امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت لیکن فنی اعتبار سے سب سے بڑا مقروض ملک ہے‘ مگر وہاں حکومتی قرضوں کی حد بندی کا نظام موجود ہے۔ اگر حکومت اس حد کو عبور کرے گی تو اسے کانگریس سے منظوری لینا ہو گی۔ جارج بش اور براک اوباما کے دورِ صدارت میں آپ نے سنا ہو گا کہ وفاقی ملازمین کی چھانٹی شروع ہونے والی تھی‘ چنانچہ ان ادوار میں کانگریس کو وفاقی قرضوں کی حد میں بالترتیب پانچ ٹریلین اور ساڑھے چھ ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرنا پڑا۔ پاکستان میں بھی حکومتوں پر قرض لینے کی کوئی تحدید ہونی چاہیے‘ ورنہ اگر اسی رفتار سے قرض بڑھتے چلے گئے تو ہماری پوری معیشت گروی ہو جائے گی اور ہم عالمی ساہوکاروں کے محتاج ہوکر رہ جائیں گے۔ متحدہ ہندوستان میں راجوں مہاراجوں کی عیاش‘ اوباش اور آوارہ نسلوں کا انجام یہی ہوتا تھا کہ ان کی جاگیریں ہندو بنیوں کے ہاتھ گروی ہو جاتی تھیں‘ پس ہم ریاستی سطح پر اسی جانب تیزی سے لڑھکتے چلے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں ان دنوں ایک سوچ پروان چڑھ رہی ہے اور پنجاب گروپ کے چیئرمین جناب عامر محمود نے بھی اس میں حصہ ڈالا ہے کہ صوبوں کی موجودہ ساخت کو ختم کرکے دس پندرہ انتظامی یونٹ بنائے جائیں تاکہ عصبیت کے جراثیم آہستہ آہستہ ختم ہوں‘ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں اور حکومت فیض رساں ثابت ہو۔ یہ خواب تو بلاشبہ خوبصورت ہے لیکن اس کی تعبیر پانا مشکل ہے۔ یہ کوئی نیا تخیل نہیں ہے‘ اس طرح کی بحثیں بیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں بھی چلتی رہی ہیں لیکن ''بیل مَنڈھے نہ چڑھ سکی‘‘۔ الغرض دستور کی بنیادی ساخت میں جوہری تبدیلی لانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ چونکہ ہماری اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ نے جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کو شخصی طور پر آئین میں تبدیلی کا اختیار دے دیا تھا‘ اس لیے انہوں نے آئین میں من پسند تبدیلیاں کیں‘ حکومت اور پالیمنٹ کو گھر بھیجنے کا اختیار آرٹیکل 58-2Bکے تحت اپنے پاس رکھا۔ پرویز مشرف نے ساری دنیا کی جمہوری روش سے ہٹ کر خواتین کی ایک بڑی تعداد کو منتخب اداروں میں جبراً داخل کردیا۔ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں مارشل لاء اٹھانے کی قیمت کے طور پر بالترتیب آٹھویں اور سترہویں ترمیم پارلیمنٹ کو منظور کرنا پڑی اور ان کے تمام اقدامات کو آئین میں تحفظ عطا کیا گیا‘ اس سے پیچیدگیاں اور بڑھ گئیں۔
ایک بحث سکیورٹی سٹیٹ اور فلاحی ریاست کی بھی چلتی رہتی ہے‘ لیکن جب تک اپنے سے پانچ چھ گنا بڑے دشمن کے ساتھ آپ جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں‘ ریاست کی سلامتی ہی ترجیحِ اول رہے گی‘ ورنہ ''نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی‘‘۔ ریاست رہے گی تو کبھی نہ کبھی فلاح کی نوبت بھی آ جائے گی۔ ریاست کی سلامتی‘ بقا اور دوام اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ آئین بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ ریاست کے مختلف ستونوں اور مراکز کیلئے اختیار و اقتدار کی حدود متعین کی جائیں۔ لیکن من حیث القوم ہمارا مزاج حدود کی پاسداری کا نہیں ہے‘ حتیٰ کہ ہم ٹریفک کے اصولوں کی پابندی بھی نہیں کر پاتے‘ جو جدید تمدن اور منظم شہری نظام کا لازمہ ہے۔ ایک بار ٹی وی پر مباحثہ ہو رہا تھا کہ تمدنی شعور کیسے پیدا کیا جائے۔ مختلف شعبوں کے ماہرین اپنی آرا سے نواز رہے تھے‘ ایک ماہرِ نفسیات نے کہا: بچپن میں ماں کی گود سے لے کر سکول اور یونیورسٹی تک اس کی تعلیم ہونی چاہیے۔ اس پر میں نے کہا: شہری مزدور‘ دیہاتی کسان‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیسر‘ ڈاکٹر اور انجینئر یا اپنے ملک میں کسی کو کچھ نہ سمجھنے والے آن بان اور ٹھاٹ باٹ والے سرمایہ دارجب دبئی‘ جدہ‘ ریاض‘ لندن‘ نیویارک اور ٹورنٹو ایئر پورٹ پر اترتے ہیں تو از خود لائن میں لگ جاتے ہیں۔ یہ کسی یونیورسٹی سے شہری قوانین کی پابندی کی ڈگری لے کر نہیں آتے‘ قانون کی حکمرانی خود انہیں سکھا دیتی ہے۔ آج اگر امتیاز و استثنا اور تفاخر کے بغیرکسی کی پروا نہ کرتے ہوئے سب کو ریاست کی طاقت سے قانون کا پابند بنا دیا جائے تو سب تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں گے‘ ورنہ وہی پاکستانی جو ہمیں برطانیہ‘ یورپ‘ امریکہ اور مغربی ممالک کے نظام کی برکات اور فضائل سناتے رہتے ہیں‘ جب کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کے ایئر پورٹ پر اترتے ہیں تو سارے نظم و ضبط کو بھول جاتے ہیں اور قانون توڑنے کو اپنا افتخار سمجھتے ہیں۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں ایک نئے عُمرانی معاہدے کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی اور سماجی میدان میں ایسی متفق علیہ شخصیات نہیں ہیں جو متضاد عناصر کو ایک میز پر بٹھاکر الجھے ہوئے مسائل کو سلجھا سکیں۔ دوسرا ہم مزاج کے اعتبار سے انتہا پسند واقع ہوئے ہیں اور معاملات میں توازن و اعتدال کو قائم نہیں رکھ پاتے‘ کبھی ایک انتہا پر ہوتے ہیں اور کبھی دوسری انتہا پر جبکہ کسی بھی نئے عُمرانی معاہدے کیلئے افراط و تفریط‘ غُلو اور جُمود کو چھوڑنا ہو گا‘ ہر فریق کو اپنے اپنے مؤقف سے کچھ نہ کچھ پیچھے ہٹ کر دوسرے کو جگہ دینا ہو گی‘ کچھ لو اور کچھ دو کا اصول اپنانا ہو گا۔ ہم یا تو فاتح بن کر رہنا چاہتے ہیں یا مفتوح ہونا ہمارا مقدر بن جاتا ہے۔ ہم ایسی پوزیشن لینے کے عادی نہیں ہیں کہ ہر فریق کو محسوس ہو کہ وہ سب کچھ لٹانے کے بجائے کچھ نہ کچھ حاصل کر کے اٹھا ہے‘ اس کیلئے دوسروں کے شخصی‘ جماعتی اور منصبی وقار کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔
اس کا بھی ادراک کرنا ہوگا کہ موجودہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق کا زیادہ عرصے تک چلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔ کھربوں ڈالر مالیت کی جن نایاب معدنیات کی بشارت سنائی جارہی ہے اور ٹرمپ نے جس پٹرول کو دریافت کرنے کی بات کی ہے‘ ہماری دعا ہے کہ یہ خواب اپنی تعبیر پائے اور اللہ تعالیٰ زیرِ زمین‘ برسرِ زمین اور فضاؤں سے پاکستان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے‘ لیکن: ''ہنوز دلی دور است‘‘۔ سعودی عرب‘ عرب امارات‘ ترکیہ‘ آذربائیجان اور ایران وغیرہ سے جس سرمایہ کاری کی بشارت دی گئی ہے‘ ابھی تک اس کی علامات بھی سامنے نہیں آئیں‘ اللہ کرے جلد کوئی صورت نمودار ہو جائے۔ امریکہ کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات کی بحالی بلاشبہ ایک امید افزا بات ہے‘ لیکن امریکہ اور چین کے عالمی مفادات اور ترجیحات ایک دوسرے کی ضد ہیں‘ ہم یہ توازن کب تک قائم رکھ سکتے ہیں یہ ہماری قیادت کی اجتماعی دانش کا امتحان ہے۔ سرِدست ہماری ترجیحِ اول بی ایل اے‘ بی ایل ایف‘ مجید بریگیڈ اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کی دہشت گردی سے نجات پانا ہے‘ اس کیلئے ایران اور افغانستان کی حقیقی اعانت اور عملی تائید وحمایت درکار ہے۔ چین یقینا اس کیلئے کوشش کر رہا ہے‘ ہمیں بھی افغانستان کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کی کوئی دیرپا حکمتِ عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کو بھی چاہیے کہ اسلامی جہادکے نام پر انہیں جو کامیابی ملی ہے‘ انہیں اس نسبت اوراس کی آبرو کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی حکومت کا حجم کم کرنے کے دعوے ضرورکیے تھے‘ مگر اب تک اس میں کوئی نمایاں کامیابی نہیں مل سکی۔ بجلی پیدا کرنے والی اور نقصان میں چلنے والی تقسیم کارکمپنیوں‘ پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل‘ یوٹیلیٹی سٹورز وغیرہ کی نجکاری بھی تاحال نہیں ہو سکی۔ ہرکام میں حکومت کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ حکومت کے اتحادی بھی مزاحمت کرتے ہیں‘ مقتدرہ کی حمایت کے باوجود حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے جنگلات کے کٹاؤ‘ دریاؤں‘ ندی نالوں اور پانی کے بہاؤ کے راستوں میں ہوٹل اور نجی عمارات بنانے کے خلاف بات کی ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی چیز ان کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ زمینوں اور جنگلات کا اختیار صوبائی حکومتوں کے پاس ہے‘ وفاق کے پاس تو صرف وفاقی دارالحکومت کا محدود علاقہ ہے‘ اس لیے سیلاب کی تباہی کے رونے دھونے سے فارغ ہونے کے بعد یہ قوم پھر انہی کاموں میں لگ جائے گی اور ہم ہر سال تباہی کے مناظر دیکھتے رہیں گے کیونکہ مفاد یافتہ طبقہ بہت طاقتور اور حکومت کی پالیسیوں پر حاوی ہے۔