امتِ مسلمہ کو قوی توقعات تھیں کہ افغانستان میں امارتِ اسلامیہ کے قیام کے بعد ایک پُرامن مثالی اسلامی معاشرہ قائم ہو گا‘ جوامت کیلئے قابلِ تقلید اور ملتِ کفر کیلئے باعثِ رشک ہو گا۔ دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان نے جہادِ افغانستان کے دوران لاکھوں افغانوں کو پناہ دی‘ ملک میں جگہ جگہ خیمہ بستیاں بنائیں‘ ان خیمہ بستیوں میں ضرورت کے مطابق مدارس وسکول بنائے‘ ان کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ اس دوران وہ پاکستانی پاسپورٹ پر بیرونِ ملک گئے‘ مغربی ممالک کی شہریت سے مستفید ہوئے‘ مغربی اور خلیجی ممالک میں بڑے بڑے کاروبارکیے حتیٰ کہ پاکستان میں بھی بڑے بڑے کاروبار قائم کیے‘ جو پاکستانیوں کیلئے بھی قابلِ رشک تھے اور ہیں۔ جبکہ پاکستانیوں کے حصے میں کے جی بی‘ خاد‘ را اور موساد کی دشمنی آئی جس کے نتیجے میں بم دھماکے ہوئے اور انتشار پیدا ہوا۔ ہر فورم پر روس کی مخالفت برداشت کرنا پڑی‘ پھر جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اُن کو تسلیم کیا اور پوری دنیا کی مخالفت مول لی۔ نائن الیون کے بعد جب بوجوہ طالبان کی حکومت ختم ہو گئی تو ان کی قیادت کو پاکستان ہی میں پناہ ملی‘ حالانکہ وہ سب امریکہ کو مطلوب تھے‘ لیکن پاکستان نے عالمی برادری کی ناراضی مول لے کر ان سے وفا کی‘ دوحہ میں امریکہ طالبان مذاکرات کیلئے پاکستان ہی نے حالات سازگار بنائے اور وہاں جانے کیلئے سفری دستاویزات فراہم کیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کی ''وار آن ٹیرر‘‘ کا شراکت دار بننا قبول کیا‘ مگر پاکستان کی تمام دینی قوتوں نے اس سے اختلاف کیا‘ مشرف کے فیصلے کو ہمیشہ ناپسند کیا۔ پھر جب کابل میں دوبارہ طالبان حکومت ''امارتِ اسلامیہ افغانستان‘‘ کے نام سے قائم ہوئی تو اس کیلئے خیر مقدمی کلمات کہے‘ خود ہم نے بھی کئی کالم ان کے حق میں لکھے۔ لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ماضی کے تمام رشتوں اور پاکستان کی طویل مہمان نوازی کو بھلا کر حکومتِ افغانستان نے پاکستان میں فساد پھیلانے والے خارجی گروہ کو پناہ دے رکھی ہے‘ انہوں نے افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ پاکستان میں ہماری سلامتی کے اداروں اور پبلک مقامات پر جو دہشت گردی ہوتی ہے‘ بم بلاسٹ ہوتے ہیں‘ اس کی منصوبہ بندی وہیں سے ہوتی ہے۔ پھر بلوچستان کے علیحدگی پسند گروہوں ''بی ایل اے‘ بی ایل ایف اور مجید بریگیڈ وغیرہ‘‘ کے ساتھ بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے ٹی ٹی پی کا ایک اشتراک ہے اور اس کے قرائن وشواہد بھی موجود ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے‘ اُس نے آج تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا‘ جموں اور کشمیر پر اس نے نہ صرف غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے بلکہ بعض علاقوں کو بھارتی وحدت میں ضم کر دیا ہے اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی بھارتی آئین میں جو خصوصی حیثیت تھی‘ اُسے بھی ختم کر دیا ہے۔ اسکے باوجود امارتِ اسلامیہ افغانستان کے بھارت کیساتھ روابط اور دوستی کے رشتے قائم کرنا جذبۂ اخوتِ اسلامی کے سراسر خلاف ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے: امارتِ اسلامیہ افغانستان یہ تمام معاندانہ سلسلے ختم کرے‘ پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے والے گروہوں کو پناہ دینے‘ خفیہ کمین گاہیں فراہم کرنے اور پاکستان میں انتشار پھیلانے کیلئے منصوبہ بندی کے مراکز کو یکسر ختم کرے ۔ نیز یہ تمام ناخوشگوار اور تکلیف دہ سلسلے ختم کر کے پاکستان کیساتھ پُرامن بقائے باہمی کا ایک جامع اور دیرپا معاہدہ کرے۔ ہم سعودی عرب‘ ترکیہ اور قطر کے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مکہ مکرمہ میں ایک اجلاس بلا کر پاکستان اور افغانستان کے مابین حالات کو معمول پر لانے میں اپنا کردار ادا کریں اور ایک جامع معاہدے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کریں۔ ہماری مسلح افواج نے اس دہشتگردی اور افغانستان سے پاکستان کی سرحدوں کے اندر صریح دراندازی اور جارحیت کا بامرِ مجبوری جواب دیا ہے‘ یہ منظر اگرچہ ہمارے لیے غیر متوقع اور ناخوشگوار ہے‘ لیکن ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں‘ کیونکہ پاکستان کا داخلی امن‘ بقا اور سلامتی ہر چیز پر مقدم ہے۔
پوری قوم وطنِ عزیز کے دفاع کیلئے مسلّح افواج کی بے مثال قربانیوں اور شہادتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ملک کے دفاع کیلئے اپنی شہادتوں کا نذرانہ پیش کرنے والے مجاہدین پوری قوم کے محسن ہیں‘ اُنکی قربانیوں کا صلہ ہے کہ تمام اہلِ پاکستان ملک کے اندر امن‘ سلامتی اور چین کیساتھ رہ رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کا تنازع دونوں میں سے کسی کیلئے بھی مفید اور ثمر آور نہیں ہے‘ اس سے صرف اسلام اور پاکستان وافغان دشمنوں کو فائدہ پہنچے گا۔ امارتِ اسلامیہ کے رہنمائوں کو یہ بات بھی سوچنی چاہیے کہ وہ بھارتی جو روسی اور امریکی مزاحمت کے تیس سالوں میں طالبان کو دہشتگرد اور وحشت وبربریت کی علامت کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں‘ آج انکو وہی طالبان اتنے عزیز کیسے ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ عزت افزائی پاکستان کے خلاف ان کو استعمال کرنے کیلئے ہے‘ حالانکہ تعلقات کیلئے مشترکہ قدریں ضروری ہوتی ہیں۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کی پاکستان دشمنی کے سوا بھارت کیساتھ کون سی قدر مشترک ہے۔ الغرض جب بے جوڑ تعلقات پروان چڑھتے ہیں تو کوئی ایک فریق استعمال ضرور ہوتا ہے۔ افغانستان قدرتی طور پر ایک خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے‘ اُس کی بین الاقوامی تجارت کا آسان ترین راستہ پاکستان ہی ہے‘ نیز بیشتر ضروریات میں اُس کا انحصار پاکستان پر ہے‘ اس لیے پاکستان کی قیمت پر بھارت کی طرف افغانستان کا جھکائو ناقابلِ فہم ہے۔ ایک وقت تھا کہ سابق طالبان حکومت نے ساری دنیا کی مخالفت مول لیتے ہوئے بدھا کا مجسمہ گرایا تھا‘ کیونکہ اُن کے نزدیک یہ شرک اور بت پرستی کی علامت تھا اور آج امارتِ اسلامیہ افغانستان کے وزیرِ خارجہ ملا امیر متقی پاکستان سے نفرت کے اظہار کیلئے بت پرست ملک بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔
یہ بھی ایک اَساطیر اور اَفسوں (Myth) ہے کہ افغانستان ہمیشہ ناقابلِ تسخیر رہا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ قُرونِ اُولیٰ میں بدھ مت کے پیروکار اشوکا کی حکومت کابل پر قائم رہی‘ نیز مغل حکمران بھی افغانستان پر قابض رہے ہیں اور ہندوستان پر حملہ کرنیوالے مغل حکمرانوں کی افواج میں پشتون قبائل بھی شامل رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ افغانوں کو گوریلا جنگ کا تجربہ ہے‘ لیکن پاکستان کو افغانستان میں دراندازی کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ گوریلا جنگ کا تجربہ تو تب آزما سکتے ہیں کہ کوئی روس یا امریکہ کی طرح آپکے ملک کے اندر آ کر بیٹھ جائے۔ وہ بیرونی حملہ آور قوتیں تھیں‘ پاکستان کو اس کی کوئی ضرورت ہے اور نہ پاکستان کے ایجنڈے میں افغانستان کو زیرِ نگیں رکھنا ہے۔ پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے بھی افغان شرپسندوں اور دراندازوں کی مشکیں کس سکتا ہے۔ نیز آمنے سامنے کی میدانی جنگ میں پاکستانی افواج کا تجربہ افغانوں سے بہت زیادہ ہے۔ لیکن ہماری دعا ہے کہ دونوں ممالک کے جنگی تجربات ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے اسلام دشمن عناصر کے خلاف استعمال ہوں۔
ہماری مخلصانہ رائے یہ ہے کہ پُرامن بقائے باہمی دونوں پڑوسی برادر مسلم ممالک کے مفاد میں ہے‘ افغان حکومت ابھی تک عبوری نظم کے تحت قائم ہے‘ ابھی دنیا نے اسے تسلیم نہیں کیا اور اگر وہ اپنے اردگرد کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہو گی تو دنیا اُسے کیسے تسلیم کرے گی۔ ہم تو ماضی میں لکھ چکے ہیں کہ افغانستان کی معیشت پاکستان کے ساتھ اتنی جڑی ہوئی ہے کہ پاکستان کو اپنی اقتصادی منصوبہ بندی میں افغانستان کی ممکنہ ضروریات کو شامل کرنا چاہیے‘ کیونکہ اگر باضابطہ تعلقات نہیں ہوں گے اور سرحدوں پر طے شدہ راستوں سے درآمد وبرآمد نہیں ہو گی تو ماضی کی طرح سمگلنگ کو راہ ملے گی اور اس سے دونوں حکومتوں کی آمدنی متاثر ہو گی۔