نوٹ: 29 ستمبر 2025ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ میں جنگ کے خاتمے کیلئے مندرجہ ذیل بیس نکاتی منصوبے کا اعلان کیا‘ اس کا مقصد تمام فریقوں کے اسے قبول کرنے کی صورت میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا فوری خاتمہ بتایا گیا ہے‘ اس میں یرغمالیوں کو آزاد کرنا‘ خطے کو غیر مسلح کرنا‘ انسانی امداد‘ عبوری حکومت کا قیام اور طویل مدتی ترقیاتی امور شامل ہیں۔ مندرجہ بالا تمہیدی نوٹ سمیت اس منصوبے کا مکمل انگریزی متن ہم نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس ''گروک‘‘ سے لیا ہے اور ہم نے بامحاورہ اردو ترجمے میں اسے منتقل کرنے کی کوشش کی ہے‘ اس کے نتائج جو بھی مرتب ہوں‘ بہرحال یہ ایک تاریخی دستاویز ہے‘ اس لیے جو حضرات دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے امور کا ریکارڈ محفوظ رکھنا چاہتے ہوں‘ ان کی معلومات کیلئے ہم نے یہ کوشش کی ہے‘ مجوزہ منصوبے کے 20نکات درج ذیل ہیں:
(1) تمام فریقوں کے اس معاہدے کو قبول کرنے کے بعد فریقین کی تمام معاندانہ کارروائیاں روک دی جائیں گی‘ اسرائیل اور حماس کی تمام فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کر دی جائیں گی‘ فریقین اپنے اپنے مقام پر رک جائیں گے‘ تمام فضائی‘ توپ خانے اور زمینی تصادم روک دیے جائیں گے۔ (2) اسرائیل کے اس معاہدے کو قبول کرنے کے بعد 72 گھنٹے کے اندر حماس تمام 48 یرغمالیوں کو (زندہ یا مردہ حالت میں) اسرائیل کے حوالے کردے گا۔ اس کے بدلے میں اسرائیل اُن 250 فلسطینی قیدیوں کو جنہیں‘ عمر قید کی سزا دی گئی ہے‘ آزاد کردے گا۔ نیز 1700 فلسطینی جو سات اکتوبر 2023ء سے اسرائیل کی تحویل میں ہیں‘ وہ بھی آزاد کردیے جائیں گے اور 15 فوت شدہ فلسطینیوں کی لاشیں بھی حماس کے حوالے کر دی جائیں گی۔ (3) حماس کے ارکان جو پُرامن بقائے باہمی اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوں‘ انہیں مکمل امان دیا جائے گا‘ نیز حماس کے جو ارکان غزہ چھوڑنا چاہیں تو جو ممالک انہیں لینے کیلئے تیار ہوں گے‘ وہاں تک انہیں پُرامن راہداری دی جائے گی۔ (4) اس معاہدے کو قبول کرنے کے بعد انسانی امداد کی غزہ آمد پر 19جنوری 2025ء کی سطح پر تمام پابندیاں اٹھالی جائیں گی۔ اس میں (پانی، بجلی اور سیوریج سمیت) بنیادی شہری ڈھانچے‘ ہسپتالوں‘ بیکریوں کی بحالی‘ ملبے کو ہٹانے اور سڑکوں کی بحالی کی مشینری اور سازوسامان کی آزادانہ ترسیل شامل ہیں۔ (5) غزہ کو اسلحے اور دہشت گردی سے پاک کر دیا جائے گا تاکہ پڑوسیوں کیلئے کوئی خطرہ نہ رہے۔ بین الاقوامی نگرانی میں تمام ہتھیاروں‘ سرنگوں اور فوجی ڈھانچے کو تباہ کردیا جائے گا۔ (6) اسرائیلی افواج نے اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ کے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے‘ وہ ان سے بتدریج پیچھے ہٹتی چلی جائیں گی اور غزہ سے مکمل دستبرداری تک ان علاقوں کا قبضہ عرب افواج پر مشتمل بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کو منتقل کرتی چلی جائیں گی‘ ماسوا ان علاقوں کے جو خطرے کے مکمل اختتام تک عارضی سلامتی کے مقاصد کیلئے روک لیے جائیں گے۔ (7) عبوری مقتدرہ کے طور پر غیرسیاسی فلسطینی فنی ماہرین پر مشتمل ہیئتِ انتظامیہ روزمرہ معاملات کو چلانے اور سلامتی کی نگرانی کیلئے ایک ''بین الاقوامی مجلسِ امن‘‘ کے تحت کام کرے گی جس کی سربراہی صدر ٹرمپ کے پاس ہو گی۔ (8) عرب ممالک اور بین الاقوامی شراکت داروں کی افواج پر مشتمل ایک ''بین الاقوامی سلامتی فوج (ISF)‘‘ امن وامان کے قیام کیلئے وہاں متعین کی جائے گی تاکہ دہشتگردی دوبارہ سر نہ اٹھائے اور امدادی سامان کی تقسیم پُرامن طریقے سے ہو۔ (9) پہلے سے طے شدہ تجاویز کے مطابق (مثلاً: ٹرمپ کا 2020ء کا منصوبہ امن برائے فلاح و بہبود اور سعودی عرب اور فرانس کی تجاویز) فلسطینی اتھارٹی بتدریج پیش قدمی کرے گی تاکہ غزہ کا مکمل کنٹرول اور امن وسلامتی قائم کرنے کے قابل ہو جائے۔ (10) عبوری مقتدرہ (Transitional Authority) جدید اور فعال حکمرانی کے معیارات قائم کرے گی تاکہ غزہ کی تعمیرِ نو کیلئے سرمایہ کاروں کیلئے ترغیب پیدا ہو اور غزہ کی بحالی کیلئے امدادی ذرائع پیدا ہوں۔ (11) شرقِ اوسط کے کامیاب کرشماتی شہروں کی طرح ماہرین کی ایک جماعت غزہ کی تعمیرِ نو کیلئے ایک جامع منصوبہ بنائے گی تاکہ غزہ کو ہائی ٹیک میگا سٹی اور ایک تعمیری حب کے طور پر فروغ دیا جا سکے اور اسے ایک پُرکشش تخیّلاتی Reviera یعنی عالمی سیاحتی اور تفریحی مرکز بنایا جا سکے۔ (12) فلسطینیوں کو جبری طور پر غزہ سے بے دخل نہیں کیا جائے گا‘ البتہ اپنی رضامندی سے رضاکارانہ طور پر جو لوگ منتقل ہونا چاہیں اور غزہ سے ہجرت کرنا چاہیں‘ تو تمام تر ترغیبات کے ساتھ ان کیلئے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ (13) مکانات‘ سکولوں‘ ہسپتالوں‘ رفاہِ عامہ کے مقامات کی تعمیر کیلئے فنی معاونت‘ نیز ترجیحی طور پر ملبے کی صفائی اور الیکٹرک کی بحالی کیلئے بین الاقوامی سطح پر فنڈ قائم کیے جائیں گے۔ (14) اسرائیل کو مکمل ضمانت فراہم کی جائے گی کہ غزہ کو اسلحہ سے پاک رکھا جائے گا اور اس کی نگرانی امریکہ‘ اسرائیل اور عرب ریاستیں مشترکہ طور پر کریں گی تاکہ دوبارہ کوئی مسلح ہو کر ماحول کو خراب نہ کر سکے۔ (15) عرب ممالک (قطر‘ مصر‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور اردن) رابطہ کاری اور امداد کی ترسیل کے فرائض انجام دیں گے اور'' بین الاقوامی سلامتی فورس‘‘ اس میں حصہ ڈالے گی اور اس منصوبے کی کامیاب تکمیل کیلئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کو یقینی بنائے گی۔
(16) ''بین الاقوامی مجلس امن (BOP)‘‘ کے تحت ایک وقف فنڈ قائم ہو گا جس میں امریکہ‘ یورپین یونین‘ خلیجی ریاستیں اور دیگر غزہ کے ترقیاتی امور کیلئے اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے اور ان ساری رقوم کا شفاف آڈٹ بھی ہو گا۔ (17) حقوقِ انسانی کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق آزادانہ معائنہ کار اس منصوبے کی نگرانی کریں گے اور عبوری دور میں اس تک صحافیوں اور این جی اوز کو بھی رسائی حاصل ہو گی۔ (18) خطے کے مکمل غیرمسلح ہونے کے بعد غزہ کی حکمرانی میں حماس کا براہِ راست یا بالواسطہ یا پراکسی کے ذریعے کوئی کردار نہیں ہو گا۔ (19) یہ منصوبہ ایک اصلاح یافتہ فلسطینی اتھارٹی کے تصور کو مدد فراہم کرتا ہے تاکہ مغربی کنارے (West Bank) کے ساتھ یکجہتی اختیار کرکے ایک غیرمسلح فلسطینی ریاست قائم ہو سکے‘ جس کی بنیاد تسلیم شدہ سرحدوں اور سلامتی کے انتظامات پر ہو۔ (20) پُرامن بقائے باہمی‘ خوشحالی اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کیلئے امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مکالمے کا سلسلہ جاری رکھے گا تاکہ ایک سیاسی اُفق قائم ہو سکے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اس کا اعلان کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ اسے عرب اور مسلم ممالک سعودی عرب‘ مصر‘ اردن‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر‘ ترکیہ‘ انڈونیشیا اور پاکستان کی تائید حاصل ہے۔ 29 ستمبر 2025ء کو وزیراعظم پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا اور وزیر خارجہ نے کہا: ''سعودی عرب کے ذریعے یہ منصوبہ ہمیں موصول ہوا‘ میں نے آدھے گھنٹے کی مہلت مانگی‘ سیکرٹری خارجہ سے مشاورت کی‘ کچھ اپنا دماغ استعمال کیا اور بعض ترمیمات و اضافات تجویز کیے‘ ہماری تجویز کردہ ساری باتیں اس میں شامل نہیں ہیں‘ لہٰذا یہ پاکستانی دستاویز نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے اسے بڑا ''بریک تھرو‘‘ قرار دیا اور کہا: ''پاکستان نے اسے مسلم ممالک کی مشترکہ مشاورت کے بعد قبول کیا ہے‘‘، مزید کہا: ''منصوبے کا مقصد غزہ میں امن و استحکام کا قیام ہے‘ غزہ میں امن فورس کیلئے فوجیوں کی تعیناتی کا فیصلہ اعلیٰ قیادت کرے گی اور اس کا اعلان جلد ہو گا۔ 1967ء کی سرحدوں کی بنیاد پر دو ریاستی حل ہونا چاہیے اور اس منصوبے کو سلامتی کونسل کی سرکاری دستاویز کا درجہ ملنا چاہیے‘‘۔ نیز قطر اور مصر نے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے اور حماس پر زور دیا ہے کہ وہ اسے قبول کرے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ یہ بھی کہا کہ بعض نکات وضاحت طلب‘ اور مزید مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس منصوبے پر ہم اپنا تبصرہ آئندہ کالم میں کریں گے۔ (جاری)