہہ دیجیے: اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو دلیل پیش کرو‘‘ (البقرہ: 111)۔ قرآنِ کریم نے یہود کی اس خوش فہمی اور زعمِ باطل کا جابجا ردّ کیا ہے اور عقلِ سلیم کو مُنصِف بنایا ہے کہ اگر واقعی کسی کا اس بات پر یقین ہے کہ جنت صرف اس کیلئے ہے تو پھر اسے اسکے حصول میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جنت اور اسکے درمیان صرف زندگی حائل ہے تو اسے موت کی تمنا کرنی چاہیے۔
حدیث پاک میں ہے: ''حضرت جابرؓ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: غزوۂ اُحد میں (ایک مجاہد سَستانے اور توانائی حاصل کرنے کیلئے میدان سے آیا اور کچھ کھجوریں ہاتھ میں لے کر کھانے لگا‘ اس دوران اُس نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: (یا رسول اللہﷺ!) آپ بتائیے! اگر میں ابھی لڑتے لڑتے شہید ہو جائوں تو میرا ٹھکانا کہاں ہوگا‘ آپﷺ نے فرمایا: جنت میں‘ (صحابہ کو رسول اللہﷺ کی بشارت پر اس قدر پختہ یقین تھا کہ) اُس نے اپنے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں‘ رکھ دیں (اور میدانِ جنگ میں کود پڑا)‘ پھر لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہو گیا‘ (بخاری:4046)۔ لیکن اصحابِ رسول کا اعتقاد خوش گمانیوں اور پُرفریب آرزوئوں پر مبنی نہیں تھا بلکہ وہ یقینِ کامل کے حامل تھے۔ انہیں رسول اللہﷺ کی زبانِ مبارک پرکامل یقین تھا‘ اس لیے انہیں اپنی اعلیٰ منزل کو پانے کیلئے اتنی تاخیر بھی گوارا نہ ہوئی کہ چند کھجوریں کھا لیں۔ وہ میدانِ جنگ میں کودے‘ موت کو گلے لگایا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ قرآنِ کریم نے یہود ونصاریٰ کو اسی آزمائش کیلئے پکارا اور للکارا‘ لیکن ظاہر ہے کہ انکے محض دعوے تھے‘ ایمان وایقان نہیں تھا‘ اس لیے جنت کو پانے کی خاطر موت کو گلے لگانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ قرآنِ کریم نے یہود کے اس دعوے کو بار بار دہرایا ہے‘ لیکن ایسی ایک بھی شہادت عہدِ رسالت مآبﷺ میں دستیاب نہیں ہے کہ کوئی یہودی موت کو گلے لگانے کیلئے تیار ہوگیا ہو‘ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''آپ کہہ دیجیے: اگرآخرت کا گھر سب لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے لیے ہے‘ تو اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو موت کی تمنا کرو (تاکہ تم کل کے بجائے آج جنت میں پہنچ جائو) اور وہ اپنے گزشتہ کرتوتوں کے سبب ہرگز موت کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے‘‘ (البقرۃ: 94)۔ (2) ''آپ کہہ دیجیے: اے یہود! اگر تمہارا یہ گھمنڈ ہے کہ سب لوگوں کو چھوڑ کر صرف تم ہی اللہ کے دوست ہو تو اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو موت کی تمنا کرو اور وہ اپنے گزشتہ کرتوتوں کے سبب کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے‘ (اے رسولِ مکرم!) کہہ دیجیے: بیشک جس موت سے تم فرار اختیار کر رہے ہو وہ ضرور تم پر آنیوالی ہے‘ پھر تم اس ذات کی طرف لوٹائے جائو گے جو ہرغیب اور شہادت کا جاننے والا ہے‘ پس وہ تمہیں بتا دے گا جو تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے‘‘ (الجمعۃ: 6 تا 8)۔ (3) ''اور آپ ضرور یہود کو سب لوگوں حتیٰ کہ مشرکوں سے بھی بڑھ کر زندگی کا حریص پائیں گے‘ ان میں سے ہر ایک کی تمنا ہے کہ کاش وہ ہزار سال جیے‘ حالانکہ یہ درازیِ عمر بھی اُسے عذابِ الٰہی سے نہیں بچا پائے گی‘‘ (البقرۃ: 96)۔
حدیث پاک میں ہے: ''حضرت حارثؓ بن مالک انصاری کا رسول اللہﷺ کے پاس گزر ہوا‘ آپﷺنے پوچھا: حارث! تم نے کیسے صبح کی‘ انہوں نے جواب دیا: (یا رسول اللہﷺ!) میں نے اس حال میں صبح کی کہ میں سچا اور پکا مومن تھا‘ آپﷺنے فرمایا: تمہیں پتا ہے تم کیا کہہ رہے ہو‘ کیونکہ ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے‘ پس تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے‘ انہوں نے عرض کیا: دنیا سے مجھے رغبت نہیں رہی‘ (اپنی منزل کو پانے کے لیے) میں راتوں کو (قیام الیل کر کے) بیدار رہتا ہوں اور دن میں (روزے رکھ کر) پیاسا رہتا ہوں‘ میری کیفیت یہ ہے کہ گویا میں عرشِ الٰہی کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ جنتی میرے سامنے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں اور جہنمیوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ آپﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: حارث! تم نے (حقیقتِ ایمان کو) جان لیا‘ پس اس کو لازم پکڑو‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی: 3367)۔
ابوعبداللہ حکیم ترمذی نے روایت کیا: ''حارثہ نے کہا: مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں عرشِ الٰہی کو سامنے دیکھ رہا ہوں‘ میرے سامنے جنتی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور جہنمی فریادیں کر رہے ہیں‘ میرے دل میں دنیا کی رغبت نہیں رہی‘ میرے نزدیک پتھر‘ ڈھیلا‘ سونا اور چاندی برابر ہیں (یعنی ان چیزوں سے ضرورت کی حد تک واسطہ رکھتا ہوں اور سونے چاندی کو دل میں جگہ نہیں دیتا)‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم نے حقیقتِ ایمان کو جان لیا‘ اسے لازم پکڑو‘ یہ بندگی کا ایسا مقام ہے کہ اللہ نے تمہارے دل کو نورِ ایمانی سے بھر دیا اور اب یہ نُورٌ علیٰ نور ہے‘‘ (نوادر الاصول: ج: 1‘ ص: 145)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں